Inquilab Logo

منا ڈے کے گھر والوں کی خواہش تھی کہ وہ قانون کی تعلیم حاصل کریں لیکن اُن کی دلچسپی گلوکاری میں تھی

Updated: March 20, 2023, 2:37 PM IST | anees amrohvi | Mumbai

بالآخراُن کے والد پورن چندر ڈے کو بیٹے کی خواہش کے سامنے جھکنا پڑا، انہوں نے شدید ناراضگی کے ساتھ مناڈے کو موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دے دی، اس طرح اپنے چچا کے سی ڈے کی شاگردی میں ان کی تربیت کا آغاز ہوا

Singer Munna Dey who created the magic of her voice through films from the 4th to the 8th decade
گلوکار منا ڈے جنہوں نے چوتھی سے آٹھویں دہائی تک فلموں کے ذریعہ اپنی آواز کا جادو جگایا

کلکتہ کے ایک مہذب خاندان کے پورن چندر جی کے یہاں یکم مئی ۱۹۱۹ء کومناڈے کا جنم ہوا۔ ان کی والدہ کا نام مہامایا ڈے تھا۔ مناڈے کا گھر کا نام پربودھ چندر ڈے تھا۔ منا ڈے کے ذہن پر بچپن ہی سے اپنے چچا سنگیت آچاریہ کےسی ڈے کا اثر تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم قریب ہی کے ایک چھوٹے سے پاٹھ شالہ میں حاصل کی۔ بعد ازاں انہوں نے اسکوٹش چرچ کالج میں داخلہ لے لیا اور پھر وِدیا ساگر کالج سے گریجویشن کیا۔طالب علمی کے زمانے ہی سے منا ڈے کو باکسنگ اور کشتی میں بڑی دلچسپی تھی۔
 کولکاتا کے وِدیا ساگر کالج سے گریجویٹ ہونے کے بعد پربودھ چندر ڈے ایک دوراہے پر کھڑے تھے۔ گھر والوں کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا قانون کی تعلیم حاصل کرے جبکہ خود مناڈے موسیقی کی تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے۔ آخر ان کے والد پورن چندر ڈے کو بیٹے کی خواہش کے سامنے نرم ہونا پڑا اور شدید ناراضگی کے ساتھ انہوں نے مناڈے کو موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دے دی اور ان کے چچا کے سی ڈے کی شاگردی میں ان کی تعلیم شروع ہو گئی۔ پہلے ہی دن ان کے ہاتھوں میں تان پورہ پکڑا دیا گیا اور آواز کا ریاض بھی شروع ہو گیا۔
 کے سی ڈے یعنی کرشنا چندر ڈےنیو تھیٹر کے اسٹار گلوکار اور موسیقار تھے۔ پربودھ چندر کو’منّا‘نام انہوں نے ہی دیا تھا۔  باٹھلااور رویندر کی شکلوں میں سنگیت کولکاتا کے لوگوں کی نسوں میں بہتا تھا۔ کےسی ڈے راگوں میں نغمگی لانے کیلئے مشہور تھے، یہی چیز بعد میں مناڈے کو وراثت میں ملی۔ ’تیری گٹھری میں لاگا چور مسافر...‘ اور’بابا من کی آنکھیں کھول...‘ کےسی ڈے کے دل کی آواز تھی۔ جب مناڈے ’لاگا چنری میں داغ چھپائوں کیسے، گھر جائوں کیسے...‘ اور’ندیا چلے، چلے رے دھارا....‘‘ گاتے ہیں تو اس میں ایسے ڈوب جاتے ہیں جیسے وہ کوئی گیت نہیں گا رہے ہوں بلکہ کسی کی عقیدت میں بھجن گا رہے ہوں۔
 نیو تھیٹر ٹوٹنے کے بعد ۱۹۴۰ء میں کے سی ڈے نے بمبئی کا رُخ کیا۔ مناڈے بھی ان کے ساتھ بمبئی آگئے، جہاں مناڈے موسیقار ایچ پی داس کے معاون بن گئے۔ ۱۹۴۳ء میں انہیں پہلا بریک فلم ’رام راجیہ‘ میں ملا۔ پرکاش پکچرس کے وجے بھٹ نے اس فلم کیلئے کےسی ڈے سے گانے کی فرمائش کی لیکن انہوں نے پلے بیک دینے سے منع کر دیا اور ساتھ ہی مناڈے کی سفارش کی۔ موسیقار شنکر رائو کو مناڈے پر یقین نہیں تھا مگرآڈیشن کے بعد مناڈے کی صلاحیتوں کا اعتراف کر لیا گیا۔
 ۱۹۴۳ء میںانہوں نے سب سے پہلے فلم ’تمنا‘ سے فلمی پلے بیک گانے کا باقاعدہ کام شروع کیا۔ اس فلم میں کے سی ڈے کی موسیقی تھی اور پہلا گانا مناڈے نے ثریا کے ساتھ گایا تھا۔ یہ گانا کافی مقبول ہوا تھا۔ اس کے بعد سچن دیو برمن کی موسیقی میں فلم ’مشعل‘ کیلئے ایک نغمہ ’اوپر گگن وشال‘ مناڈے نے سولو گایا تھا۔ ۱۹۵۰ء میں نمائش کیلئے پیش کی گئی فلم ’مشعل‘ میں جب مناڈے نے اپنی آواز کا جادو جگایا تو یہ فلم بعد میں بنگالی اور مراٹھی میں بھی بنائی گئی اورانہوں نے ہی گانے ریکارڈ کرائے۔ ۱۹۵۲ء میں فلم ’امربھوپالی‘ کے گانوں سے ایک باصلاحیت گلوکار کے طور پر اُن کی پہچان بنی۔
 انہوںنے بھیم سین جوشی کے ساتھ ایک دو گانا ’’کیتکی گلاب جوہی‘‘ ریکارڈ کرایا۔ کشور کمار کے ساتھ مناڈے نے کئی مقبول گانے گائے۔ خاص طور پر فلم ’پڑوسن‘ کا گانا ’’ایک چتر نار کرکے سنگھار...‘‘ اور فلم ’شعلے‘ کا گانا ’’یہ دوستی ہم نہیں توڑیں گے‘‘ کشور کمار کے ساتھ گائے ہوئے گانوں میں زیادہ مقبول ہوئے۔ مناڈے نے بنگالی فلموں کیلئے ہیمنت کمار کے ساتھ بھی کئی گانے ریکارڈ کرائے اور دوسرے بنگالی موسیقاروں کے ساتھ بھی انہوں نے بنگالی فلموں کیلئے اپنی آواز کا استعمال کیا۔ ایک بنگالی فلم ’سندھیا بیلا‘ کیلئے مناڈے نے لتا منگیشکر کے ساتھ دو گانا ’’کے پروتھوم کاچے ایسے چی‘‘ ریکارڈ کرایا جو کافی مقبول ہوا۔ مناڈے کی آواز میں اور ان کی موسیقی میں رابندرا سنگیت کی جھلک نمایاں طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ مناڈے نے اپنی عمر کے آخری پڑاؤ تک آتے آتے تقریباً چار ہزار سے زائد فلمی نغمے ریکارڈ کرائے ہیں۔
 مناڈے تقریباً ۵۰؍ سال فلمی دنیا میں عزت واحترام کی زندگی گزارنے کے بعد کافی عرصہ سے بنگلور میں مستقل سکونت اختیار کئے ہوئے تھے۔ حالانکہ انہوں نے رابطے کیلئے کولکاتا کا پتہ بھی دے رکھا تھا۔ مناڈے کافی عرصے تک بڑے پیمانے پر دنیا بھر میں موسیقی کے پروگرام کرنے جاتے رہے اور اِس طرح وہ نہ صرف ہندوستانی موسیقی کو دُنیا بھر میں پھیلا رہے تھے بلکہ ہندوستان کا نام بھی روشن کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنی مادری زبان بنگالی میں اپنی سوانح بھی تحریر کی ہے جو ’’جبونر جلسا گھورے‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہو چکی ہے۔ یہ کتاب انگریزی میں ’’میموریز کم الائیو‘‘ کے نام سے اور ہندی میں ’یادیں جی اُٹھیں‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ مراٹھی میں شائع اس کتاب کا عنوان ’’جبونر جلسا گھورے‘‘ ہی ہے۔
 ۱۹۴۲ء میں اپنی فلمی زندگی کا آغاز کرنے والے منا ڈے کو۱۹۴۴ء میں شہنشاہ جذبات دلیپ کمار کی پہلی فلم ’جوار بھاٹا‘کیلئے گانے ریکارڈ کرانے کا موقع ملا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے گانوں سے  آراستہ ’’مہاکوی کالی داس (۱۹۴۴ء)، گیت گووند (۱۹۴۷ء)، آوارہ (۱۹۵۱ء)، دو بیگھہ زمین (۱۹۵۳ء)، پرنیتا (۱۹۵۳ء)، بوٹ پالش (۱۹۵۴ء)، شری چار سو بیس (۱۹۵۵ء)، کابلی والا (۱۹۶۱ء)، وقت (۱۹۶۵ء)، تیسری قسم (۱۹۶۶ء)، اُپکار (۱۹۶۷ء)، پالکی، پڑوسن، میرے حضور، نیل کمل (۱۹۶۷ء)، ایک پھول دو مالی (۱۹۶۹ء)، میرا نام جوکر، آنند (۱۹۷۰ء)، ریشما اور شیرا (۱۹۷۱ء)، باورچی (۱۹۷۲ء)،  ہندوستان کی قسم، ستیم شیوم سندرم (۱۹۷۸ء)، عبداللہ، کرانتی (۱۹۸۰ء)، لاوارث (۱۹۸۱ء) اور پرہار (۱۹۹۰ء) جیسی کئی اہم فلمیں شامل ہیں۔
 ان کے گائے ہوئےمقبول نغموں میں سے چند نغمے یہاں پیش کئے جارہے ہیں۔
nاے میری زہرہ جبیں.... (فلم: وقت)
nاے میرے پیارے وطن.... (فلم: کابلی والا)
nاے بھائی ذرا دیکھ کے چلو.... (فلم: میرا نام جوکر)
nجوڑی ہماری جمے گا کیسے جانی....‘‘ (فلم: اولاد)
nقسمیں وعدے پیار وفا سب....‘‘(فلم: اُپکار)
nنہ تو کارواں کی تلاش ہے....‘‘ (فلم: برسات کی رات)
nاوپر گگن وشال..... (فلم: مشعل)
nپردہ اُٹھے سلام ہو جائے.....‘‘ (فلم: دل ہی تو ہے)
nتو پیار کا ساگر ہے..... (فلم: سیما)
nجھنک جھنک توری باجے پایلیا... (فلم: میرے حضور)
 یہ بھی حقیقت ہے کہ فلمی دنیا میں مناڈے کو وہ مقام حاصل نہ ہو سکا جس  کے وہ حقدار تھے۔  ان کو بہت کم اہمیت دی گئی جبکہ انہوں نے ایسے مشکل گیت بھی بڑی عمدگی اور فنکارانہ چابکدستی سے ریکارڈ کرائے ہیں جو دوسرے فنکار ادا کرنے سے قاصر رہے، لیکن مناڈے نے کبھی کوئی شکوہ نہیں کیا۔ وہ ایسے لوگوں کو ہمیشہ یاد رکھتے تھے جنہوں نے انہیں یاد رکھا اور ان لوگوں کا نام بھی عزت واحترام سے لیتے تھے جنہوں نے وقت بدلنے کے ساتھ نگاہیں پھیر لیں۔
   راج کپور نے اپنے لئے منا ڈے کی آواز کا استعمال زیادہ کیا۔ راج کپور کیلئے ان کی آواز میں گائے ہوئے جو نغمے زیادہ مقبول ہوئے، ان میں فلم ’چوری چوری‘ کا  نغمہ ’’یہ رات بھیگی بھیگی....‘‘ اور ’’آجا صنم، مدھر چاندنی میں ہم‘‘، فلم ’شری چار سو بیس‘ کا مشہور گانا ’’پیار ہوا اقرار ہوا ‘‘ اور فلم ’میرا نام جوکر‘ کا نغمہ ’’اے بھائی ذرا دیکھ کے چلو‘‘قابل ذکر ہیں۔  مناڈے کوان کی گلوکاری کی خدمات کے اعتراف میں کئی ایوارڈز سے نوازا گیا ہے۔ ۱۹۶۹ء میں فلم ’میرے حضور‘ کے نغمے ’’جھنک جھنک توری باجے پایلیا‘‘کیلئے بہترین گلوکار کا نیشنل فلم ایورڈ دیا گیا۔ ۱۹۷۰ء میں فلم ’میرا نام جوکر‘ کے گیت ’’اے بھائی ذرا دیکھ کے چلو‘‘ کیلئے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ۱۹۷۱ء میں بنگالی فلم’نشی پدما‘ کے گانوں کیلئے نیشنل فلم ایوارڈ دیا گیا۔ ۱۹۷۱ء میں ہی حکومت  کی طرف سے مناڈے کو ’پدم شری‘ سے نوازا گیا۔ ۱۹۸۵ء میں حکومت مدھیہ پردیش نے لتا منگیشکر ایوارڈ سے  نوازا۔ ۲۰۰۳ء میں حکومت مغربی بنگال کی طرف سے اُستاد علاء الدین خان ایوراڈ سے نوازا گیا۔ ۲۰۰۴ء میں رابندر بھارتی یونیورسٹی سے، ۲۰۰۵ء میں بردوان یونیورسٹی سے اور ۲۰۰۸ء میں جادھو پور یونیورسٹی سے مناڈے کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا۔ ۲۰۰۵ء میں حکومت مہاراشٹر نے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا اور حکومت  نے پدم وِبھوشن سے سرفراز کیا۔ ۲۰۰۹ء میں انہیں حکومت کی طرف سے فلمی دُنیا کا سب سے بڑا اعزاز ۲۰۰۷ء کا ’’دادا صاحب پھالکے ایوارڈ‘‘ دیا گیا جو اُن کی زندگی بھر کی فلمی خدمات کا سب سے بڑا اعتراف ہے۔
 مناڈے نے بنگلور کے ایک اسپتال میں ۲۴؍اکتوبر ۲۰۱۳ء کی نصف شب میں ۳؍ بج کر ۵؍ منٹ پر آخری سانس لی اور اس دنیائے فانی سے نجات حاصل کر لی

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK