Inquilab Logo

زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

Updated: January 06, 2023, 10:57 AM IST | Shamim Tariq | Mumbai

کسی اسکول میں اقبال کی نظم ’بچے کی دعا‘ پڑھنے پر ایف آئی آر درج ہوئی ہے تو بڑا عجیب معلوم ہوا۔ دو بند کی یہ نظم بالکل نئی تخلیق معلوم ہوتی ہے مگر واقعہ یہ ہے کہ ’بچے کی دعا‘ انگریزی سے ماخوذ ہے۔ اگر انگریزی کی نظم کا پڑھنا ممنوع نہیں قرار دیا جاتا، صرف اُردو شعروں یا نظم پر ردِ عمل سامنے آتا ہے تو ایسا فیصلہ ہزاروں سوالوں کو جنم دیتا ہے۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

اقبال غیر منقسم ہندوستان میں پیدا ہوئے اور غیر منقسم ہندوستان میں ہی ان کا انتقال ہوا۔ ان کے سیاسی افکار سے بحث کرتے ہوئے بعض اہل قلم نے اختلاف کے پہلو نکالے ہیں۔ ان کے اپنے دلائل ہیں اور ہمیں اختلاف رائے کے ان کے حق کا احترام کرنا چاہئے مگر اقبال کے کلام کے کسی حصے کی ایسی تشریح یا اس کے بارے میں ایسا ردِعمل جو حقیقت سے تعلق نہ رکھتا ہو کسی بھی صورت میں جائز نہیں کہا جاسکتا اس لئے جب یہ خبر پڑھنے کا اتفاق ہوا کہ کسی اسکول میں اقبال کی نظم ’بچے کی دعا‘ پڑھنے پر ایف آئی آر درج ہوئی ہے تو بڑا عجیب معلوم ہوا۔ بارہ مصرعوں یا دو بند کی یہ نظم بالکل نئی تخلیق معلوم ہوتی ہے مگر واقعہ یہ ہے کہ ’بچے کی دعا‘ انگریزی سے ماخوذ ہے۔ اگر انگریزی کی نظم کا پڑھنا ممنوع نہیں قرار دیا جاتا یا اس کے خلاف ردِعمل نہیں ہوتا صرف اُردو شعروں یا نظم پر ردِ عمل سامنے آتا ہے تو ایسا فیصلہ ہزاروں سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ دوم یہ کہ اس نظم میں بچے نے جو دعا مانگی ہے یا جس قسم کی خواہش کا اظہار کیا ہے اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو انفرادی، قومی اور اجتماعی زندگی کیلئے مفید نہ ہو 
 ہر جگہ میرے چمکنے سے اُجالا ہوجائے
 ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت 
؎ ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
 جیسے مصرعوں میں علم و روشنی کا سفیر بن کر زندہ رہنے، وطن دوستی کا حق ادا کرنے یا وطن کی زینت بڑھانے اور غریب غربا یا Havenots کی مدد کرنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔ کیا اس میں کوئی ایک خواہش بھی ایسی ہے جس کو غیر انسانی، غیر قومی یا قوم دشمن کہا جاسکے؟ نہیں! اور یقیناً نہیں، تو اس قسم کے ردِعمل سے کیا ظاہر کیا گیا ہے؟
 اس نظم میں ایک ایسی تہذیب کی ترجمانی کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو تہذیب نفس بھی کہی جاسکتی ہے اور انسانی، قومی اور ہندوستانی تہذیب بھی۔ اس بات کو سمجھنے کیلئے اس بات کا ذہن میں ہونا ضروری ہے کہ شعر اور نثر کی زبان الگ الگ ہوتی ہے۔ شاعری اشاروں اور علامتوں کی متقاضی ہے۔ اقبال نے ’زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری‘ کہا ہے تو ضرور وہ کوئی ایسی بات کہنا چاہتے ہیں جو وہ کسی دوسرے لفظ کے سہارے نہیں کہہ سکتے تھے مثلاً نجم، ماہ، چاند، مہر، آب، بہر، نہر، چاہ، باد اور خاک جیسے الفاظ۔ سب ’شمع‘ کے ہم وزن الفاظ ہیں اور وہ کسی بھی لفظ کا استعمال کرسکتے تھے کہ ان سب سے روشنی، پانی، ہوا کا مفہوم برآمد ہوتا ہے جن پر زندگی کا مدار ہے۔ زندگی شمع کی صورت کے بجائے نجم، چاند، مہر، آب، باد، خاک کی صورت ہو خدایا کہنے سے وزن میں کوئی فرق پڑتا ہے نہ معنی اور پیغام کی روح سلب ہوتی ہے۔ اسکے باوجود ’شمع‘ کو علامت بنا کر پیش کرنے میں جو بات ہے وہ دوسرے لفظوں کے استعمال سے حاصل نہیں ہوتی۔ ان کے پہلے مجموعۂ کلام ’بانگ درا‘ میں کئی ایسی نظمیں ہیں جن کے عنوان میں ’شمع‘ شامل ہے۔ مثلاً ایک نظم ’ شمع و پروانہ‘ ہے جس میں انہوں نے دونوں کے باہمی تعلق کو انتہائی دلکش انداز میں پیش کیا ہے۔ آخری مصرع میں تو جس خوشگوار حیرت کا اظہار کیا ہے
کیڑا ذرا سا اور تمنائے روشنی
 وہ بہتر سے بہتر خواب دیکھنے اور اپنی حالت و حیثیت سے اوپر اٹھ کر تمنا کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ دوسری نظم ’شمع‘ کا حاصل یہ ہے کہ اس کائنات میں وجود حقیقی صرف ایک ہے اور وجود حقیقی کے عاشقوں کو اس کائنات میں دوسرا کوئی وجود نظر آتا ہی نہیں
یہ امتیاز رفعت و پستی اسی سے ہے
 ایک نظم ’ بچہ اور شمع‘ ہے۔ اس میں اقبال نے چھوٹے سے بچے کو مخاطب کرکے پوچھا ہے کہ تو شمع کو حیران ہو کر گھڑیوں کیوں دیکھتا رہتا ہے کیا روشنی کو اپنی آغوش میں لینا چاہتا ہے؟ اس کے بعد وہ بچے پر عیاں کرتے ہیں کہ شمع نار ہے اور عریاں ہے لیکن تجھ میں ایک نور چھپا ہوا ہے یعنی شمع نار ہے اور مالک و خالق نے اسے عریاں کرکے دنیا میں بھیجا ہے لیکن تیرے نور کو جسم خاکی میں چھپا رکھا ہے۔ تیرا کام ظاہر و باطن میں نورِ حق کی تلاش و جستجو ہے
حسن کے عام جلوے میں بھی یہ بیتاب ہے
زندگی اس کی مثالِ ماہیٔ بے آب ہے
 ایک اور نظم ’رات اور شاعر‘ میں رات کے اس سوال کے جواب میں کہ تو رات کے وقت خاموش و مضطرب کیوں ہے، شاعر جواب دیتا ہے کہ رات کی تنہائی میں گھر سے باہر نکل جاتا ہوں کہ اپنا دردِ دل تیرے چمکتے ستاروں کو سنا سکوں۔ ایک نظم کا عنوان ’شمع اور شاعر‘ ہے اور میری نظر میں یہ اقبال کی چند بہترین نظموں میں سے ایک ہے۔ اس کا یہ شعر تو پوری نظم کا حاصل ہے کہ
راز اس آتش نوائی کا مرے سینے میں دیکھ
جلوئہ تقدیر میرے دل کے آئینے میں دیکھ
 ’بچے کی دعا‘ میں تو انہوں نے صرف یہ پیغام دیا ہے کہ شمع زندگی، علم، تہذیب اور اس تہذیب کی علامت ہے جو فنا ہوکر بقا کا راز سمجھاتی ہے اس لئے ہر بچے کو ’’زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری‘‘ کی تمنا کرنا ہی چاہئے۔ اُردو میں شمع محفل، شمع مزار، شمع ہدایت..... استعمال ہوتا ہے مگر اس کا براہِ راست مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ’’دیپ‘‘ بھی استعمال ہوا ہے جیسے جانثار اختر کا مصرع ہے
مندر میں فقط دیپ جلانے کے لئے ہے
 ’’دیا‘‘، ’’چراغ‘‘، ’’چراغِ راہ‘‘ بھی کثرت سے استعمال ہوتے رہے ہیں مگر ان میں سے کوئی ایک لفظ بھی کسی خاص مذہب یا نظریے کی ترجمانی نہیں کرتا۔ مثلاً لفظ ’’ دیا‘‘ خالص ہندوستانی پس منظر سے آیا ہوا لفظ ہے مگر اس کا استعمال نعت رسول جیسی مذہبی صنف میں بھی ہوا ہے مثلاً
وہ ایک رات چراغاں ہوا زمانے میں
ہوا بھی ہوگئی شامل دیے جلانے میں
 یہ تمام الفاظ انسانی اور ہندوستانی تہذیب کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ان کے خلاف جارحانہ اقدام یا رویہ خود ہندوستانیت کی روح کے خلاف ہے۔ ہندوستانیوں کی صدیوں پرانی ریت اس کی مذمت کرتی ہے۔ اس مذمت کے مستحق وہ لوگ زیادہ ہیں جو اپنی زبان، اپنے ادب اور اپنی تہذیب کے خلاف تہذیبی جارحیت کا ارتکاب کرنے والوں کو اُکساتے اور ورغلاتے ہیں۔

Life FIR Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK