Inquilab Logo

آسمانوں کا تذکرہ اورتخلیق کائنات کی کیفیت

Updated: January 22, 2021, 12:02 PM IST | Mohammed Hashim Azmi Misbahi

خالقِ کائنات نے سب سے پہلے اپنی قدرت سے جوہر کو پیدا کیا پھر جب جوہر پر اللہ تعالیٰ نے نگاہِ ہیبت ڈالی تو وہ پگھل گیا اور خدا کے خوف سے پانی بن گیا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس پر نگاہِ رحمت ڈالی تو آدھا پانی جم گیا جس سے عرش بنایا گیا، عرش کانپنے لگا تو اس پر لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ لکھ دیا جس سے وہ ساکن ہوگیا مگر پانی کو اسی طرح چھوڑ دیا گیا جو قیامت تک موجزن رہے گا۔

Universe - Pic : INN
کائنات ۔ تصویر : آئی این این

خالقِ کائنات نے سب سے پہلے اپنی قدرت سے جوہر کو پیدا کیا پھر جب جوہر پر اللہ تعالیٰ نے نگاہِ ہیبت ڈالی تو وہ پگھل گیا اور خدا کے خوف سے پانی بن گیا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس پر نگاہِ رحمت ڈالی تو آدھا پانی جم گیا جس سے عرش بنایا گیا، عرش کانپنے لگا تو اس پر لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ لکھ دیا جس سے وہ ساکن ہوگیا مگر پانی کو اسی طرح چھوڑ دیا گیا جو قیامت تک موجزن رہے گا۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’اور (تخلیق ِ اَرضی سے قبل) اس کا تخت ِ اقتدار پانی پر تھا ۔‘‘ (ہود:۷)
تخلیق کائنات: پھر جب پانی میں تلاطم خیز موجیں پیدا ہوئیں جن سے تہ بہ تہ دھوئیں کے بادل اٹھے اور جھاگ پیدا ہوئی تو اس سے زمین و آسمان بنائے گئے جو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے پھر ان دونوں کے درمیان اللہ تعالیٰ نے ہوا کو پیدا کیا جس کے دباؤ سے زمین وآسمان کے طبق ایک دوسرے سے علاحدہ ہو گئے، چنانچہ فرمانِ الٰہی ہے:
’’پھر وہ سماوی کائنات کی طرف متوجہ ہوا تو وہ (سب) دھواں تھا۔‘‘ (فصلت:۱۱)
 اہل حکمت کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو دھویں سے اس لئے پیدا فرمایا کہ دھواں باہم پیوست ہوتا ہےاور بلندیوں پر جا کر ٹھہرتا ہے ، بخارات سے اس لئے پیدا نہیں فرمایا کہ وہ واپس لوٹ جاتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے علم و حکمت کا ادنیٰ کرشمہ ہے، پھر ارشادِ نبوی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے پانی کی طرف نظر رحمت کی تو وہ جم گیا۔
آسمانوں کے نام اور ان کے رنگ: زمین سے آسمانِ دنیا کی اور ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی مسافت پانچ سو سال کے سفر کی دوری کے برابر ہے اور اسی طرح ہر آسمان کا اپنا اپنا حجم ہے۔ کہتے ہیں کہ پہلا آسمان دودھ سے بھی زیادہ سفید ہے مگر کوہ قاف کی سبزی کی وجہ سے یہ ہرا نظر آتا ہے، اس آسمان کا نام رقیعہ ہے۔ دوسرے آسمان کا نام فیدوم یا ماعون ہےاور وہ ایسے لوہے کا ہے جس سے روشنی کی شعاعیں پھوٹی پڑتی ہیں۔ تیسرے آسمان کا نام ملکوت یا ہاریون ہے اور وہ تانبے کا ہے۔ چوتھے آسمان کا نام زاہرہ ہے اور وہ آنکھوں میں خیرگی پیدا کرنے والی سفید چاندی سے بنا ہے۔ پانچویں آسمان کانام مزینہ یا مسہرہ ہے اور وہ سرخ سونے کا ہے۔ چھٹے آسمان کا نام خالصہ ہے اور وہ چمکدار موتیوں سے بنایا گیا ہے۔ ساتویں آسمان کا نام لابیہ یا دامعہ ہے، وہ سرخ یاقوت کا ہے اور اسی میں بیت المعمور ہے۔ 
بیت المعمور کے چار ستون ہیں، ایک سرخ یاقوت کا، دوسرا سبز زبرجد (ایک قسم کا زمرد) کا، تیسرا سفید چاندی کا اور چوتھا سرخ سونے کا۔  بیت المعمور کی عمارت سرخ عقیق کی ہے۔ ہر روز وہاں ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اور ایک مرتبہ داخل ہوجانے کے بعد قیامت تک انہیں دوبارہ داخلے کا موقع نہیں ملے گا۔    قولِ معتبر یہ ہے کہ زمین آسمان سے افضل ہے کیونکہ یہ انبیاء کا مولد و مدفن ہے اور زمین کے سب طبقات میں بہتر اوپر والا طبق ہے جس پر خلقِ خدا آباد ہے۔
سات ستارے اور ہر ستارہ کا آسمان:
 حضرتِ عبداللہ ابن ِ عباسؓ سے مروی ہے کہ آسمانوں میں سب سے زیادہ افضل کرسی ہے جس کی چھت عرشِ الٰہی سے ملی ہوئی ہے، سات ستاروں کے علاوہ تمام فائدہ بخش ستارے اسی آسمان میں ہیں۔ سات ستاروں کی تفصیل یہ ہے: ’’زحل‘‘ جو شنبہ کے دن کا ستارہ ہے، ساتویں آسمان میں ہے۔ ’’مشتری‘‘جو پنجشنبہ کا ستارہ ہے چھٹے آسمان میں ہے۔ سہ شنبہ کا سیارہ ’’مریخ‘‘ پانچویں آسمان میں ہے۔ یک شنبہ کا سیارہ ’’شمس‘‘ چوتھے آسمان میں ہے۔ جمعہ کا سیارہ ’’زہرہ‘‘ تیسرے آسمان میں ہے۔ چہار شنبہ کا سیارہ عطارد دوسرے آسمان میں ہے۔ اور دوشنبہ کا سیارہ ’’قمر‘‘ پہلے آسمان میں ہے۔
ایک لطیف نکتہ: اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ نے آسمان و زمین کی صنعت میں بے انتہا عجائبات ودیعت کئے ہیں حالانکہ سارے آسمان دھویں سے بنائے گئے ہیں مگر کسی میں ایک دوسرے کی مشابہت نہیں پائی جاتی۔ آسمان سے پانی برسایا، اس سے مختلف سبزیاں اور پھل اگائے جن کے ذائقے اور رنگ جدا جدا ہیں۔ حکمت الٰہی کے بموجب وہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر لذیذ ہیں، آدم علیہ السلام کی اولاد میں مختلف اقسام بنائیں، کوئی سفید ہے کوئی سیاہ، کوئی خوش اور کوئی اداس ، کوئی مومن کوئی کافر، کوئی عالم اور کوئی جاہل۔ حالانکہ سب آدم علیہ السلام کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اس کی کرسی آسمانوں اور زمین کو احاطہ کئے ہوئے ہے۔‘‘ (البقرۃ ۲۵۵)
کرسی سے کیا مراد ہے؟: کرسی سے مراد علمِ الٰہی ہے یا ملک خداوندی یا پھر مشہور آسمان کا نام ہے۔ حضرتِ علیؓ  سے مروی ہے کہ کرسی ایک موتی ہے جس کی لمبائی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ حدیث میں ہے کہ ساتوں آسمان اور زمین کرسی کے سامنے ایسے ہیں جیسے وسیع صحرا میں ایک حلقہ پڑا ہو، مزید فرمایا کہ آسمان کرسی میں ہیں اور کرسی عرشِ الٰہی کے سامنے ہے۔ حضرتِ عکرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، سورج کرسی کے نور کا ۷۰؍واں حصہ ہے اور عرشِ الٰہی حجاباتِ الٰہی کے نور کا ۷۰؍واں حصہ۔
عرشِ الٰہی کی ساخت: عرشِ الٰہی کی بناوٹ کے متعلق مختلف روایتیں ہیں، بعض کہتے ہیں سرخ یاقوت کا ہے یا سبز موتی کا ہے۔ بعض کی رائے ہے کہ سفید موتی سے بنایا گیا ہے، اللہ تعالیٰ ہی اس کی حقیقت کو بہتر جانتا ہے۔
    عرشِ الٰہی مخلوقات کی چھت ہے، کوئی چیز اس کے دائرہ سے باہر نہیں نکل سکتی،  وہ بندوں کے علم و ادراک اور مطلوب کی انتہا ہے ، اللہ تعالیٰ نے اسے عظیم قرار دیا ہے چنانچہ فرمانِ الٰہی ہے:
’’اگر (ان بے پناہ کرم نوازیوں کے باوجود) پھر (بھی) وہ روگردانی کریں تو فرما دیجئے: مجھے اللہ کافی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں اسی پر بھروسہ کئے ہوئے ہوں اور وہ عرشِ عظیم کا مالک ہے۔‘‘ (التوبہ:۱۲۹)
 حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نامِ نامی توریت میں متوکل تھا اور کیوں نہ ہوتا آپؐ سے بڑھ کر معرفتِ خداوندی کا شناسا اور کون ہے؟ آپؐ موحدین کے سردار اور عارفینِ کاملین کے رہنما ہیں، توکل کی حقیقت آپؐ پر روزِ روشن کی طرح عیاں تھی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK