بعض حلقوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً دینی اصطلاحات کو غلط سیاق و سباق کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ دینی تعلیم کیا ہے اس کی صحیح جانکاری سے ہی غلط فہمیاں دور کی جاسکتی ہیں۔
حساس موضوعات پرہمیں قرآن و حدیث کے مطالعے کے ساتھ سلف کی تحریروں سے بھی رہنمائی حاصل کرنی چاہئے۔ تصویر:آئی این این
انسان کی ایک کمزوری یہ ہے کہ جو بات اس سے بار بار کہی اور دہرائی جاتی ہے ، وہ اس کا یقین کر لیتا ہے ، خواہ وہ بات کتنی ہی خلافِ واقعہ کیوں نہ ہو۔ اس کی ایک مثال ’’ جہاد ‘‘ کے عنوان سے پھیلائی جانے والی غلط فہمیاں ہیں ، جو ایک ملی تنظیم کے سربراہ کے بیان کے پس منظر میں میڈیا كکا موضوع بن گئی ہے۔ مغربی ملکوں نے اپنے ظلم و زیادتی پر پردہ رکھنے اور اسلام کو بدنام کرنے کیلئے ’’ جہاد ‘‘ کو ’’ دہشت گردی ‘‘ (Terrorism) کے ہم معنی قرار دے دیا ہے اور پوری دنیا میں اسلام کے خلاف دہشت گردی کو عنوان بناکر مہم چلائی جا رہی ہے۔ اسرائیل جو ہے وہ فلسطین کی زمین پر قابض ہے، فلسطینی تارکین کو اپنے گھر واپسی کے حق سے محروم رکھ رہا ہے ، اور خود یہودی بستیاں بسا رہا ہے ، اسرائیل کا موجودہ وزیر اعظم بنجامن نتن یاہو خوں آشام طبیعت کا انسان ہے اور اس نے نہتے عربوں کا قتل عام کیا ہے۔ اس کے باوجود اسے دہشت گرد نہیں کہا جاتا اور فلسطینی جب ان مظالم کے خلاف جد و جہد کرتے ہیں تو ان کی مدافعانہ کار روائیوں کو دہشت گردی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
خود ہمارے ملک ہندوستان میں جن طاقتوں نے علانیہ بابری مسجد کو شہید کیا، عدالتی احکام کی خلاف ورزی کی، بھاگلپور ، میرٹھ اور مختلف علاقوں میں مسلمانوں کا قتل عام کیا، اور گجرات میں منصوبہ بند طریقہ پر مسلمانوں کی جان و مال کو تباہ کیا، وہ دہشت گرد نہیں کہلاتے اور اگر مسلمانوں کی طرف سے کسی ردِ عمل کا اظہار ہو تو اسے دہشت گردی کا نام دیا جاتا ہے۔ انڈونیشیا میں مشرقی تیمور کے علاحدگی پسندوں نے شورشیں برپاکیں تو انہیں دہشت گرد نہیں کہا گیا اور انڈونیشیا کو اس بات پر مجبور کر دیا گیا کہ وہ اس خطہ کو آزاد کردے، اسے دہشت گردی نہیں سمجھا گیا، سوڈان میں جنوبی علاقے کے عیسائی آمادۂ بغاوت تھے تو اس کو جنگ آزادی کا نام دیا گیا، روس سے متعدد عیسائی ریاستوں نے اپنی علاحدگی کا اعلان کیا، تو ان کے اس حق کو تسلیم کیا گیا؛ لیکن چیچنیا میں جب عوامی انتخاب کے ذریعہ ایک مسلم ملک وجود میں آیا تو اسے دہشت گرد کہا گیا اور پورا مشرق و مغرب مخالفت پر کمر بستہ ہو گیا بالآخر قطعاً ظالمانہ طریقہ پر اس مملکت کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا ۔
مغرب کی سامراجی طاقتوں اور ہندوستان کی شدت پسند تنظیموں نے دہشت گردی کا عجیب پیمانہ مقرر کیا ہے جس میں ایک ہی عمل کہیں ’’ دہشت گردی‘‘ قرار پاتا ہے اور کہیں ’’ حق مدافعت ‘‘ اور اسلام کو مزید بدنام کرنے کے لئے ’’ جہاد ‘‘ کو بھی دہشت گردی سے مربوط کر دیا گیا ہے۔ اس پس منظر میں یہ بات ضروری ہے کہ ہم جہاد کے صحیح مفہوم کو سمجھیں اور ان حالات اور مواقع کو سامنے رکھیں جن میں جہاد کی اجازت دی گئی ۔
عربی زبان میں ’’ جَہد ‘‘ ( ج کے زَبر کے ساتھ) کے معنی طاقت کے ہیں اور جُہد (ج کے پیش کے ساتھ ) کے معنی مشقت کے ہیں۔ جہاد ،ظلم کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنی پوری طاقت استعمال کرنے اور اس راہ میں ہونے والی مشقتوں کو انگیز کرنے کا نام ہے، گویا جہاد ایک وسیع مفہوم کی حامل اصطلاح ہے، جس کا مقصد عدل قائم كرنے کی کوشش و کاوش ہے۔ جہاد کے مختلف وسائل و ذرائع ہیں، زبان و بیان بھی جہاد کا ایک ذریعہ ہے، اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے ظالم بادشاہ کے سامنے انصاف کی بات کہنے کو سب سے افضل جہاد قرار دیا۔ (ابن ماجہ : ۱۱ ۴۰ )
جہاد کا ایک ذریعہ اس زمانہ میں قلم بھی ہے؛ بلکہ یہ نہایت مؤثر ذریعہ ہے، کوئی مسلمان اپنا قلم ظلم کو روکنے اور دین کی حفاظت و اشاعت کے لئے وقف کر دے تو یہ بھی جہاد میں شامل ہے۔ آج کل دوسرے ذرائع ابلاغ بھی کسی فکر کی ترویج و اشاعت اور اس کے غلبہ کے لئے نہایت مفید اورمؤثر ہیں اور یہ بھی معنوی جہاد میں شامل ہیں ۔
جہاد کی آخری صورت ’’ جہاد بالسیف ‘‘ ہے، یعنی ظالموں کے خلاف طاقت کا استعمال؛ لیکن اس کے لئے کچھ شرطیں اور تفصیلات ہیں ، ایسا نہیں ہے کہ کسی مسلمان کی نظر جس غیر مسلم پر پڑجائے، یا جو غیر مسلم اس کی گرفت میں آجائے وہ اس کا کام تمام کر دے، یہ جہاد نہیں بلکہ فساد ہے۔ جہاد کے سلسلہ میں قرآن نے واضح طور پر بتایا ہے کہ جو لوگ تم کو مرنے اور مارنے کے درپے ہوں، تم بھی ان سے جہاد کرو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’اور اﷲ کی راہ میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں (ہاں) مگر حد سے نہ بڑھو، بیشک اﷲ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔‘‘ (البقرہ:۱۹۰) اس آیت میں دو باتیں بتائی گئی ہیں، اول یہ کہ جہاد کا آخری درجہ جسے قرآن مجید میں قتال سے تعبیر کیا گیا ہے، ان لوگوں سے ہے، جو مسلمانوں سے برسر پیکار ہوں۔ جن کی مسلمانوں کے ساتھ صلح ہو، جیسا کہ بھارت میں تمام قومیں ایک معاہدہ کے تحت رہتی ہیں، ان سے قتال کا حق نہیں ہے۔ ایک اور موقع پر قرآن مجید نے اس حکم کو بہت ہی وضاحت کے ساتھ ذکر کیا ہے، ارشاد ہے : ’’اللہ تعالیٰ تم کو ان لوگوں کے ساتھ حُسن سلوک اور انصاف کا برتاؤ کرنے سے منع نہیں کرتے، جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے لڑائی نہیں کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا، یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں۔ ‘‘ (الممتحنہ:۸)یہ آیت صاف طور پر بتاتی ہے کہ جہاد کا حکم ان لوگوں سے ہے، جو مسلمانوں سے آمادۂ جنگ ہوں۔
اوپر جس آیت کا ذکر ہوا ہے، اس میں دوسری اہم بات یہ فرمائی گئی ہے کہ اسلام حالت ِجنگ میں بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ مسلمان اخلاق اور انسانیت کی حدود کو پھلانگ جائیں، اسی کو قرآن مجید نے ’’ اعتداء ‘‘ یعنی ’’ زیادتی‘‘ سے تعبیر کیا اور کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتے۔ علامہ ابن کثیرؒ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما حضرت عمر بن عبد العزیزؒ اور حسن بصریؒ وغیرہ سے اس کی تشریح میں نقل کیا ہے کہ اس حکم میں زیادتی کرنے سے مراد دشمن کا مُثلہ کرنا، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قتل کرنا، مذہبی شخصیتوں کا قتل کرنا اور درختوں کا جلانا شامل ہے۔ (تفسیر ابن كثیر: ۱؍۲۶۶) رسول اللہ ﷺنے اس بات سے بھی منع فرمایا کہ کسی انسان کو جلانے کی سزا دی جائے۔ مسلمانوں نے ہمیشہ اس ہدایت کو ملحوظ رکھا ہے۔
افسوس کہ دروغ گو ذرائع ابلاغ نے جہاد کے وسیع مفہوم کو صرف قتال میں محدود کردیا ہے اور اسلام کی ایسی تصویر کھینچی گئی ہے ، جس میں رواداری ، تحمل، قوتِ برداشت اور دیگر اہل مذہب کے ساتھ حسن سلوک کی کوئی گنجائش ہی نہ ہو ؛ بلکہ وہ چاہتا ہو کہ ہر ’’غیر مسلم‘‘ کو تہ ِتیغ کردے۔ یہ لفظ جہاد کی نہایت ہی غلط اور خلافِ واقعہ توضیح ہے، جو اسلام کے سرڈال دی گئی ہے یعنی جس کا اسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ بہ حیثیت مجموعی غیر مسلموں کے تین طبقے ہیں، ایک تو وہ غیر مسلم جومسلم ممالک میں آباد ہوں ، ان کو ’’ ذِمی ‘‘ یا ’’ اہل ذِمہ‘‘ کہا جاتا ہے، دوسرے وہ غیرمسلم جن کے ساتھ اقتدار میں شرکت اور بقاء باہم کے اُصول پر مسلمان ایک ملک میں رہتے ہیں، اس طرح کے غیر مسلموں کے لئے فقہاء کے یہاں ’’ معاہد ‘‘ کی تعبیر ملتی ہے، یعنی وہ شخص جس سے عہد ہو چکا ہے، ان دونوں سے جہاد نہیں ہے؛ بلکہ رسول اللہ ﷺنے ان کی جان و مال کو مسلمانوں ہی کی جان و مال کی طرح قابل احترام قرار دیا ہے : ’’دمائھم کدمائنا وأموالہم کأموالنا‘‘ ہاں اگر یہ مسلمانوں پر زیادتی کریں تو اپنی مدافعت کرنا اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے ان سے ظلم کا بدلہ لینا جائز ہے۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ دنیا کے ہر قانون میں انسان کے لئے اس حق مدافعت کو تسلیم کیا گیا ہے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان خود جہاد کی حقیقت سے واقف ہوں، اس بات کو جاننے کی کوشش کریں کہ جہاد کیا ہے؟ جہاد کن قوموں سے ہے؟ اور جہاد کا موقع و محل کیا ہے؟ تاکہ اسلام کے بارے میں جو غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں اور جو زہر لوگوں کے ذہن میں بھرا جا رہا ہے، وہ پوری بصیرت کے ساتھ اس کا جواب دے سکیں اور لوگوں کو زہر کا تریاق فراہم کر سکیں۔ افسوس کہ اسلامی لٹریچر سے بے توجہی اور اسلام کے بارے میں حد درجہ ناآگہی کی وجہ سے ہمارا یہ حال ہوگیا ہے کہ ہم دوسرے کی غلط فہمی تو کیا دُور کرتے کہ خود ہی ان پروپیگنڈوں سے متأثر اور مرعوب ہوئے جاتے ہیں اور خود ہمارا ذہن شکوک و شبہات کی تاریکی میں بے سمت ہوا جاتا ہے۔
ہمیں ایسے حساس موضوعات پر قرآن و حدیث کا مطالعہ کرنا چاہئے، سلف کی تحریروں سے رہنمائی حاصل کرنی چاہئے اور اصحابِ نظر علماء سے حقیقت جاننے کی کوشش کرنی چاہئے !