Inquilab Logo Happiest Places to Work

میرؔ پُر امید ہیں کہ تا حشر جہاں میں ان کا دیوان رہے گا

Updated: January 28, 2024, 1:10 PM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai

عالمی ادب میں جن تخلیقی فنکاروں کو بقائے دوام حاصل ہے ان میں اردو و فارسی کے جیّد عالم و شاعر میر تقی میرؔ (۱۷۲۳۔ ۲۰؍ ستمبر۱۸۱۰ء) کو اولیت حاصل ہے۔ تاریخِ ادب اردو اور فارسی میں میرؔ کو خدائے سخن کے ساتھ ساتھ اردو تذکرہ نگاری کا بابائے آدم تسلیم کیا گیا ہے کہ ’’نکات الشعراء ‘‘کے بغیرتذکرہ نگاری کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔

Mir Taqi Mir. Photo: INN
میر تقی میرؔ۔ تصویر : آئی این این

عالمی ادب میں جن تخلیقی فنکاروں کو بقائے دوام حاصل ہے ان میں اردو و فارسی کے جیّد عالم و شاعر میر تقی میرؔ (۱۷۲۳۔ ۲۰؍ ستمبر۱۸۱۰ء) کو اولیت حاصل ہے۔ تاریخِ ادب اردو اور فارسی میں میرؔ کو خدائے سخن کے ساتھ ساتھ اردو تذکرہ نگاری کا بابائے آدم تسلیم کیا گیا ہے کہ ’’نکات الشعراء ‘‘کے بغیرتذکرہ نگاری کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔ میر تقی میرؔ کے متعلق راقم الحروف کا واضح نقطۂ نظر ہے کہ میر تقی میرؔ کی شاعری لسانی تنوع اور اجتماعی زندگی کی حقیقت نگاری کے ساتھ ساتھ کائنات کے اسرار ورموز کی آئینہ دار ہے۔ میرؔ کی شاعری عصری آگہی، ماضی کی تہذیبی وثقافتی وراثت، تاریخی شکست و ریخت کی داستان اور صبحِ نو کی اعلامیہ ہے۔ ان کی شخصیت اور فن پر نہ جانے کتنے تنقیدی و تحقیقی مقالات و مضامین کے انبار خزینۂ ادب میں سرمایۂ عظیم کی حیثیت رکھتے ہیں اور سیکڑوں کتابیں ان کے فکر و فن کا احاطہ کرتی ہیں مگر ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ میر تقی میرؔ کی شاعری اور شخصیت کے بہت سے گوشے ہنوز تاریک ہیں اور وہ ضیائے انصاف کے متقاضی ہیں۔ 
 میر ؔ تنقید پر سرسری نگاہ ڈالئے تو مولانا محمد حسین آزاد، مولوی عبدالحق، رشید احمد صدیقی، ڈاکٹر سید عبداللہ عبادت بریلوی، پروفیسر مختار الدین آرزو، ڈاکٹر اکبر حیدر کاشمیری، محمد حسن عسکری، ناصر کاظمی، ڈاکٹر صفدر آہ، ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر گیان چند جین، کلب علی خاں فائق، پروفیسر مسعود حسن رضوی، ڈاکٹر مسیح الزماں، پروفیسر مسعود حسن خاں، فراق گورکھ پوری، مجنوں گورکھ پوری، پروفیسر کلیم الدین احمد، قاضی عبدالودود، نثار احمد فاروقی، پروفیسر آل احمد سرور، خواجہ احمد فاروقی، وزیر آغا، شمس الرحمن فاروقی، عندلیب شادانی، نیاز فتح پوری، فرمان فتح پوری، پروفیسر گوپی چند نارنگ، سردار جعفری، پروفیسر وہاب اشرفی، پروفیسر حنیف نقوی، پروفیسر ابوالکلام قاسمی اور حالیہ دنوں میں پروفیسر شہاب الدین ثاقب اور پروفیسر احمد محفوظ جیسے نامورانِ ادب نے میرؔ کی شاعری اور شخصیت کو اپنی تنقیدی وتحقیقی بصیرت وبصارت کے میزان پر پرکھنے کی حتی المقدور کوشش کی اور میرؔ کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کیا۔ 
  میرؔ کی شاعرانہ عظمت کی قصیدہ خوانی میں غالبؔ، ذوقؔ، شیفتہؔ، اکبرؔ، حسرتؔ، میراجیؔ اورانشاؔ وغیرہ نے بھی اپنی کشادہ ذہنی وفراخ دلی کا مظاہرہ کیا ہے۔ جہاں تک خود میرؔ کا سوال ہے تو اُنہوں نے بھی اپنی شاعری کے متعلق جس قدر تعلّی کے اشعار کہے ہیں تاریخِ ادب میں شاید ہی اردو وفارسی کے کسی دوسرے شاعر نے کہے ہوں گے۔ میں اپنے محدو د مطالعے کی بنیاد پر بھی یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ میرؔ کے کم وبیش سو اشعار تعلّی پر مبنی ہیں۔ میر تقی میرؔ اپنی تعلّی میں ایک طرف یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا دیوان درد و غم کا مجموعہ ہے تو دوسری طرف وہ خود کو ریختہ گو میں نظیریؔ کا بدل تصور کرتے ہیں۔ میرؔ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ دریائے سخن میں جو صد رنگ موج ہے وہ انہی کی بدولت ہے اس لئے میرؔ پُر امید ہیں کہ تا حشر جہاں میں ان کا دیوان رہے گا۔ میرؔ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ان سے پہلے ریختہ کو کسی نے رتبہ ٔ اعلیٰ نہیں بخشا اور وہ اپنی شاعری کو آپ بیتی کے ساتھ ساتھ جگ بیتی بھی قرار دیتے ہیں۔ انہیں یہ بھی احساس رہا کہ ان کے فکر وفن کو سمجھنا آسان نہیں کہ ان کا ہر سخن ’’اک مقام سے ہے۔ ‘‘ تعلّی کی چند مثالیں :
مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میں نے 
درد و غم کتنے کئے جمع تو دیوان کیا 
ریختہ کاہے کو تھا رتبۂ اعلیٰ میں میرؔ
جو زمیں نکلی اسے تا آسماں مَیں لے گیا 
جلوہ ہے مجھی سے لبِ دریائے سخن پر
صد رنگ مری موج ہے میں طبع رواں ہوں 
سارے عالم پہ ہوں مَیں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
 بلا شبہ میرؔ کی تعلی حقیقت پر مبنی ہے بس شرط یہ ہے کہ جہانِ میرؔ سے سرسری نہ گزر کر پورے انہماک کے ساتھ ان کے اشعار کی قرأت ٹھہر ٹھہر کر کیجئے اور دریائے معنی میں غوطہ زن ہو کر گوہرِ آبدار سے اپنا دامن بھرلیجئے۔ ویسے میرؔ کو اپنے قاری سے شکایت تھی:
سرسری تم جہان سےگزرے=ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا
 جیسا کہ میں نے پہلے ہی کہا ہے کہ شیفتہؔ، غالبؔ، اکبرؔ، حسرتؔ اور ان کے بعد کے قابل ذکر اہل قلم میں شاید ہی کوئی ہو جس نے میرؔ کی عظمت کا اعتراف نہ کیا ہو۔ ظاہر ہے کہ میرؔکی کائناتی فکر اور وسعتِ نظریۂ زیست کا اعتراف نہ کرنا حدودِ کفر میں داخل ہونے کے مترادف ہے۔ 
  چند اشعار ملاحظہ کیجئے ؎
 نرالی سب سے ہے اپنی روش اے شیفتہؔ لیکن
کبھی دل میں ہوائے شیوہ ہائے میرؔ پھرتی ہے (شیفتہؔ)
 اے مصحفیؔ تو اور کہاں، شعر کا دعویٰ
 پھبتا ہے یہ اندازِ سخن میرؔ کے منہ پر  (مصحفیؔ)
نہ ہوا، پر نہ ہوا، میر کا انداز نصیب
 ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا (ذوق)
 ریختہ کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ
 کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا (غالبؔ)
 مذکورہ اشعار حقیقت پر مبنی ہیں کہ میرؔ جیسے ہمہ جہت دانشور فنکار دنیائے ادب میں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ 
 میرؔ کی زندگی کے مطالعے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ان کا عہد تاریخی شکست وریخت کا عہد تھا۔ دلّی جو ان کی نگاہوں میں اوراقِ مصور تھی وہ بار بار لٹ رہی تھی، خونریزی کا بازار گرم تھا، کل تک جو تخت و تاج پر براجمان تھے وہ کاسہ لئے گلی گلی پھر رہے تھے۔ میر تقی میرؔ ایک حسّاس فنکار تھے اس لئے دلّی کی بربادی کا غم انہیں نہ صرف نڈھال کرتا ہے بلکہ خون کے آنسو رونے پر مجبور بھی کرتا ہے:
جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا 
اُ س سر پہ یہاں شور ہے اب نوحہ گری کا
دلّی کی بربادی کا کیا مذکور ہے= یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا۔ 
 میرؔ کی شاعری صرف دل اور دلّی کا مرثیہ نہیں ہے بلکہ فلسفہ ٔ زیست کی مکمل کتاب ہے اور جس میں انسانی زندگی کے تمام نشیب وفراز کے اوراق بکھرے پڑے ہیں۔ میرؔ عظمت ِ آدم کے قصیدہ خواں ہیں اور انسان کی تخلیق کو رونقِ دنیا کا ضامن کہتے ہیں۔ دو مثالیں :
آدمِ خاکی سے عالم کو جِلا ہے ورنہ
آئینہ تھا تو مگر قابلِ دیدار نہ تھا
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں 
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں 
 اردوغزل کا موضوعِ خاص حسن وعشق رہا ہے اور میر ؔ بھی اس سے اپنا دامن نہیں بچا سکے لیکن میرؔ نے پیش پا افتادہ مضامین سے گریز کیا اور حسن اور عشق کے موضوع کو جو ابدیت بخشی ہے وہ اُنہی کا حصہ ہے :
لوگ بہت پوچھا کرتے ہیں کہئے میاں کیا ہے عشق
کچھ کہتے ہیں سرِّ الٰہی، کچھ کہتے ہیں خدا ہے عشق
 میرؔ لسانی تنوع کے شاعر اور اس حقیقت سے واقف ہیں کہ ریختہ کو اعتبار کا درجہ تبھی ملے گا جب قلی قطب شاہؔ، ولیؔ اور ناجیؔ جیسے شعراء کی روش کو آگے بڑھا کر ریختہ کے دامن کو لسانی تنوع کا مرقع بنائیں گے۔ شایداسی لئے یہ کہا:
چلتے ہو تو چمن کو چلئے، سنتے ہیں کہ بہاراں ہے 
پات ہرے ہیں، پھول کھلے ہیں، کم کم باد و باراں ہے 
 مختصر یہ کہ میر تقی میرؔ کی تین سوسالہ صدی تقریبات کی مناسبت سے میرؔکی شاعری اور ان کے کائناتی افکار و نظریات کی شمع کو روشن کرنے کی ضرورت ہے کہ عالمی ادب میں میر تقی میرؔکی بدولت ہی اردو شاعری کسی بھی عظیم شاعری کے ہم پلّہ رکھی جا سکتی ہے۔ میرؔ نے خود ترغیب دلائی تھی کہ اُنہیں پڑھا جائے اور ڈوب کر پڑھا جائے، ڈوب کر پڑھنے سے مراد جب تک اُن کی شاعری میں موتی پرونے کا عمل واضح نہ ہو: 
 نہ رکھو کان نظمِ شاعرانِ حال پر اپنے 
چلو ٹُک میرؔ کو سننے، کہ وہ موتی پروتا ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK