مولانا ابوالکلام آزاد ایک مجاہد آزادی تھے اور ملک آزاد ہونے کے بعد تشکیل پانے والی حکومت میں وزیر تعلیم تھے۔
مولانا ابوالکلام آزاد۔ تصویر: آئی این این
مولانا ابوالکلام آزاد ایک مجاہد آزادی تھے اور ملک آزاد ہونے کے بعد تشکیل پانے والی حکومت میں وزیر تعلیم تھے۔ان کا اصل نام محی الدین احمد تھا۔ ان کے والدمولانا محمد خیر الدین انھیں فیروزبخت کہہ کر پکارتے تھے۔ ان کی پیدائش۱۱؍ نومبر ۱۸۸۸ء کو مکہ معظمہ میں ہوئی تھی۔ آزاد جب۱۱؍ سال کے تھے تو ان کی والدہ ماجدہ کی وفات ہو گئی اور کچھ سال بعد ان کے والد کا بھی انتقال ہوگیا۔
مولانا آزاد کی تعلیم
وِکی پیڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مولانا محمد خیرالدین کو ہندوستان سے ہجرت کرنی پڑی تھی۔ اس کے بعد وہ تقریباً ۳۰؍ سال تک عرب میں رہے اور وہیں پر ایک عرب خاتون سے شادی کرلی۔ آزاد کا بچپن مکہ معظمہ اور مدینہ میں گزرا۔ ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی۔ ان کی ذہنی صلاحیتیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے ۱۵؍ سال کی عمر میں ماہوار جریدہ ’لسان الصدق‘ جاری کیا۔ اس کی مولانا الطاف حسین حالی نے بھی بڑی تعریف کی تھی۔اس کے بعد ۱۹۱۲ء میں ’الہلال‘ نکالا۔ یہ مذہبی ہدایت کا گہوارہ اور بلند پایہ سنجیدہ ادب کا نمونہ تھا۔ مولانا آزاد کے تعلق سے ایک جملہ سروجنی نائیڈو کا بھی مشہور ہے کہ ’’آزاد جس دن پیدا ہوئے، وہ ۵۰؍ سال کے ہو گئے تھے۔‘‘
تحریک آزادی میںشمولیت
اُس وقت جب ملک میں آزادی کی تحریک زوروں پر تھی،مولانا آزاد نے ۱۹۰۸ء میں مصر، شام، ترکی اور فرانس کا دورہ کیا تھا۔اس دوران وہ ایسے کئی لوگوں سے رابطے میں آئے جو نوجوان ترک تحریک اور ایرانی انقلاب سے وابستہ تھے۔وہاں سے واپس ہونے کے بعد مولانا آزاد نےایک تکثیری ہندوستانی سماج کی وکالت کی اور ملک کی آزادی کی تحریک میں شامل ہوگئے۔
کانگریس سے وابستگی
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق مولانا آزاد کی مہاتما گاندھی سے پہلی ملاقات۱۸؍ جنوری۱۹۲۰ء کو ہوئی تھی۔ تحریک آزادی میں ان کا کردار تحریک خلافت سے شروع ہوا تھا۔ مولانا آزاد۱۹۲۳ء میں پہلی بار کانگریس کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ ۱۹۴۰ء میں کانگریس پارٹی نےانہیں دوسری مرتبہ صدر منتخب کیا اور وہ ۱۹۴۶ء تک اس عہدے پرفائز رہے۔ انہیں کے دور صدارت میں ملک کی آزادی کی راہ ہموار ہوئی۔
مولانا آزاد کی ادبی اور صحافتی خدمات
مولانا آزاد کو بیسویں صدی کے بہترین اردو مصنفین میں سے شمار کیا جاتا ہے۔ مولانا آزاد نے کئی کتابیں لکھیں جن میں غبار خاطر، انڈیا ونس فریڈم (انگریزی)، تزکیہ، تذکرہ، قول فیصل، مسئلہ خلافت،اسلام میں آزادی کا تصور اور ترجمان القرآن کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے’ الہلال‘ کے نام سے اردو کا ہفت روزہ اخبار جولائی۱۹۱۲ء میں جاری کیا۔ انگریزی حکومت کے ذریعہ پابندی لگانے اور جرمانہ عائد کئے جانے کے بعد اس کا سلسلہ اشاعت موقوف ہوا۔اس کے بعد البلاغ کے نامی سے نیااخبار جاری کیا۔
مولانا آزاد سے منسوب چند اہم ادارے
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، (مانو) حیدرآباد
مولانا آزاد نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، بھوپال
مولانا آزاد میڈیکل کالج، نئی دہلی
مولانا آزاد انسٹی ٹیوٹ آف ڈینٹل سائنسز، نئی دہلی
مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن، نئی دہلی
مولانا ابوالکلام آزاد اسلامک اویکنگ سینٹر نئی دہلی
مولانا ابوالکلام آزاد انسٹی ٹیوٹ آف ایشین اسٹڈیز، کلکتہ، مغربی بنگال
مولانا ابوالکلام آزاد عربک پرشین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، راجستھان
احمد نگر جیل میں اسیری کے دن
مہاتما گاندھی نے۹؍ اگست۱۹۴۲ء کو ہندوستان چھوڑو تحریک شروع کی تو اُس وقت مولانا آزاد ہی کانگریس کے صدر تھے۔ اس موقع پر کانگریس کے تمام بڑے لیڈروں گرفتار کر کے احمد نگر قلعہ لے جایا گیا ۔ان کے ساتھ مولانا آزاد بھی احمد نگر جیل میں رہے۔۳۲؍ماہ بعد اپریل۱۹۴۵ء میں انہیں رہا کیا گیا۔ ستمبر۱۹۴۶ء میں جب ملک میں عبوری حکومت قائم ہوئی تو گاندھی اور نہرو کی درخواست کے باوجود مولانا آزاد نے مرکزی کابینہ میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ بعد میںگاندھی اور نہرو کے بار بار اصرار پر انھوں نے ۴؍ ماہ بعد وزیر تعلیم کا عہدہ سنبھالا۔ یہ ایک تاریخ ہے کہ ماؤنٹ بیٹن نے جب تقسیم ہند کا عمل شروع کیا تو مولانا ابوالکلام آزاد نے اس کی سختی سے مخالفت کی تھی۔