Inquilab Logo

بالوں کے حوالے سے جدید فیشن اور اسلامی تعلیمات

Updated: January 24, 2020, 2:53 PM IST | Mudassir Ahmed Qasmi

ایک مسلمان کے لئے وہی طرزِ زندگی قابلِ اتباع ہے جس کی تعلیم قرآن و حدیث میں دی گئی ہے۔ جب ہم اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم صاف طور پر یہ پاتے ہیں کہ بال کٹوانے کے تعلق سے جدید فیشن سرا سر اسلامی تعلیمات سے متصادم ہے۔

نوجوانوں میں بالوں کا جدید فیشن ۔ تصویر : آئی این این
نوجوانوں میں بالوں کا جدید فیشن ۔ تصویر : آئی این این

آج نماز کے بعد مسجد میں بیٹھا تھا تو میں نے دیکھا کہ مجھ سے تھوڑی دوری پر ایک نوجوان نماز ادا کر رہا ہے؛ میں نے محسوس کیا کہ شاید  اس کے سر کے بال منڈے ہوئے ہیں اوروہ کالی ٹوپی پہن کر  نماز پڑھ رہا ہے لیکن نماز سے فارغ ہوکر جب وہ میرے قریب سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ وہ نہ کالی ٹوپی پہنے ہوئے ہے اور نہ سر منڈوائے ہوئے ہے بلکہ اُس نے بال کی کٹنگ کچھ اِس انداز سے کروا رکھی ہے کہ سر کے نیچے کے حصے چاروں طرف سے مُنڈے ہوئے ہیں اور سر کے اوپر کے بال کچھ اس طرح سے سیٹ ہیں کہ وہ ٹوپی جیسے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ایک منظرتھا،اِس طرح کے دیگر سیکڑوں مناظرہم اپنے ارد گردروزانہ دیکھتے رہتے ہیں؛ کبھی کسی پھل کی طرح تو کبھی کسی جانور کی طرح؛ کبھی کسی ہیرو کی طرح تو کبھی کسی ماڈل کی طرح، بالوں کی یہ نئی تراش خراش بالکل عجب بلکہ مضحکہ خیز ہے۔ بالوں میں مختلف رنگ بھرنابھی آج کے نوجوانوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ 
اہم سوال یہ ہے کہ آیا بالوں کےیہ مختلف اسٹائل اور فیشن ہمارے بچوں کے لئے کار آمد، مفیداور صحیح ہیں یا نہیں؟ سمجھدار اور سنجیدہ لوگوں کا یہی جواب ہوگا کہ بالوں کے حوالے سے مختلف اسٹائل اور فیشن کا اپنا نا غیر مفید اور غلط ہی نہیں بلکہ نقصان دہ بھی ہے البتہ چند غیر دانشمند اور غیر سنجیدہ افراد یہ کہتے ہوئے ضرور مل جائیں گے کہ اِس طرزِ عمل سے ہمارے لائف اسٹائل کا معیار بلند ہوتا ہے۔ آئیےاب ہم اِس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ ہمارے بچوں اور نوجوانوں کے لئے الگ الگ نئے ہیئر اسٹائل کے چکر میں پڑنا کس طرح غیر ضروری،غیر مفید اور غلط ہے۔
بالوں کے فیشن کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو ہم اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اِس کے بیشمار دنیوی نقصانات تو ہیں ہی ، دینی اعتبار سے بھی یہ صحیح نہیں بلکہ ممنوع ہے۔ دُنیاوی نقصانات میں سرفہرست وقت اور مال کا ضیاع ہے،کیونکہ جب کسی خاص اسٹائل میں بال کٹوانا ہوتا ہے تو سب سے پہلے بال بڑھانے کے لئے خاصا وقت درکار ہوتا ہے اور پھر کٹوانے کے بعد اس کی دیکھ بھال اور اس کو درست رکھنے میں صرف وقت ہی نہیں لگانا پڑتا بلکہ ہمہ وقت چوکنا بھی رہنا پڑتا ہے کہ کہیں کچھ گڑبڑ نہ ہوجائے اور سیٹنگ خراب  نہ ہو جائے۔   اسٹائلش ہیئر کٹنگ کے لئے پیسے بھی کافی بلکہ منہ مانگے لئے جاتے ہیں۔ اِ ن دونوں نقصانوں کے علاوہ ایک اہم نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان جس کام میں ہے ،اُس کام پر مکمل توجہ مرکوز نہیں کرپاتا؛ اِس کی آسان مثال اُس طالب علم کی ہے جو اسٹائلش بال رکھتا ہے۔پڑھائی سے اکثر اوقات اُس کی توجہ ہٹ جاتی ہے اوراس طرح وہ اپنی تعلیم کا بھی نقصان کر لیتا ہے۔ 
جہاں تک مذہبی اعتبار سے ہیئر اسٹائل کا تعلق ہے تو ہمیں سب سے پہلےیہ جاننا چاہئے کہ ایک مسلمان کے لئے وہی طرزِ زندگی قابلِ اتباع ہے جس کی تعلیم قرآن و حدیث میں دی گئی ہے۔ چنانچہ مَردوں کے بال کے حوالے سے جب ہم اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو صاف طور پر یہ پاتے ہیں کہ بال کٹوانے کے تعلق سے جدید فیشن سرا سر اسلامی تعلیمات سے متصادم ہے۔ سر کے کچھ حصوں پر بال رکھنا اور کچھ حصوں پر کٹوانا یا اسی طرح سے سر کے کچھ حصوں پر بال زیادہ رکھنا اور سر کے کچھ حصے پر کم رکھنا شرعی اصطلاح میں ’’قزع‘‘کہلاتا ہے جو بالکلیہ ممنوع ہے۔ حضرت نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: میں نے نبی کریم ﷺکو  ’’قزع‘‘سے منع فرماتے ہوئے سنا۔ حضرت نافع سے پوچھا گیا کہ قزع کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا (قزع اس کو کہتے ہیں کہ ) لڑکے کے سر کے بعض حصہ کو مونڈا جائے اور بعض حصے کو چھوڑ دیا جائے ۔ (بخاری) اور ایک حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک بچے کو دیکھا جس کے سر کا کچھ حصہ تو مونڈا گیا تھا اور کچھ حصہ چھوڑ دیا گیا تھا۔ آپ ﷺ نے اس (طرح کرنے) سے لوگوں کو منع کیا اور فرمایا یا تو پورے سر کو مونڈو یا پورے سر کو چھوڑ دو۔(مسلم)
مذکورہ احادیث اور تشریح کی روشنی میں غور کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ بالوں کے حوالے سے مسلمان جدید فیشن کو اختیار کر کے شریعت کی عملاً مخالفت کر رہے ہیں لہٰذا اِس سے بچنا اور اِس حوالے سے بطورِ خاص نوجوانوں میں بیداری لانا ضروری ہے۔ اِس کیلئے ضروری ہے کہ ہم شریعت کی اُن تعلیمات کو پڑھیں اور عام کریں جن میں شریعت کے مطابق بال رکھنے کی تشریح اور وضاحت موجود ہے۔ احادیث مبارکہ میں  نبی کریم ﷺ کے مبارک بالوں کے متعلق جو تفصیل آئی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ بڑے بال رکھنے کا اہتمام فرماتے تھے؛  البتہ کبھی آپ ﷺکے بال مبارک کانوں کے درمیان تک، کبھی کانوں تک، کبھی کانوں کی لو تک، کبھی کاندھوں تک یا کاندھوں کے قریب رہتے تھے، یعنی: جب آپ ﷺاپنے بال مبارک ترشواتے تو وہ کم سے کم کانوں کے درمیان تک ہوتے اور جب بڑھتے توکاندھوں تک یا کاندھوں کے قریب پہنچ جاتے تھے؛ اس لئے بال رکھنے کا مسنون طریقہ یہی ہے ۔ اسی طرح کبھی کبھار آپ ﷺ سے بال منڈوانا بھی ثابت ہے۔
نبیؐ اکرم کے مبارک طرزِ زندگی سے یہ بات ثابت ہےکہ ہم مختلف سائز کے بال رکھ سکتے ہیں لیکن یہ کہ وہ ہر طرف سے برابر ہوں اور ضرورت محسوس کرنے پر ہم بال منڈوابھی سکتے ہیں کیونکہ وہ بھی سنت ہے۔اگر ہم بال رکھتے ہیں تو ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اُس کو سنوار کر رکھیںتاکہ مہذب اور باسلیقہ انسان نظر آئیں۔یہ نکتہ اِس وجہ سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ موجودہ وقت میں کچھ لوگوں نے بال کو اپنے حال پر چھوڑ دینا بھی فیشن بنا رکھا ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: جس نے بال رکھے وہ بالوں کی تکریم کرے( ابو داؤد) اور اسی طرح  جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو بکھرے ہوئے پراگندہ بالوں کے ساتھ دیکھا اور فرمایا: کیا اسے اپنے بالوں کو سنوارنے کیلئے کوئی چیز نہیں ملتی؟ (مسند احمد) ہاں، یہ خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ ہم بلا وجہ ہر وقت بال  سنوارنے میں ہی نہ لگے رہیں۔
ان اسلامی تعلیمات کو پڑھنے کے بعد ہم بلا شبہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ زندگی کے تمام شعبوں میں اسلام نے ہماری اِس طرح رہنمائی فرمائی ہے کہ اگر ہم اُن پر عمل کر لیں تو ہماری زندگی ایک خوبصورت گلدستہ بن جائے۔بس ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہم اُن رہنمائیوں کو پڑھیں، سمجھیں اور اپنا کر دوسروں کو بھی ان کی ترغیب دیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK