Inquilab Logo

شرپسند عناصر سے نمٹنے کیلئے اقتدار کی حکمت عملی کتنی کارگر؟

Updated: March 22, 2020, 1:55 PM IST | Jamal Rizvi

دہلی فسادات سے متاثرہ علاقوں میں جان و مال کا جو نقصان ہوا اس کی بھرپائی میں خاصی مدت درکار ہوگی۔ اس سلسلے میں جو اقدامات کئے جائیں گے وہ تب تک موثر نہیں ثابت ہو سکتے جب تک کہ نفرت اور تشدد کے رجحان کی روک تھام کیلئے کسی بھی طرح کے تعصب کے بغیر ٹھوس اور نتیجہ خیز حکمت عملی نہ اختیار کی جائے

Amit Shah in Parliment - Pic : PTI
امیت شاہ ۔ تصویر : پی ٹی آئی

دہلی فسادات سے نمٹنے میں اقتدار کا رویہ اور پولیس کی کارکردگی پر عالمی میڈیا میں اب بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔میڈیا کے علاوہ مختلف ملکوں نے بھی ان فسادات پر تشویش کا اظہار کیا۔ اس اظہار میں یہ بات بہت واضح طور پر سامنے آئی کہ ان فسادات میں ایک خاص طبقہ کے تئیں اقتدار اور پولیس کا رویہ انصاف کے تقاضوں کی ان دیکھی کرنے والا تھا۔ گزشتہ دنوں پارلیمنٹ میں بھی ان فسادات پر بحث ہوئی ۔ اس بحث میں حکومت کی جانب سے مرکزی وزیر داخلہ نے یہ یقین دلایا کہ فسادات میں ملوث کسی بھی خاطی کو بخشا نہیں جائے گا۔ اپوزیشن کی جانب سے حکومت پر جانب داری اور فسادات پر قابو پانے میں دانستہ تاخیر کئے جانے کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے مرکزی وزیر داخلہ نے بڑے وثوق کے ساتھ کہا کہ خاطیوں کی شناخت کیلئے جو طریقہ حکومت اختیار کر رہی ہے وہ پوری طرح سائنٹفک ہے اور اس طریقہ کا استعمال ان خاطیوں کی شناخت میں بہت کارگر ثابت ہوگا جنھوں نے فسادات کی آگ بھڑکانے کاکام کیا ہے۔ان فسادات سے نمٹنے میں پولیس کی کارکردگی پر ایک طرف جہاں عالمی میڈیا اور ارباب اقتدار کو چھوڑ کر باقی تمام سیاسی پارٹیاں سوالات کھڑے کر رہی ہیں وہیں دوسری جانب وزیر داخلہ دہلی پولیس کی ستائش اسلئے  کرتے ہیں کہ اس نے ۳۶؍ گھنٹوں میں فسادات پر’ قابو‘ پا لیا۔دہلی پولیس چونکہ مرکزی وزارت داخلہ کے احکامات کی پابند ہے لہٰذا وزیر داخلہ کا دہلی پولیس کے حق میں بولنا فطری ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس شہر کو قومی راجدھانی کی حیثیت حاصل ہو اور جہاں اقتدار میں شامل سبھی بڑے لیڈر رہتے ہوں اس شہر کے چند مخصوص علاقوں میں ہونے والے فسادات پر قابو پانے میں دہلی پولیس کو اتنی تاخیر کیوں ہوئی ؟
 اس سوال کا کوئی اطمینان بخش جواب اقتدار کے پاس نہیں ہے۔ اسی طرح اقتدار کے سائنٹفک طریقہ کے استعمال سے خاطیوں کی شناخت پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔اس سائنٹفک طریقہ سے چہروں کی شناخت کرکے خاطیوں کو سزا دینے کی بات حکومت کر رہی ہے۔اس سلسلے میں غور طلب بات یہ ہے کہ مغربی دنیا میں اس تکنیک کے استعمال پر اتفاق رائے نہیں ہے۔ یورپی یونین سمیت کئی بڑی تنظیموں نے اس کی شفافیت اور غیر جانب داری کو مشتبہ قرار دیا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ میں بھی حکومتی سطح پر اس تکنیک کے استعمال پر فکر مندی کا اظہار کیا گیا ہے۔ تکنیکی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے استعمال سے ان مخصوص اور منتخب لوگوں کو ہدف بنایا جا سکتا ہے جن کے بارے میں اقتدار پہلے سے یہ طے کر لے کہ گنہگار وہی لوگ ہیں۔ اس تکنیک کے تجرباتی سطح پر استعمال میںچہرے کی شناخت میں اکثر ایسی خامیاں پائی گئی ہیںجو کسی بے گناہ کو گنہگار کی صف میں شامل کر دیتی ہیں۔مغربی دنیا میں اس تکنیک کے سیاسی استعمال پر پوری طرح پابندی لگانے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ اب یہی تکنیک جو اقتدار کی نظر میں بہت سائنٹفک قسم کی ہے ،دہلی فسادات کے خاطیوں کی شناخت میں استعمال کی جائے گی۔اس تکنیک کے استعمال کے بعد خاطیوں کی جو فہرست تیار ہوگی اس میں کس طرح کے ناموں کی اکثریت ہوگی، بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔
 اگر زندگی کے مختلف معاملات اور امور سے متعلق مغربی دنیا کے طرز عمل کا موازنہ وطن عزیز سے کیا جائے تو یہ حقیقت بہت واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ جو چیز وہاں فرسودہ اور متروک ہو جاتی ہے اسے بڑے والہانہ انداز میں اختیار کرکے اپنے سائنٹفک ہونے کا ثبوت دینے والا رجحان یہاں بہت عام رہاہے۔ اس طرز عمل کا مشاہدہ  زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں کیا جا سکتا ہےلیکن بات جب حکومتی سطح کی ہو اور اس کا مقصد معاشرے میں قیام امن سے وابستہ ہو تو ایسے موقع پر اس طرح کی نقالی کو بہت زیادہ مفید اور کارگر نہیں قرار دیا جا سکتا۔یہ بہت افسوس اور حیرت کی بات ہے کہ خاطیوں کو سزا دلانے کیلئے اقتدار ایک طرف جہاں ایسے مبینہ سائنٹفک طریقے کے استعمال پر زور دے رہا ہے وہیں دوسری جانب ان لیڈروں کے متعلق لب کشائی کی زحمت بھی نہیں کرتا جنھوں نے دہلی کے اسمبلی انتخابات میں ایسی تقریریں کیں جو نفرت اور اشتعال کو بڑھاوا دینے والی تھیں۔ ان لیڈروں کے متعلق کچھ کہنا تو دور ، ارباب اقتدار نے بالواسطہ طور پر ان لیڈروں کا دفاع کیا۔ ایسی صورت میں فسادات متاثرین کیلئے انصاف کی فراہمی کس حد تک شفاف اور غیر جانب دار ہوگی اس کے متعلق وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
  دہلی فسادات سے متاثرہ علاقوں میں جان و مال کا جو نقصان ہوا اس کی بھرپائی میں خاصی مدت درکار ہوگی۔ اقتدار اور انتظامیہ کی جانب سے اس سلسلے میں جو اقدامات کئے جائیں گے وہ تب تک موثر نہیں ثابت ہو سکتے جب تک کہ معاشرے میں نفرت اور تشدد کے رجحان کی روک تھام کیلئے کسی بھی طرح کے تعصب اور جانب داری کے بغیر ٹھوس اور نتیجہ خیز حکمت عملی نہ اختیار کی جائے۔اگر اس حوالے سے اقتدار کی کوششوں کا جائزہ لیا جائے تو اسے پارٹی لائن سے اوپر اٹھ کر ان لیڈروں کی جواب دہی طے کرنی چاہئے جنھوں نے اشتعال انگیز تقریروں کے ذریعہ ماحول کو خراب کیالیکن اس معاملے میں اقتدار کی مثالی خاموشی سے یہ اندیشہ بہرحال پیداہوتا ہے کہ اپنے تمام تر سائنٹفک دعوؤں کے باوجود وہ خاطیوں سے نمٹنے میں غیر جانب داری اور شفافیت کو برتنے میں کیسا رویہ اختیار کرے گی ؟
 ادھر گزشتہ کچھ برسوں کے دوران ملک گیر سطح پر جس طرح مذہبی شدت پسندی اور نفرت کے رجحان میں اضافہ ہوا وہ سماجی امن اور آشتی کیلئے نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں اقتدار کی اولین ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ جو عناصر معاشرتی نظم و نسق کو نقصان پہنچا رہے ہیں ان کو بغیر کسی تعصب کے قانون کی گرفت میں لایا جا ئے۔ اگر اس سیاق میں گزشتہ کچھ برسوں کے دوران ملک گیر سطح پر ہونے والے ہجومی تشدد اور دہلی کے حالیہ فسادات کا جائزہ لیا جائے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک خاص طبقہ کے تئیں اقتدار کا رویہ عموماً ایسا رہا ہے جسے مبنی بر انصاف نہیں کہا جا سکتا۔دہلی فسادات پر پارلیمنٹ میں بحث کے دوران بعض ارباب اقتدار نے یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کی کہ اس ملک میں نفرت اور تشدد ایک خاص مذہب کے پیروکاروں کے ذریعہ ہی پھیلایا جاتا ہے ۔ سماجی حقائق کے تناظر میں اقتدار کا یہ رویہ بہت افسوس ناک ہے کہ وہ نفرت کی طبقاتی درجہ بندی میں یقین رکھنے لگا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اچھے اور برے عناصر ہر مذہب اور طبقہ میں پائے جاتے ہیں لیکن جب اقتدار کی جانب سے ہر طرح کی برائی یا خرابی کو صرف ایک مذہب یا طبقہ سے مخصوص کرنے کی کوشش ہو تو ایسی صورت میں ان دوسرے شر پسند عناصر کو کھل کھیلنے کی چھوٹ مل جاتی ہے اور ہندوستانی معاشرہ ان دنوں جس طرح کے مسائل سے دوچار ہے اس کی ایک بڑی وجہ اقتدار کا یہ رویہ ہے۔
 سماجی ہم آہنگی اور اتحاد کے سازگار ماحول کو خراب کرنے میں جن عناصر کا ہاتھ ہوتا ہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب یا طبقے سے ہو سکتا ہے۔ ادھر کچھ برسوں سے وطن عزیز میں جس طرز کی سیاست نے زور پکڑا ہے اس میں ان عناصر کو اپنے سیاسی مفاد کیلئے استعمال کرنے کا رجحان بھی بہت تیزی سے بڑھا ہے ۔سماج میں قیام امن کیلئے اقتدار اور انتظامیہ کی جانب سے جو بھی کوششیں ہوں، ان میں جب تک عوام کا تعاون نہیں شامل ہوگا، تب تک یہ کوششیں بہت زیادہ کارگر نہیں ثابت ہو سکتیں۔اور ظاہر ہے کہ اقتدار اور انتظامیہ کی ان کوششوں میں عوام کی شراکت اسی وقت ممکن ہے جبکہ انھیں یہ مکمل یقین ہو کہ ان کوششوں میں کسی طرح کی جانب داری یا تعصب سے کام نہیں لیا جائے گا۔ سماج کے شر پسند عناصر سے نمٹنے کیلئے اقتدار جس مبینہ سائنٹفک طریقہ کے استعمال کی بات کر رہا ہے، اس سے وابستہ خدشات اور شبہات کو ختم کئے بغیر یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ اس کے ذریعہ کسی بے گناہ کو ہدف نہیں بنایا جائے گا۔
 مذہب کے نام پر نفرت اور تشدد سے اپنے سیاسی مفاد کو یقینی بنانے والوں کو یہ سوچنا چاہئے کہ جب ملک کے کسی حصہ میں فرقہ وارانہ فسادات ہوتے ہیں یا اس طرح کے ہنگامی حالات پیدا ہوتے ہیں تو اس میں نقصان اس عوام کا ہوتا ہے جو جمہوری طرز سیاست میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے ۔ اگر اقتدار عوام کے اعتماد اور بھروسے کو قائم رکھنا چاہتا ہے تو اس کی بنیادی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ معاشرہ میں سازگار ماحول کو برقرار رکھنے کیلئے ٹھوس اقدامات کرے۔ اگراقتدار کی کسی پالیسی یا منصوبہ کے متعلق عوام کا کوئی طبقہ بعض خدشات یا شبہات کا اظہار کرے تو اسے دوستانہ ماحول میں رفع کرنے کی کوشش ہونی چاہئے۔ اگر اقتدار عوام کا استحصال کرنے کے بجائے ان سے حقیقی ہمدردی رکھے اور جمہوری طرز سیاست میں عوام کے حقوق کے تحفظ کو ترجیح دے تو معاشرہ میں امن و آشتی کا ماحول بڑی آسانی سے تعمیر ہو سکتا ہے اور ایسی صورت میں اقتدار کو اس مبینہ سائنٹفک طریقہ کو بھی استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی جو تکنیکی ماہرین کے نزدیک مشتبہ اور مشکوک ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK