Inquilab Logo Happiest Places to Work

بخل اور کنجوسی انسان کی دنیا و آخرت تباہ کردیتے ہیں

Updated: November 10, 2023, 4:41 PM IST | Mujahid Nadvi | Mumbai

مال و دولت کی ہوس انسان کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے روکتی ہے اور وہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے کہ مال کو اپنا سمجھنا اس کے لئے خسارے کا سودا ہے۔

We can understand the example of Qarun in a better way, what happens when people consider sustenance only as the fruit of their labor, and start boasting about it. Photo: INN
انسان رزق کو صرف اور صرف اپنی محنت کا پھل سمجھے، اور اس پر گھمنڈ کرنے لگے اس کا انجام کیا ہوتا ہے اس کی مثال ہم قارون سے بہتر طریقے پر سمجھ سکتے ہیں۔ تصویر : آئی این این

مٹی کی یہ عادت ہوتی ہے کہ اناج ہو یا کوئی دھات وغیرہ ہو، ہر چیز کو اپنے سینے میں دبائے رکھتی ہے۔ انسان کو بڑی محنت وجدوجہد کرنا پڑتی ہے، انتظار کرنا پڑتا ہے تب کہیں جاکر مٹی اپنے اندر موجود وہ چیز انسان کو دیتی ہے۔مٹی کی اس عادت کو سمجھنے کے بعد جب ہم حضرت انسان کی طرف دیکھتے ہیں کہ وہ بھی تو مٹی سے بنے ہیں ، تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ مٹی ہی سے بنے انسان میں اپنی چیزیں اپنے پاس بچا کررکھنے کی یہ عادت، اور دوسروں کو کچھ دینے سےگریز کرنے کی خصلت بدرجۂ اتم موجود ہے۔ انسان کی اس عادت کو عرف عام میں بخل اور کنجوسی کہاجاتا ہے۔ دراصل کنجوسی اور تنگ دلی دونوں ہی بخل کے زمرے میں آتے ہیں ۔ یہ سخاوت کی ضد ہے۔ 
علامہ اقبالؒ نے کسی اور پس منظر میں کہا تھا ’’عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ‘‘، بس کچھ اسی طرح انسان بھی کچھ بہانے بنا کر مال خرچ کرنے سے راہ فرار اختیار کرتا رہتاہے۔ وہ کوئی نہ کوئی وجہ تلاش کرتا رہتا ہے کہ جس سے اس کا مال اسی کے پاس رہے، کسی اور تک نہ پہنچے۔ قرآن مجید میں سورۃ العادیات، آیت نمبر۸؍ میں انسان کی مال سے محبت کو اجاگر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا:’’اور حقیقت میں وہ (انسان) مال کی محبت میں بہت پکا ہے۔‘‘اسی طرح اللہ عزوجل نے سورۃ آل عمران، آیت نمبر ۱۸۰؍ میں ارشاد فرمایا:’’اور جو لوگ اس (مال و دولت) میں سے دینے میں بخل کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا کیا ہے وہ ہرگز اس بخل کو اپنے حق میں بہتر خیال نہ کریں ، بلکہ یہ ان کے حق میں بُرا ہے، عنقریب روزِ قیامت انہیں (گلے میں ) اس مال کا طوق پہنایا جائے گا جس میں وہ بخل کرتے رہے ہوں گے۔ ‘‘
دراصل انسان کی نفسیات مال کے متعلق یہ ہےکہ وہ سمجھتا ہے کہ مال اس نے بڑی محنت و مشقت سے کمایا ہے، یہ اس کی ملکیت ہے بھلا وہ کسی دوسرے کو اتنی آسانی سے اپنا مال کیوں دے؟ جبکہ قرآن نے اس معاملے میں یہ کلیہ بیان کردیا ہے کہ ’’اللہ تعالی جسے چاہتا ہے (اُسے) بے حساب رزق عطا کرتا ہے۔ ‘‘
جو انسان رزق کو صرف اور صرف اپنی محنت کا پھل سمجھے، اور اس پر گھمنڈ کرنے لگے اس کا انجام کیا ہوتا ہے اس کی مثال ہم قارون سے بہتر طریقے پر سمجھ سکتے ہیں ۔ قارون کا ذکر قرآن اور توریت میں ملتا ہے (انجیل میں اس کا ذکر نہیں ہے) کہ اس کے پاس بے شمار خزانے تھے۔ جیوش انسائیکلوپیڈیا، جلد ۷ ، صفحہ ۵۵۶ پر لکھا ہے کہ اس کے پاس جو خزانے تھے ان کی کنجیاں اٹھانے کے لئے ۳۰۰ ؍ خچر درکارہواکرتے تھے۔ لیکن کہیں نہ کہیں قارون کے دل میں یہ بات سرایت کرگئی تھی کہ یہ مال و اسباب سب میری سمجھ اور صلاحیت کی وجہ سے مجھے دیا گیا ہے۔ وہ اترانے لگا، فخر کرنے لگا اور تکبر میں مبتلا ہوگیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ زمین میں دھنسا کر ہلاک کردیا گیا۔ 
بس اسی قسم کے بے بنیاد اور غلط نظریات انسان کے دل میں بخل پیدا کرتے ہیں اور یہ بخل ایسی بیماری ہے جو انسان کی آخرت کی زندگی ہی تباہ نہیں کرتی، دنیاوی زندگی کو بھی اجیرن بنادیتی ہے۔ انسان سمندر میں رہ کر بھی پیاسا رہتا ہے اور ساری نعمتیں رکھنے کے باوجود نہایت کسمپرسی کے عالم میں ترستے ہوئے زندگی گزارتا ہے۔ وہ خود تو اس گھٹن کا شکار ہوتا ہے، اپنے قریبی لوگوں کے لئے بھی بہت بڑی اذیت کا سامان بن جاتا ہے اور ان کو ایسی ذہنی کوفت سے گزارتا ہے کہ جس سے وہ ساری زندگی جوجھتے رہتے ہیں ۔ اسلئے کہ غربت اگر ہو تو انسان ویسے ہی اپنے نفس کو سمجھا دیتا ہے کہ جانے دو میرے پاس جب نعمتیں ہیں ہی نہیں تو کیا ان سے لطف اٹھانا۔ لیکن اصل ذہنی کوفت اس وقت ہوتی ہے کہ جب سب کچھ پاس میں ہو اور پھر انسان ترس ترس کر جی رہا ہو۔ ایک بخیل شخص یہی کارنامہ انجام دیتا ہے اور خودکی اور اپنے قریبی لوگوں کی زندگی جہنم بنا کررکھ دیتا ہے۔ 
اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات میں بخل کو ایک نہایت شنیع خصلت بتلایا گیا ہے اور اس سے احتراز کی نہایت واضح تعلیمات دی گئی ہیں ۔ اور اس کے رد میں اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کے بے شمار فضائل اسلام ہمیں بتاتا ہے تاکہ اسلام کو ماننے والے بخل سے احتراز کریں اور سخاوت کو اختیار کریں ۔ قران مجید میں اس کا تذکرہ راست طور پر ۱۰؍ مرتبہ اور ضمناً ۶ مرتبہ آیا ہے۔ سورۃ الحدید آیت ۲۳؍اور۲۴؍ میں اللہ عزوجل نے بخیل انسانوں کو جو خود بھی بخل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس جانب ابھارتے ہیں ان کو یہ چشم کشا وارننگ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’ اللہ کسی اِترانے والے شیخی باز سے محبت نہیں کرتا، جو آپ بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی بخل کی ترغیب دیتے ہیں ۔ سنو! جو بھی منہ پھیرے، اللہ بے نیاز اور سزاوارِ حمد و ثناء ہے۔‘‘
بخل کو اگر معاشرتی زاویوں پر جانچا اور پرکھا جائے تو بخیل کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان اپنا وقار کھو بیٹھتا ہے۔ اس کی کوئی اہمیت خالق کے پاس باقی نہیں رہتی۔ مزید برآں یہ کہ معاشرہ میں بخیل انسان دوسروں کے مذاق اور دل لگی کاموضوع بن جاتا ہے۔ بخل کے نقصانات ہیں ہی ایسے، جن کی جانب اشارہ ترمذی شریف کی ایک حدیث میں کیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ سخی اللہ تعالیٰ سے قریب، جنت سے قریب، لوگوں سے قریب اور دوزخ سے دور ہے۔ اس کے برخلاف بخیل اللہ تعالیٰ سے دور، جنت سے دور، لوگوں سے دور اور جہنم سے قریب ہے اور ’’جاہل سخی‘‘ خدا کے نزدیک ’’عبادت گزار بخیل‘‘ سے کہیں بہتر ہے۔ 
انسان مال کو اپنا سمجھتا اور بچابچاکررکھتا ہے لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ موت کی ڈگر سے ہوتے ہوئے آخرت کی منزل کی جانب کوچ کرجاتا ہے اور وہی مال ودولت جس کو اس نے بخل کےذریعہ جمع کیا تھا اس کے وارثین میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ ’’سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ۔‘‘ انسانوں میں وہ جو بخیل ہے وہ سب جمع کیا ہوا مال اپنے پیچھے چھوڑ کر خالی ہاتھ اس جانب کوچ کرجاتا ہے جہاں اس کو صدقات و خیرات کی بہت ضرورت ہوتی ہے اور تب وہ سوچتا ہے کہ کاش میں نے عقلمندی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اس مال کو اپنے اہل وعیال، غریب غرباء ، اسلامی اور دینی کاموں کیلئے خرچ کیا ہوتا تو آج مجھے یہ خفت نہ اٹھانی پڑتی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK