Inquilab Logo

تشبیہات میں منٹو کی ذہنی اور جذباتی سوانح عمری دھڑک رہی ہے

Updated: January 24, 2021, 6:05 PM IST | Mohammad Aslam Parvez

گزشتہ ہفتےشائع ہونے والے مضمون ’’ منٹوکے یہاں تشبیہ غیر ضروری تفصیلات سے بچنے کا ایک فنکارانہ وسیلہ ہے‘‘ کا دوسرا اور آخری حصہ جس میں منٹوکی تشبیہات کے سلسلے میں ان کے افسانوں سے مزید چند مثالیں پیش کی گئی ہیں

Saadat Hasan Manto.Picture :INN
سعادت حسن منٹو ۔ تصویر:آئی این این

منٹو کا تخلیقی استدلال واقعات، اشیاء، مظاہر اور موجودات میں اس طرح مدغم ہو جاتا ہے کہ اس میں نئے معنیاتی امکانات طلوع ہوتے معلوم پڑتے ہیں۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں منٹو نے نہ صرف گرد و پیش پھیلی متنوع زندگی پیش کرنے کے لئے تشبیہات کا سہارا لیا بلکہ کرداروں کو اندر سے دیکھنے اور ان کی حرکت و عمل و تاثرات کی گرہیں کھولنے کے لئے تشبیہات کو وسیلے کے طور استعمال کیا۔سراج مختصر سی تھی مگر اس اختصار کے باوجود بڑی جامع معلوم ہوتی تھی۔ ایسا لگتا تھا وہ ایک صراحی ہے جس میں اس کے حجم سے زیادہ ملی ہوئی شراب بھرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ (سراج)۔  یہاں سراج کے کردار کے لئے اپنے حجم سے زیادہ بھری شراب کی صراحی کتنی مناسب اور موثر تشبیہ ہے۔ یہ منٹو کی افسانوی منصوبہ بندی اور کرافٹ کا ایک اہم tool  ہے جس سے کئی بار وہ کردار نگاری کاتو کئی بار فضا آفرینی کا کام لیتا ہے۔ اس پس منظر میں ڈھونڈو کا تعارف ان الفاظ میں کرایا گیا ہے: 
’’اس کا اڈاشروع سے یہی رہا تھا، بجلی کے کھمبے کے ساتھ...کھمبا اس کا نشان بن گیا تھا بلکہ مجھے تو وہ ڈھونڈو ہی معلوم ہوتا ہے۔میں جب بھی اس کھمبے سے گزرتا اور میری نظر اس کھمبے پر پڑتی جس پر جگہ جگہ چونے اور کتھے کی انگلیاں پونچھی گئی تھیں تو مجھے ایسا لگتا کہ ڈھونڈو کھڑا ہے اور کالے کانڈی اور سینکلی سپاری والا پان چبا رہا ہے۔ یہ کھمبا کا فی اونچا تھا۔ ڈھونڈو بھی دراز قد تھا۔ اس کھمبے کے ساتھ ٹیلیفون کے محکمے نے ایک بکس لگا رکھا تھا جس کے ذریعے وقتاً فوقتاً تاروں کی درستی کی جانچ پڑتال کی جاتی تھی۔ میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ ڈھونڈو بھی اسی قسم کا ایک بکس ہے جو لوگوں کی جنسی پڑتال کےلئے کھمبے کے ساتھ لگا رہتا ہے۔‘‘ (سراج) یہ تعارفی جملے نہ صرف ڈھونڈو کے کردار اور اس کے ماحول کو پیش کرتے ہیں بلکہ بجلی کے بے حس اور بے جان کھمبے کو منٹو نے نہایت فنکارانہ ڈھنگ سے ایک جیتے جاگتے کردار میں بدل دیا۔ فضا آفرینی اور پیکر سازی کا کام بھی منٹو نے تشبیہات اور استعارات سے لیا لیکن افسانوی کینواس پر نمودار ہونے والی تشبیہات کہیں بھی اس کی دستخط نہیں بنتیں۔ منٹو کے افسانوں میں تشبیہات کا استعمال کئی بار functional دکھائی دیتا ہے۔ واجبی...مگر اس کی اصل معنویت پورے افسانوی چوکھٹے میںہی منکشف ہوتی ہے مثلاً ’’ہتک‘‘ میں کتے کی خارش زدہ جلد کو پیر پونچھنے والے ٹاٹ سے تشبیہ دی گئی ہے مگر افسانے کے اختتام میںیہ زیادہ چمک کر سامنے آتی ہے۔ اسی طرح ’سراج‘ میں منٹو نے افسانے کے ابتدائی پیراگراف میں ڈھونڈو کے کردار کو بجلی کے کھمبے سے جو تشبیہ دی ہے وہ افسانے کے بنیادی دھارے کو شدید کرنے اور اختتام پر تاثر کی وحد ت کو بڑھانے کا ایک بامعنی ذریعہ بن جاتی ہے۔ اس کے علاوہ منظر نگاری اور فضا بندی کے لئے تشبیہ اور استعارے کا استعمال منٹو نے اس فنکارانہ خوبی سے کیا ہے جیسے  پورا منظر  جاگ اٹھا ہو۔ میں یہاں محض چند مثالوں پر اکتفا کروں گا: (۱)آسمان بالکل صاف تھا۔ بادلوں سے بے نیاز، بہت بڑے خاکستری تمبو کی طرح ساری بمبئی پر تنا ہوا تھا۔ حدنظر تک جگہ جگہ بتیاں روشن تھیں۔ ترلوچن نے ایسامحسوس کیا تھا کہ آسمان سے بہت سارے ستارے جھڑکربلڈنگوں سے، جو رات کے اندھیرے میں  درخت معلوم ہوتی تھیں، اٹک گئے ہیں اور جگنوئوں کی طرح ٹمٹما رہے ہیں۔ (موذیل)(۲) بڑی بڑی لہریں آہستہ آہستہ اُٹھ رہی تھیں اور ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ بہت گہرے رنگ کا قالین ہے جسے ادھر سے ادھر سمیٹا جا رہا ہے ۔ (بانجھ) (۳)دونوں پہاڑیاں جن پر مورچے تھے قریب قریب ایک قد کی تھیں۔ درمیان میں چھوٹی سی میز پوش وادی تھی جس کے سینے پر ایک موٹا نالہ موٹے سانپ کی طرح لوٹتا رہتا تھا۔ (ٹیٹوال کا کتّا) (۴) ستمبر کا انجام اکتوبر کے آغاز سے بڑے گلابی انداز میں بغل گیر ہو رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ موسم سرما اور موسم گرما میں صلح صفائی ہو رہی ہے ۔ (ٹیٹوال کا کتّا)یہ محض منظر نگاری نہیں ہے۔ موٹے نالے کا سانپ کی طرح لوٹنے اور موسمِ سرما اور موسمِ گرما کے ایک دوسرے میں گلابی انداز میں بغل گیر ہونے میں جو معنویت پوشیدہ ہے اس کا احساس افسانوی فریم میں کیا جا سکتا ہے، منظر کو فطرت کے فریم ورک سے کاٹے بغیر اسے ایک انسانی جہت  زیادہ معنی خیز بنا دیتی ہے۔ یہ دلچسپ، انوکھی اور بولتی ہوئی تشبیہات داخلی اور فنی ضرورت کے تحت ہی رچی گئی ہیں۔ منٹو جس طرح اپنے افسانوں میں معروضیت کو قائم رکھنے کے لئے تقریر کرنے کے بجائے واقعات کو خلق کرتا ہے اسی طرح کردار کی ذہنی کیفیت اور کشمکش کوبیان کرنے کے لئے تشبیہات تراشتا ہے  اور کچھ کہنے یا بتانے سے زیادہ اس کی کوشش اسے دکھانے یا display کرنے کی رہتی ہے ۔اور اس طرح زندگی کی بظاہر بے حد معمولی باتیںبھی تشبیہات میں ڈھل کر غیر معمولی بن جاتی ہیں اور ساتھ ہی ایک جمالیاتی انبساط بھی فراہم کرتی ہیں ۔
ہر شے بوجھل دکھائی دیتی تھی جیسے بادلوں کے وزن کے نیچے دبی ہوئی ہے، مو سم کچھ ایسی کیفیت کا حامل تھا جو ربڑ کے جوتے پہن کر چلنے سے پیدا ہوتی ہے۔(دھواں)یہاں وزن سے بوجھل ہر شے اور ربڑ کے جوتے پہن کر چلنے والی کیفیت کے حوالے سے منٹو نے مسعود کی اس ذہنی کیفیت کو paint کرنے کی کوشش کی ہے جو جنسی بیداری کے باعث اس کے اندر کسمسانے لگی تھی۔ تشبیہات کے خلاقانہ استعمال نے گونگے محسوسات کے منہ میں زبان رکھ دی ہے۔ منٹو کے تخلیقی میڈیم کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ فن پارے اور پڑھنے والے میں ایک ایسا داخلی ربط پیدا کر لیتا ہے کہ اس کے نجی تجربے جگ بیتی بن کر طلوع ہوتے ہیں اور کئی بار اجتماعی تجربے کو اتنا نجی بنا دیتا ہے کہ ہم محض اس کی ذات تک اسے محدود کر دیتے ہیں۔ اس کےلئے وہ مختلف تکنیک استعمال کر تا ہے اور کئی بار معمولی بات کو اس ڈھنگ سے کہتا ہے کہ وہ غیر معمولی بن جاتی ہے اور کئی بار غیر معمولی بات سہجتا اور چپکے سے یوں کہہ جاتا ہے کہ حافظے میں کنڈلی مار کر بیٹھ جاتی ہے ۔ افسانہ ’’سجدہ‘‘ سے مثال:  ’’اس کی شرارت اب دُم کٹی گلہری بن کر رہ گئی تھی ۔‘‘ 
پہلی نظر میں محولہ بالا تشبیہ جتنی بے جوڑ اور بھدی معلوم ہوتی ہے افسانوی سیاق میں اتنی ہی معنی خیز ہے۔ منٹو افسانے  میں یہ تشبیہ اس وقت استعمال کر رہا ہے جب حمید ملِک کوبڑے شوق اور دھوکے سے شراب پلا دیتا ہے اور ملک جس نے کبھی شراب کو چھوا تک نہیں تھا اس پر کوئی بھی ردّعمل کا اظہار نہیں کرتا ہے ...سچ ہے آپ کسی کے ساتھ شرارت کریں اور اس پر وہ کسی ردّعمل کا اظہار نہ کرے تو شرارت کے پیچھے جو لطف لینے کاجذبہ ہے وہی زائل ہو جاتا ہے لہٰذا حمیدکی شرارت کےلئے  دُم کٹی گلہری کی تشبیہ کس قدر بامعنی اور برمحل ہے۔
اسی  افسانے کی ایک اور تشبیہ دیکھئے:  ’’اس کی حالت ویسی ہو گئی جیسی بھیگی ہوئی پتلون کی ہوتی ہے۔‘‘
یہاںبھیگی ہوئی پتلون کی تشبیہ ایک دم نئی اور انوکھی معلوم پڑتی ہے جو ہمیں چونکاتی ہے اور ٹھٹھک کر سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔منٹو کی دنیا میں داخل ہوجانے کے بعد لفظ کس طرح منقلب ہوجاتا ہے اس کا اندازہ اس کی تحریروں میں یہاں سے وہاں تک جگمگاتی ہوئی تشبیہات کے مطالعہ سے کیا جا سکتا ہے۔ایک تشبیہ اپنے آپ میں کتنی ہی اچھی، بری یا انوکھی کیوں نہ ہو اس کی اصل اہمیت اور معنویت افسانوی فریم ورک میں ہی طے ہوسکتی ہے۔ افسانہ ’’ سجدہ‘‘  میں حمید جس ذہنی کیفیت سے گزر رہا ہے بھیگی ہوئی پتلون کی تشبیہ بامعنی  اور سہیج ہی نہیں فرسٹ ہینڈ ایکسپیرینس معلوم ہوتی ہے۔ منٹو غیر معمولی حسِ مزاح کا مالک تھا اس کے افسانوں، ڈراموں، خاکوں اور مضامین میں اس کی بذلہ سنجی، مزاح اور Wit کے نمونے جا بجا بکھرے ہوئے ہیں۔ تشبیہات میں اس کی خوش طبعی اور برجستگی قارئین کے لئے زیرِلب تبسم کا سامان پیدا کرتی ہے۔تشبیہات کے توسط سے منٹو کئی بار انام جذبات کو نام دینے کی اورموہوم احساسات کو ٹھوس پیکروں میں ڈھالنے کی سعی کرتا ہے۔ قاری کے حواس کی تختی پر یہ تشبیہات اپنا جو نقش چھوڑتی ہیں وہ متن کے معنوی امکانات کو منور کرتا ہے۔ منٹو کے فکشن میں جگمگانے والی تشبیہات نہ صرف منٹو اور اس کے آرٹ کو سمجھنے کے لئے  ایک ہیلپ لائن کی حیثیت رکھتی ہیں بلکہ میں یہاں تک کہوں گا کہ ان تشبیہات میں منٹو کی ذہنی اور جذباتی سوانح عمری دھڑک رہی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK