Inquilab Logo Happiest Places to Work

آسام: گولپاڑہ میں آبستان پر آباد ۶۶۰؍ خاندانوں کے گھر وں کا انہدام

Updated: June 17, 2025, 6:03 PM IST | Govahati

آسام کے گولپاڑہ میں آبستان پر آباد ۶۶۰؍ خاندانوں کے گھر وں کو مسمار کرنے کی کارووائی کی جا رہی ہے۔یہاں آباد مکینوں میں زیادہ تر مسلمان ہیں۔اب تک ۴۵؍ فیصد گھروں کو مسمار کیا جا چکا ہے۔

Photo: X
تصویر: ایکس

 آسام کے مغربی ضلع گولپاڑا میں اتوار کو ضلعی انتظامیہ نے شہر سے متصل حاصلہ بیل علاقے میں آباد زیادہ تر مسلم خاندانوں کے ۶۶۰؍ سے زائد گھروں کو مسمار کرنے کا آپریشن شروع کیا۔ پیر تک تقریباً ۴۵؍ فیصد بے دخلی مکمل ہو چکی تھی جبکہ حکام منگل تک یہ عمل مکمل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔یہاں زیادہ تر یومیہ مزدوروں آباد تھے ۔ بے دخلی کا مقصد زمین کے ۱۵۶۶؍بیگھہ رقبے کو نام نہاد ’’غیر قانونی قبضے‘‘ سے خالی کرانا بتایا جا رہا ہے۔۱۳؍ مئی۲۰۲۵ء کو ضلعی حکام نے کچھ بینر لگا کر گاؤں والوں کو دو دن کے اندر جگہ خالی کرنےکا حکم دیا تھا۔ گاؤں والوں کا کہنا تھا کہ اپنی زندگی میں بنائے گئے گھروں کو دو دن میں خالی کرنا ممکن نہیں۔تاہم، ضلعی حکام نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ انتظامیہ نے ۲۰۲۳ءاور ستمبر ۲۰۲۴ء میں بھی رہائشیوں کو یہ جگہ خالی کرنے کے نوٹس بھیجے گئےتھے۔ مکتوب میڈیا سے بات کرنے والے تقریباً ہر فرد نے کہا کہ ان کے پاس جانےکیلئے  کوئی اور جگہ نہیں ہے۔پچاس سالہ سلیمان علی، جو پورا دن اپنے مسمار شدہ گھر کے سامنے کھڑے رہے، کہتے ہیں: "میری ساری زندگی ہم یہیں گزار چکے ہیں۔ میرے والد اب۸۰؍ سال کے ہیں، اور وہ یہیں پیدا ہوئے تھے۔ ہم نے صرف اسی جگہ کو جانا ہے۔ اس جگہ کے بغیر، میرے پاس جانے کو کوئی جگہ نہیں ہے کیونکہ میرے پاس کسی دوسری جگہ زمین نہیں ہے۔ایک اور مکین علی نے کہا کہ تقریباً۲۵؍ سال پہلے، سرکار نے سروے کیا تھا اور ہم نے۲۰۱۸ء تک قانونی عمل کے مطابق غیر قانونی قبضے کے جرمانے ادا کیے تھے، اس امید کا اظہار کرتے ہوئے کہ کسی دن ریاست کے قانون کے مطابق انہیں آبادکاری مل جائے گی۔ ‘‘
۲۰۱۶ء میں پہلی بار برسر اقتدار آنے کے بعد، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت، جس کی اس وقت سربانند سونووال قیادت کر رہے تھے، نے۲۰۱۸ء میں سرکاری زمینوں پر رہنے والے لوگوں سے غیر قانونی قبضے کا جرمانہ لینا بند کر دیا تھا۔جب بے دخل کیے گئے گاؤں پر رات چھا گئی، تو لوگوں نے کہا کہ وہ اس بات سے لاعلم تھے کہ وہ اندھیرے میں کیا کریں گے۔ نورجہ خاتون نے کہا، ’’میرے چار بچے ہیں جن کی دیکھ بھال کرنی ہے۔ اس موسم میں ہم کہاں سوئیں؟ اگر بارش ہو گئی تو کیا ہمارے اوپر کوئی چھت ہوگی؟‘‘پچاس سالہ خاتون نے کہا کہ انہوں نے پورے دن کھانا نہیں کھایا کیونکہ سب کچھ منہدم کر دیا گیا اور انہیں اپنا سامان نکالنے کا مناسب وقت بھی نہیں دیا گیا۔خاتون نے بتایا کہ ’’پولیس کی موجودگی میںکھدائی مشینیں نے صبح تقریباً ساڑھے پانچ بجے گھر توڑنا شروع کر دیا جب بچے سو رہے تھے۔ ہم بچوں کو لے کر باہر چلے گئے جب گھر گرنے لگے۔ میں کچن سے صرف چند برتن ہی نکال پائی، لیکن میرے پاس کھانا پکانے کی کوئی جگہ نہیں ہے؛‘‘ یہ بتاتے ہوئے کہ وہ اور اس کا خاندان رات میں پھولے ہوئے چاول (مورِ) اور بسکٹ کھائیں گے۔چونکہ لوگوں کو بے دخلی والی جگہ پر کوئی عارضی کیمپ نہ لگانے کو کہا گیا اور مخصوص علاقے سے باہر کیمپ لگانے کے لیے کوئی خالی جگہ نہیں تھی، رہائشیوں نے اپنی خواتین اور بچیوں کے لیے خدشہ کا اظہار کیا۔
مکتوب میڈیا نے بے دخلی والی زمین کی تفصیلات کے لیے ضلعی اہلکاروں سے رابطہ کیا، لیکن رپورٹ لکھے جانے تک حکام کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔کانگریس کے مقامی ایم ایل اے اے کے رشید نے حاصلہ بیل علاقے کے رہائشیوں کی فوری بحالی (ری ہیبلی ٹیشن) کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا، ’’گولپاڑا میں زمینی نظام دوسرے اضلاع سے مختلف تھا۔ یہ زمینداری نظام کے تحت تھا، جو ۱۹۵۹ءمیں ختم کر دیا گیا تھا۔ ضلع کے مختلف علاقوں میں زمینداروں کے ذریعے آباد کیے گئے بہت سے لوگوں کے پاس زمینی دستاویزات نہیں تھے۔ بعد میں، مختلف زمینیں مختلف محکموں کے تحت چلی گئیں، اور لوگ بے زمین رہ گئے۔ لہٰذا، ضلع کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے، لوگوں کو فوری طور پر بحال کیا جانا چاہیے۔‘‘
واضح رہے کہ آسام میں بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے، اگست۲۰۲۴ء میں ریاستی اسمبلی میں ریاستی آمدنی اور آفات کے انتظام کی اتھارٹی کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق، ۲۰۱۶ء اور۲۰۲۴ء کے درمیان سرکاری زمینوں سے ۱۰۶۲۰؍سے زیادہ خاندانوں کو بے دخل کیا جا چکا ہے۔اگرچہ حکومتی معلومات کے مطابق اگست۲۰۲۴ء تک بے دخلیوں میں چار اموات بھی درج تھیں، اس کے علاوہ ستمبر۲۰۲۴ء میں گوہاٹی کے مضافات میں واقع کاچوٹولی گاؤں میں پرتشدد بے دخلی کے دوران دو مسلم نوجوان مزید ہلاک ہو گئے تھے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK