Inquilab Logo

آسام میں مسلم ذات شماری کا مطلب؟

Updated: October 25, 2023, 11:30 PM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai

آسام میں مسلمانوں کی تنظیموں کو ذات پر مبنی اور معاشرتی واقتصادی شماری کے تئیں ہوشیار رہنا چاہئے اور جمہوری تقاضوں کی روشنی میں بیداری مہم شروع کرنی چاہئے تاکہ سرکاری اعداد وشمار کی صحیح تصویر سامنے آسکے۔

As soon as the caste-based census report is published in Bihar, on the one hand, the demand for caste-based census in different states of the country is gaining momentum.
بہار میں ذات پر مبنی شماری رپورٹ کے شائع ہوتے ہی ایک طرف ملک کی مختلف ریاستوں میں ذات پر مبنی شماری کا مطالبہ زور پکڑنے لگا ہے

بہار میں ذات پر مبنی شماری رپورٹ کے شائع ہوتے ہی ایک طرف ملک کی مختلف ریاستوں میں ذات پر مبنی شماری کا مطالبہ زور پکڑنے لگا ہے تو دوسری طرف قومی سطح پر بھی حزب اختلاف کی پارٹیاں حکمراں جماعت سے ملک میں ذات پر مبنی شماری کرانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ ایسے میں آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسواشرما نے ریاست میں پانچ مسلم برادری کی شماری کا اعلان کرکے سبھوں کو حیرت زدہ کردیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں ہیمنت بسوا شرما آسام کے مسلمانوں کے تئیں اپنے ذہنی تعصبات  کا برملا اظہار کرتے رہے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات بھی دیتے رہے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے ایک متنازع بیان دیا تھا کہ آسام میں سبزیوں کی قیمت میں جو اضافہ ہوا ہے اس کی واحد وجہ مسلم سبزی فروش ہیں۔انہوں نے مسلم سبزی فروشوں کو اکثریت طبقے کے علاقوں میں داخل نہ ہونے دینے کی بھی وکالت کی تھی ۔ان کے اس بیان کو لے کر قومی سطح پر فکر مندی ظاہر کی گئی تھی ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اندر بھی اس بیان کو لے کر الگ الگ نظریہ سامنے آیا تھا۔ واضح ہو کہ وزیر اعلیٰ ہیمنت بسواشرمابھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہونے سے پہلے کانگریس کے لیڈر تھے اور اس وقت ان کی زبان پر کبھی بھی مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کے الفاظ نہیں آئے لیکن وہ جیسے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہوئے اور انہیں وزیر اعلیٰ کی کرسی نصیب ہوئی اس کے بعد وہ مسلسل مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے رہے۔دراصل آسام میں ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق تقریباً ۳۵؍فیصد مسلمان ہیں۔اعداد وشمار کے مطابق ۱ء۰۶؍کروڑ مسلمان ہیں لیکن اب اگر مردم شماری کی جائے تو ایک قیاس کےمطابق ۱ء۴۰؍ کروڑ مسلمانوں کی آبادی ہے اس لئے وزیر اعلیٰ مسلمانوں کے خلاف فضا بنا کر شدت پسند ہندوئوں کو متحد کرنا چاہتے ہیں لیکن اب اچانک انہوں نے صرف اور صرف مسلم برادریوں کی شماری کا اعلان کرکے شاید وہ یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی ذات شماری کرنے کے بعد وہ ان کے لئے فلاحی اسکیموں کا آغاز کریں گے۔ ظاہر ہے کہ حکمراں جماعت بالخصوص ہمارے وزیر اعظم  نریندر مودی پسماندہ مسلمانوں کی ترقی کی وکالت کر رہے ہیں ایسے میں اگر ہیمنت  بسوا شرمانے آسام میں مسلم برادری کی شماری کا اعلان کیاہے تو کہیں نہ کہیں بھارتیہ جنتا پارٹی کی مرکزی قیادت کی منظوری بھی شامل ہوگی۔ 
  بہر کیف! وزیر اعلیٰ نے آسام کے پانچ پسماندہ اور درج فہرست مسلم ذاتوں کی سماجی اور معاشی حالت کی تفصیلی رپورٹ تیار کرنے کا حکم صادر کیا ہے ۔ ریاستی حکومت کا موقف ہے کہ اس رپورٹ کی بنیاد پر ریاست میں پانچ مسلم برادریوں کی سماجی اور اقتصادی صورتحال کی صحیح تصویر سامنے آئے گی اور اس کی بنیاد پر ان کے لئے سرکاری اسکیمیں بنائی جائیں گی ۔ واضح ہو کہ آسام میں گوریا، موریا ، دیسی، سید اور انصاری برادری مختلف حصوں میں رہتے ہیںاور ان میں اکثریت خطِ افلاس سے نیچے کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ چونکہ آسام میں ان مسلمانوں کے ساتھ ہمیشہ تعصبانہ رویہ اپنایا جاتا رہا اور انہیں طرح طرح کے مسائل میں الجھائے رکھا گیا جس کی وجہ سے ان کی سماجی اور معاشی حالت بد سے بد تر ہوتی چلی گئی۔ فرقہ وارانہ فسادات اور غیر ملکی ہونے کے مبینہ الزامات کے ساتھ ساتھ شناختی کارڈ کے مسئلوں میں آسامی مسلمانوں کو کبھی بھی معاشی طورپر کھڑا ہونے نہیں دیا جب کہ سچائی یہ ہے کہ جموں کشمیر کے بعد آسام میں سب سے زیادہ مسلم آبادی ہے۔ آسام میں اسلام سب سے بڑا دوسرا مذہب ہے۔ ریاست کے گیارہ ضلعوں میں ۵۲؍سے ۹۹؍فیصد تک مسلم آبادی ہے اور آٹھ ضلعوں میں بھی ان کی آبادی سیاسی فیصلوں کو متاثر کرنے والی ہے ۔ جن گیارہ اضلاع میں مسلمانوں کی اکثریت ہے ان میں جنوبی سالمارا(۹۹؍فیصد)، دھبری(۸۲؍فیصد)، بار پیٹا(۷۵؍فیصد)، درنگ( ۶۶؍فیصد)، ہلا کادی(۶۲؍فیصد)، گوال پارا(۶۰؍فیصد)، کریم گنج (۵۹؍ فیصد) نوگائوں (۵۷؍فیصد)، ہوجائی(۵۵؍فیصد)، موری گائوں (۵۴؍فیصد) اور بونگائی گائوں (۵۲؍فیصد) ہیں۔ اسی طرح کامروپ میں (۴۱؍فیصد) ، کچھار(۳۹؍فیصد)، نلواڑی (۳۷؍ فیصد)، کوکرا جھاڑ(۳۰؍فیصد) ، چرانگ(۲۴؍فیصد)، لکھیم پور(۲۰؍فیصد)، سونت پور(۱۹؍ فیصد) اور اُدال گوری (۱۳؍فیصد) مسلم آبادی ہے۔آسام کی کل آبادی ۳ء۵۰؍کروڑ ہے اور ان میں ۱ء۴۰؍مسلمانوں کی تعداد سیاسی نظریے سے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے ۔ اس لئے اب وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا شرماکی کوشش ہے کہ وہاں کی مسلم آبادیوں کو ذات برادری کے خانوں میں تقسیم کیا جائے کیونکہ اب تک آسام میں سبھی برادری کے مسلمانوں کے مسائل چونکہ ایک جیسے رہے ہیں کہ وہ سب اکثریت طبقے کے شدت پسندوں کے نشانے پر رہے ہیں۔ اس لئے وہ متحد ہو کر سیاست میں اپنی حصہ داری کا مطالبہ بھی کرتے رہے ہیں اور وہاں کی سیاست کو متاثر بھی کرتے رہے ہیں ۔ اگرچہ یہ تلخ حقیقت ہے کہ حالیہ دہائی میں وہاں سنگھ پریوار کی کوششوں سے مسلم ووٹوں میں بھی انتشار ہوا ہے اور جس کا خاطر خواہ فائدہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ملا ہی ہے۔ آسام میں مولانا بدر الدین اجمل کی سیاسی جماعت اپنی ایک الگ شناخت بنانے میں کامیاب رہی ہے مگر گزشتہ اسمبلی انتخاب میں ان کی جماعت کو بھی نقصان پہنچا ہے ۔
  اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ کا یہ نیا سیاسی شوشہ مسلمانوں کے مفاد میں ہے یا پھر سیاست کی شطرنجی چال کا ایک مہرہ ہے کیونکہ  اب تک وزیر اعلیٰ کا آسام کے مسلمانوں کے تئیں جو نظریہ رہاہے وہ انتہا پسندانہ رہا ہے اور ان کے اشتعال انگیز بیانات نے ریاست میں نفرت کی فضا کو پروان چڑھایا ہے اس لئے یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ وہ واقعی مسلمانوں کے معاشرتی اور اقتصادی صورتحال سے واقف ہو کر ان کے لئے سرکاری فلاحی اسکیموں کا آغاز کریں گے یا پھر مسلمانوں کی برادریوں کی شماری کے بعد ان کے اتحاد کے شیرازوں کو بکھیرنے کا کام کریں گے۔اس لئے آسام میں مسلمانوں کی تنظیموں کو اس ذات پر مبنی اور معاشرتی واقتصادی شماری کے تئیں ہوشیار رہنا چاہئے اور جمہوری تقاضوں کی روشنی میں بیداری مہم شروع کرنی چاہئے تاکہ سرکاری اعداد وشمار کی صحیح تصویر سامنے آسکے اور اس کا مسلمانوں کو خاطر خواہ فائدہ مل سکے۔آسام میں مسلمانوں کے جو دیرینہ مسائل ہیں اس کا واحد حل آسامی مسلمانوں کا متحد ہو کر خواہ کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت ہو اس پر اثر انداز ہونے کی قوت بر قرار رکھنی ہوگی۔

assam Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK