ہمارے درمیان سے ایک ایسی درخشاں شخصیت عالمِ بقاء کی طرف روانہ ہو گئی، جنہوں نے اپنے خلوص، استقامت اور غیر معمولی علمی خدمات سے ایک عہد ساز مثال قائم کی۔
EPAPER
Updated: May 09, 2025, 3:30 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai
ہمارے درمیان سے ایک ایسی درخشاں شخصیت عالمِ بقاء کی طرف روانہ ہو گئی، جنہوں نے اپنے خلوص، استقامت اور غیر معمولی علمی خدمات سے ایک عہد ساز مثال قائم کی۔
ہمارے درمیان سے ایک ایسی درخشاں شخصیت عالمِ بقاء کی طرف روانہ ہو گئی، جنہوں نے اپنے خلوص، استقامت اور غیر معمولی علمی خدمات سے ایک عہد ساز مثال قائم کی۔ اس نادر المثال شخصیت کو دنیا خادم القرآن حضرت مولانا غلام محمد وستانوی کے نام سے جانتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ نے تن تنہا تعلیمی میدان میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیا ہےجنہیں عموماً کئی انجمنیں، جماعتیں اور شخصیات مل کر بھی انجام نہیں دے پاتیں۔ ایسا صرف اس وجہ سے ممکن ہوپایا کیونکہ مولانا وستانوی نہ صرف علومِ ظاہری و باطنی کے رمز شناس تھے بلکہ ان کی شخصیت میں ایک ایسا نورانی توازن پایا جاتا تھا جو عقل و وجدان کے سنگم پر کھڑا نظر آتا ہے۔ ان کا وجود ایک چلتی پھرتی درسگاہ تھا، جہاں ہر لمحہ علم کا نور پھیلتا اور عمل کی روشنی جھلکتی ہے۔ انہوں نے محض کتابی علم کو مقصد نہیں بنایا بلکہ علم کو زندگی کی روح، اور عمل کو اس کا جسم تصور کیا۔ ان کی نگاہ میں دنیا ایک عارضی سایہ تھی، جسے حقیقت کا رنگ تبھی ملتا ہے جب انسان اسے فانی جان کر عبدیت کے قالب میں ڈھل جائے۔ اس اعتبار سے ان کی رحلت صرف ایک فرد کا جدا ہونا نہیں بلکہ ایک عہد کا اختتام ہے۔
یوں تو حضرت وستانویؒکا علمی فیض ہندوستان کے چپے چپے کو اپنے نور سے منور کر رہا ہے، اور دنیا کے کئی ممالک میں بھی آپ کی علمی سخاوت کے نقوش ثبت ہیں مگر اکل کوا، نندوربا، مہارشٹر میں آپ نے ’’اشاعت العلوم‘‘ کے نام سے جو شجرِ طوبیٰ لگایا، وہ آپ کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو ہے۔ یہ ادارہ، جو مکتب کی سادہ شکل میں ۱۹۷۹ء میں شروع ہوا تھا، دراصل ایک فکری انقلاب کی بنیاد تھا جو آج ہر سال ہزاروں قلوب و اذہان کو سیراب کر رہا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اشاعت العلوم ایک علمی قافلہ بن گیا۔ آج یہ ادارہ نہ صرف دینی علوم کا مضبوط قلعہ ہے بلکہ عصری علوم(طب، انجینئرنگ، ٹیچر ٹریننگ وغیرہ) کی تابناک شعاعیں بھی یہاں سے پھوٹ رہی ہیں۔ دینی تعلیم کے ساتھ جدید فکری رجحانات کی ہم آہنگی نے اسے ایک ایسی جامع یونیورسٹی بنا دیا ہے جہاں تعلیم صرف کتابوں تک محدود نہیں بلکہ کردار سازی، فکری پختگی اور روحانی تربیت اس کی پہچان ہیں۔
اشاعت العلوم کی ہمہ جہت ترقی کے پس منظر میں جو روح کارفرما نظر آتی ہے، وہ مولانا وستانویؒ کی سادگی اور بے لوث خدمت ہے۔ آپ کی سادگی دراصل ایک فکری عظمت کی علامت تھی جو دنیاوی حصولیابیوں سے بلند ہوکر خالصتاً مقصد حیات کی تکمیل میں منہمک نظر آتی تھی۔ غور و فکر سےان کی خدمت محض ادارہ جاتی نہیں بلکہ ایک روحانی مشن کا حصہ معلوم ہوتی ہے، جہاں ذاتی مفادات، نام و نمود اور شہرت پس پردہ چلے جاتے ہیں اور اخلاص، تقویٰ اور ایثار جیسے اوصاف نمایاں ہوکر کارناموں کو دوام عطا کرتے ہیں۔ مولانا وستانوی کی شخصیت اس بات کا عملی نمونہ تھی کہ جب انسان انا کی زنجیروں سے آزاد ہوکر علم و خدمت کو اپنا نصب العین بنا لیتا ہے، تو وہ اداروں کو صرف قائم نہیں کرتا، بلکہ انہیں ایک فکری تحریک میں ڈھال دیتا ہے۔
مولانا وستانوی کی تواضع، علم دوستی اور خرد نوازی کا مشاہدہ راقم الحروف نے اپنے رفقاء کے ساتھ کیا ہے۔ یہ واقعہ ۲۰۰۴ء کا ہے جب ہم مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر، ممبئی میں ڈپلوما ان انگلش لینگویج اینڈ لٹریچر میں زیر تعلیم تھے۔ اسی دوران ایک دعوتی سفر کے سلسلے میں گجرات روانگی ہوئی اور اس سفر کی ایک اہم منزل اکل کواکا ادارہ بھی تھا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو ادارے کی جانب سے ہمارا پرتپاک اور محبت بھرا استقبال کیا گیا، اور مہمان خانے میں ہمارے قیام و طعام کا مکمل اہتمام کیا گیا۔ جب حضرت وستانوی کو ہماری آمد کی خبر ملی تو انہوں نے از راہِ تواضع بنفسِ نفیس ہم سے ملاقات کی۔ ان کی گفتگو، شفقت اور حوصلہ افزائی نے ہمارے دل جیت لئے۔ انہوں نے نہ صرف ادارے کے مختلف شعبہ جات کے معائنے کی ترغیب دی بلکہ یہ کہہ کر ہمارے اعتماد کو مزید بڑھایا کہ ’’آپ صرف تعریف نہ کریں، اگر کوئی خامی نظر آئے تو ضرور بتائیں۔ ‘‘ حضرت کی یہ فراخ دلی، اصلاح پسندی اور مہمان نوازی ہمارے قیام کے دو دنوں کو یادگار بنا گئی، جو آج بھی ہمارے دل و دماغ میں خوشگوار یادوں کی طرح زندہ ہے۔
عصر حاضر کے مفکر علماء کا اس بات پراتفاق ہے کہ حضرت وستانوی کی عظیم الشان کامیابیوں کی بنیاد دراصل قرآن مجید سے ان کی بے پناہ محبت اور اس کی بے لوث خدمت ہے۔ اُن کے فلسفے کے مطابق قرآن صرف ایک مقدس کتاب نہیں ہے بلکہ حیاتِ انسانی کے لئے ایک الٰہی منشور ہے، جو اگر سینوں میں محفوظ ہو جائے اور قلوب میں اتر جائے تو فرد اور قوم دونوں کو عزت و رفعت کی بلندیوں تک پہنچا سکتا ہے۔ یہی نظریہ ان کے عملی سفر کا محور و مرکز بنا، جس کے نتیجے میں انہوں نے ہزاروں حفاظ اور قراء کی ایسی جماعت تیار کی جو نہ صرف حفظ قرآن کے منصب پر فائز ہے بلکہ صوتی جمال، تجوید کی باریکی اور قرأت کی لطافت میں بھی امتیاز رکھتی ہے۔ حضرت نے قومی سطح پر مسابقاتِ قرآن کا انعقاد کر کے ایک طاقتور تعلیمی و فکری انقلاب برپا کیا، جس نے حفاظ و قراء کے مقام و مرتبہ کو صرف دینی حلقوں میں ہی نہیں بلکہ قومی و بین الاقوامی سطح پر بھی تسلیم کروایا۔ ان کی یہ کاوش دراصل اس قرآنی تصور کا عملی اظہار ہے کہ جو قوم قرآن سے جڑ جاتی ہے، وہ تاریخ میں اپنا ایک روشن مقام ضرور بناتی ہے۔
حضرت وستانوی کی شخصیت کا ایک روشن اور دور رس پہلو یہ ہے کہ انہوں نے ابھرتے ہوئے صالح فکر علماء و دانشوران کو نہ صرف حوصلہ دیا بلکہ ان کی فکری توانائیوں کو عملی قالب میں ڈھالنے کے لئے بھرپور مواقع بھی فراہم کئے۔ ان کا یہ عمل محض ایک انتظامی یا تدریسی فیصلہ نہ تھا، بلکہ ایک عمیق فکری شعور کا مظہر تھا جو اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ امت کی علمی بقا اور فکری تجدید کا انحصار آئندہ نسل کے باشعور اور باکردار علما و دانشوران پر ہے۔ آپ نے ان باصلاحیت افراد کو نہ صرف مدعو کیا بلکہ ان کے لئے علمی و فکری اظہار کے دروازے کھول دیئے۔ یہ رویہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت وستانوی کا وژن محض ماضی پرست نہیں بلکہ ایک ایسا ہمہ گیر نظریہ تھا جو حال کی ضرورتوں کو پہچانتا اور مستقبل کی تعمیر کی طرف پیش قدمی کرتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ مولانا وستانوی کی شخصیت ایک جامع فکری و عملی پیکر کے طور پر سامنے آتی ہے، جس کی بنیاد سادگی، اخلاص، علم دوستی اور قرآن سے گہری وابستگی پر استوار ہے۔ انہوں نے جہاں اشاعت العلوم جیسے عظیم تعلیمی ادارے کو محض ایک درسگاہ نہیں بلکہ ایک فکری تحریک میں تبدیل کیا، وہیں نئی نسل کے علماء و دانشوروں کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کے ذریعے علم کی روایت کو تازگی اور وسعت بخشی۔ ان کی زندگی کا ہر پہلو اس حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ اگر قیادت میں اخلاص ہو، وژن واضح ہو اور مقصد صرف امت کی اصلاح و تعمیر ہو، تو بظاہر محدود وسائل کے باوجود عظیم الشان کارنامے انجام دیے جا سکتے ہیں۔