Inquilab Logo Happiest Places to Work

بخل ایک مزاجی کیفیت کا نام ہے

Updated: February 12, 2021, 11:54 AM IST | Maolana Inamullah

جس شخص کو یہ بیماری لگ جاتی ہے، وہ خود دنیا کی ساری چیزوں کا مالک بن کر رہنا چاہتا ہے، لیکن کسی کو کچھ بھی نہیں دینا چاہتا۔

Labors - Pic : INN
دین اسلام نے انسانوں کے ساتھ ہمدردی کرنے اور ان کے کام آنے کی تعلیم دی ہے۔ ۔ تصویر : آئی این این

بخل، جود و کرم اور سخاوت کی ضد ہے۔ لغت میں ’بخل‘ کے معنی ہیں انسان کے پاس جو کچھ مال و دولت ہے اس کو روک کر رکھنا، دوسروں کو نہ دینا اور خرچ نہ کرنا۔ اس کے اصطلاحی معنی   علامہ راغب اصفہانی کے نزدیک یہ ہیں: بخل، ضروریاتِ زندگی کو روک کر رکھنا، جن اُمور میں خرچ کرنا لازمی ہو، ان میں خرچ نہ کرنا۔ علامہ ابن حجر نے بخل کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے: ’’بخل ان ضروریات پر خرچ نہ کرنے کا نام ہے جن پر خرچ کرنا وقت اور حالات کا تقاضا ہو۔‘‘ القیومی نے کہا ہے: ’’شریعت میں بخل واجبی خرچ سے رُکنے کا نام ہے۔‘‘
    بخل اور بخیل
اسلام کی بنیادی تعلیم ہے کہ انسان اپنی محنت کی کمائی ہوئی دولت خود اپنی ذات اور لازمی ضروریات پر  اور بیوی بچوں اور عزیز واقارب پر خرچ کرے۔ اس کے ساتھ دوسروں کی ضروریات پر خرچ کرے۔ اس کے برعکس بخل یہ ہے کہ آدمی مال و دولت کو گن گن کر رکھے۔ ممکنہ حد تک اس کو خرچ ہونے سے بچائے اور اگر خرچ ہو بھی تو محض اس کی اپنی ذات پر ہو۔ بخیل کو دوسروں کی ضروریات، ان کی تکلیف اور پریشانی کا احساس نہیں ہوتا ۔ وہ خود کو اور اپنے متعلقین کو اللہ کی دی ہوئی نعمتوں سے محروم رکھتا ہے۔ اس کے باوجود اپنی اس بُری عادت کو درست اور صحیح گردانتا ہے۔ خود کو عقل مند سمجھتا ہے کہ وہ مستقبل کے لئے خزانہ اکٹھا کر رہا ہے۔ وہ افادئہ عام اور دوسرے انسانوں کے دکھ درد میں خرچ کرنے والوں کو بےوقوف سمجھتا ہے۔
’بخل‘ ایک مزاجی کیفیت کا نام ہے ۔ جس شخص کو یہ بیماری لگ جاتی ہے، وہ خود دنیا کی ساری چیزوں کا مالک بن کر رہنا چاہتا ہے، لیکن کسی کو کچھ بھی نہیں دینا چاہتا۔ اس کے دل و دماغ میں خودغرضی اور خودنمائی سمائی ہوئی ہوتی ہے۔ اسے صرف اپنی ذات سے محبت ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے اس کے ہر رویے سے تنگی جھلکتی ہے۔ مزاج و طبیعت میں بخل نظر آتا ہے۔ اس مزاجی کیفیت کی جھلک کبھی مال و دولت میں دکھائی دیتی ہے، کبھی علم و فن میں اس کا رنگ ظاہر ہوتا ہے اور کبھی اخلاق و عادات اور رویے میں اس کی آہنگ سنی جاتی ہے۔
بخیل شخص مال و دولت پر سانپ بن کر بیٹھ جاتا ہے ، نہ خود کھاتا ہے، نہ دوسروں کو کھانے دیتا ہے۔ وہ اگر عہدے اور منصب کو حاصل کرلیتا ہے یا پھر قوت و طاقت کا مالک بن جاتا ہے تو سارے اختیارات اپنی مٹھی میں رکھتا ہے۔ اس کے ماتحت کام کرنے والے پریشان رہتے ہیں۔ پورا نظام تباہ و برباد ہوکر رہتا ہے۔ اسی طرح بخیل شخص اگر علم و فن کے خزانوں پر قابض ہوجاتا ہے تو اس کے فیض سے انسانیت محروم رہتی ہے۔ قرآن نے اس طرح کے رویے پر سخت وعید سنائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:  ’’اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا، جو خدا کی شہادت کو جو اس کے پاس ہے چھپائے۔‘‘(البقرہ:۱۴۰)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ اور اس کے رسولؐ کے بعد سب سے بڑا سخی وہ شخص ہے جس نے علم کو سیکھا اور اس کو پھیلایا۔‘‘ (مشکوٰۃ، کتاب العلم)
بخیل شخص کے اخلاق، معاملات اور رویے میں بھی تنگی کا ہی مظاہرہ ہوتا ہے۔ وہ شفقت، ہمدردی، احسان، رواداری،حُسنِ سلوک جیسے اوصاف سے عاری دکھائی دیتا ہے۔ دوسروں کو پھلتا پھولتا، خوش حال اور مسکراتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا۔ اس کی ذات سے دوسروں کو کلفت اور زحمت ہی  ملتی ہے۔ اسے پھول سے الجھن ہوتی ہے، وہ راستوں میں کانٹے ڈالنے کا ہی کام کرتا ہے۔  اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس رویے پر ہلاکت کی وعید سنائی ہے۔ارشادِ ربانی ہے: ’’ پھر تباہی ہے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی نمازوں میں غافل رہتے ہیں اور جو دکھاوا کرتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی معمولی چیزوں کو مانگنے پر نہیں دیتے۔‘‘  (الماعون: ۴ - ۷)
    بخل کے بجائے سخاوت و فیاضی
 دین اسلام نے نرمی اور محبت، سخاوت اور فیاضی کا مزاج دیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’انسانوں میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ وہ شخص ہے جو لوگوں کے لئے زیادہ فائدہ پہنچانے والا ہو۔‘‘ (الصحیح الالبانی: ۹۰۶) دوسری حدیث میں آپؐ کا ارشاد ہے: ’’دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے۔‘‘ (بخاری)
دین اسلام نے انسانوں کے ساتھ ہمدردی کرنے اور ان کے کام آنے کی تعلیم دی ہے۔  حدیث میں انسانوں کی پریشانیوں کو دُور کرنے اور انھیں خوش کرنے کو صدقہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’نیکی کا حکم دینا، بُرائی سے روکنا، راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹادینا، بہرے کو بات سمجھا دینا، اندھے کو راہ دکھا دینا، کمزوروں کو سواری پر چڑھا دینا، اچھی اور پیاری باتیں بولنا، یہاں تک کہ اپنے بھائی سے مسکرا کر ملنا بھی صدقہ ہے۔‘‘ (بخاری، مسلم ابن حبان)
لوگوں کے لئے سلامتی اور بھلائی کی دُعا نہ کرنا بھی بخل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’وہ شخص بہت بڑا بخیل ہے جو سلام کرنے میں بخل کرے۔‘‘(ابن حبان، الصحیح الالبانی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بخیل وہ شخص ہے جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود و سلام نہ بھیجے۔‘‘(ترمذی، حسن صحیح) 
اچھے جذبات اور احساسات کا اظہار نہ کرنا بھی بخل ہے۔ اس کوتاہی سے کتنے خاندان بکھر جاتے ہیں، کتنے جوڑے بچھڑ جاتے ہیں، بچے یتیم ہوجاتے ہیں، گھر اُجڑ جاتے ہیں۔ اس کے برخلاف دوسروں کے لئے بہتر جذبات و احساسات کا اظہار کرنے سے تعلقات استوار ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے لئے قبولیت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں بہتر شخص وہ ہے جو تم میں اپنے گھر والوں کے لئے سب سے بہتر ہو، اور میں اپنے گھر والوں کے لئے تم میں سب سے بہتر ہوں۔‘‘ (ترمذی) 
    احساسات کا بخل
 کتنے بچے ہیں جو زبانِ حال سے کہتے ہیں کہ ہمیں صرف مدرسے کا اچھا بیگ، عمدہ لباس، لذیذ کھانے، اچھے کھلونے ہی نہیں چاہئیں بلکہ نرم دل اور کشادہ سینہ چاہئے، جو ہمیں چمٹالے، محبت کا اظہار کرے۔ ہمیں ایسے کان چاہئیں جو ہماری آرزوئوں کو سنیں۔ حاضر جواب دماغ چاہئے جو ہمیں تسلی بخش جوابات دے۔ کبھی کبھی جذبات اور احساسات کا بخل مالی بخل سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ کتنے بچے ہیں جو گھر میں محبت کے بھوکے ہوتے ہیں۔ ان کی اس خواہش کی تکمیل گھر کے عزیزواقارب سے نہیں ہوتی ہے تو اس محبت کی تلاش میں باہر بازاروں میں سرگرداں پھرتے ہیں۔ اس طرح ان کی زندگی تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔بہت سے بچے جذبات کے بخل کی وجہ سے گوشہ گیر ہوجاتے ہیں۔ انھیں انسانوں سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ مزاج میں چڑچڑاپن اور یک رُخا پن آجاتا ہے۔ بعض بچے تشدد اورانحراف کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ سکون کی تلاش میں نشہ آور چیزیں استعمال کرنے لگتے ہیں۔ رقم نہ ملنے کی صورت میں انھیں چوری کی لت لگ جاتی ہے۔ پھر وہ ہر طرح کی سماجی بُرائیوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ (بخل کی مزید اقسام آئندہ ہفتے ملاحظہ کیجئے)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK