Inquilab Logo

مودی جی، یہ سب بھی تو ممکن ہے؟

Updated: April 09, 2024, 2:26 PM IST | Hassan Kamal | Mumbai

اس بارکا الیکشن ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ءکے الیکشنوں سے قدرے مختلف معلوم ہوتا ہے۔ پچھلے دو الیکشنوں میں بی جے پی بلکہ اگربات کی جائے تو مودی کیلئے بہت آسانیاں تھیں، ایسی آسانیاں جو عام طور پر عوامی انتخابات میں حصہ لینے والوں کو ذرا کم ہی نصیب ہوتی ہیں لیکن اب منظرنامہ ذرا مختلف نظر آرہا ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

 عام انتخابات کا دور دورہ ہے، بی جے پی بہت مضبوط ور بہت طاقتور پارٹی نظرآتی ہے، یہ کتنا ممکن ہے اور کتنا نا ممکن یہ جاننے کے لئے ابھی کچھ روز اور انتظار کرنا پڑے گا۔ لیکن کچھ باتیں بالکل صاف نظر آتی ہیں۔ اس بارکا الیکشن ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء کے الیکشنوں سے قدرے مختلف معلوم ہوتا ہے۔ پچھلے دو الیکشنوں میں بی جے پی بلکہ اگربات کی جائے تو مودی کے لئے بہت آسانیاں تھیں، ایسی آسانیاں جو عام طور پر عوامی انتخابات میں حصہ لینے والوں کو ذرا کم ہی نصیب ہوتی ہیں، ان الیکشنوں میں مودی کی بہت دھوم تھی۔ پہلے الیکشن میں تو ہندوستان کے ایک بڑے حصہ نے یہ مان لیا تھا کہ من موہن سنگھ کی سرکار اگر خود بد عنوان نہیں تھی، لیکن یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ وہ بے ایمانوں کی سرپرستی کرتی ہے۔ اس زمانے میں انا ہزارے کے دھرنے کی بھی بہت دھوم تھی، انہیں گاندھی جی کا اوتار مان لیا گیا تھا، اب وہ کہاں ہیں کچھ معلوم نہیں، اس کے علاوہ بھی مودی جی کا یہ اعلان کہ ان کے بر سر اقتدار ہوتے ہی کرپشن دم دبا کر بھاگ جائے گا اور ہر ہندوستانی کی جیب یا بینک اکاؤنٹ میں لگ بھگ پندرہ لاکھ روپے اکٹھا ہو جائیں گے۔ 
 پچھلے الیکشن میں بی جے پی کو ایک اور مدعا مل گیا تھا۔ ہندوستان میں کچھ ا یسے لوگ بلکہ طبقات ہیں جو راشٹر واد، بھارت کی سرزمین کو اپنی دھرم ماتا کہنے اور کہلوانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ پلوامہ کو ایک حادثہ کہا گیا تھا۔ ہندوستانی فوج کے کئی سپاہی ایک دہشت گردانہ حملہ میں مارے گئے تھے۔ یہ واقعہ دہشت گردی کا تھا یا نہیں تھا اس پر آج تک چنتن جاری ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب اصلی نہیں تھا، اس سلسلہ میں جموں کا ایک پولیس افسر بھگونت سنگھ پکڑا بھی گیا تھا، س نے اپنے اوپر مارے گئے تھپڑ کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ سائیں مجھے نہ مارو، آپ کو پتہ نہیں کہ یہ سارا معاملہ کیا ہے۔ اب معلوم نہیں کہ یہ پولیس افسر کہاں ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ اسے ضمانت مل چکی ہے اور وہ جہاں بھی ہے عیش کر رہاہے، لیکن بہرحال لوگوں نے مودی کی یہ بات مان لی تھی کہ وہ حملہ پاکستان کی سازش تھی اور انہوں نے ان نوجوانون ووٹروں سےجو پہلی بار ووٹ ڈالنے والے تھے، یہ کہا کہ ان کا ووٹ ان جانباز فوجیوں کے نام ہونا چاہئے، ان جوانوں کے نام جو جو دیش پر مر مٹے۔ انہو ں نے یہ بات مان لی اور مودی جی کو اتنے ووٹ دیئے کہ لوگ اس سے پہلے کا الیکشن بھول گئے۔ 
اس کے علاوہ بھی کچھ اور باتیں بھی تھیں جومودی کی مددکر رہی تھیں۔ ہندوستان کےکئی صوبوں میں تو بی جے پی کی اپنی حکومتیں تھیں، پھر پارٹی میں کوئی بھی مودی جی کے خلاف نہیں تھا، ایک مگر دلی بچ گیا تھا، دوسرے جنوبی ہندوستان بچ گیا تھا، لیکن وہاں بھی معاملہ بڑا تھا، کرناٹک میں بی جے پی نے جوڑ توڑ کرکے اور تمل ناڈو میں یوں تو حکومت کے ساتھ تھی، وہاں ایک ڈی ایم کے پارٹی میں بی جے پی کے ساتھی موجود تھے۔ جنوبی ہندوستان میں تو گجرات بی جے پی کا گڑھ تھا اورمہاراشٹر میں بھی شیو سینا کئی معاملات میں بی جے پی کی طرح نہیں بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی ہندوتوا کی طرف راغب تھی۔ لیکن اس بار معاملہ مختلف ہے، کئی ریاستیں جو بی جے پی کے زیر اثر تھیں اب اس سے نکل چکی ہیں۔ 
۲۰۱۹ء میں یہ اثرہواکہ بی جے پی بلکہ نریندر مودی کا اثر تھا کہ وہ جہاں بھی جاتے بی جے پی جیت جاتی تھی اس جیت کا راز نامعلوم تھا اور بی جے پی واقعی سارے ملک پر قابض ہو گئی تھی۔ ملک کے ہر صوبے میں اس کا اثر تھا۔ مگر اب وہ صورت نہیں۔ رہی بی جے پی کی حکومت کئی صوبوں میں ختم ہوچکی ہے۔ مثال کے طور پر کرناٹک، جنوب میں بی جے پی کا پہلا دروازہ کہلاتا تھا وہ بند ہوچکا ہے۔ اب گجرات رہ گیا ہے اور کسی حد تک مہاراشٹر لیکن وہاں بھی صورت حال بدل ر ہی ہے۔ 
مہاراشٹر میں یوں تو شیو سینا بی جے پی سے الگ تھی لیکن بعد میں ہندوتوا کے ایشو پر دونوں ایک ساتھ دکھائی دیتی تھیں، ہندی بھاشی علاقہ تو پوری طور بی جے پی کے قابو میں تھا، یوپی میں تواس کا پہلے ہی اثر تھا، بہار کا یہ ریکارڈ ہے کہ وہ کبھی بی جے پی کے قابو میں نہیں آیا تھا، لیکن نتیش کمار کا شکریہ ان کی وجہ سے بہارپر بھی بی جے پی کا ہی قبضہ تھا۔ ہریانہ، ہماچل پردیش اور اترا کھنڈ بھی بی جے پی کے ہی قابو میں تھیں۔ یہ سچ ہے کہ اس بار اسمبلی انتخابات میں راجستھان، مدھیہ پردیش اور جھار کھنڈا یک بار پھر بی جے پی کے قبضہ میں چلے گئے، لیکن وہاں بی جے پی ایک ایسی پھوٹ کا شکار ہے، جو کہ بی جے پی کے ساتھ کبھی نہیں ہوا تھا۔ اس کےساتھ مودی کو ایک اور مسئلہ بھی ہے، آج تک یہ سناہی نہیں گیا تھا کہ بی جے پی میں کوئی مودی حریف بھی بن سکتا ہے، لیکن جب سے آرایس ایس نے اپنی یہ تھیوری پیش کی ہے کہ بی جے پی اس بار الیکشن مودی کے نام سے نہیں جیت سکتی، اس وقت سے بی جے پی میں ایک عجیب بے چینی ہے، پہلے بس یہ سنائی دیا ہے کہ نتن گڈکری ان کے حریف کے طور پر سامنے آ رہے ہیں، ہمیں ذاتی طور پر قطعی یقین نہیں ہے کہ نتن گڈکری واقعی نریندر مودی کے حریف ہو سکتے ہیں لیکن اگریہ قیاس بھی ہے تو یہ قیاس بھی زورپکڑتا جا رہا ہے۔ 
لیکن اس وقت مودی کے لئے سب سے بڑ ی مشکل اپوزیشن کے نام ’انڈیا‘محاذ کا قیام ہے۔ اس میں میں کل ۲۸؍ سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ ان میں سے کئی تو پہلے سے ہی بی جے پی کے نظریہ سے اختلاف رکھتی تھیں لیکن وہ ہمیشہ الگ الگ رہی ہیں، راہل گاندھی کی پدیاترا نے بھی سپنا د کھایا ہے، پہلے یہ ہوتا تھا کہ بی جے پی کوئی کا کام کرتی تھی، اس کے بعد کانگریس اس کا جواب دیتی تھی اور یہ جواب بھی کاری نہ ہوا کرتا تھا، اب یہ ہو رہا ہے کہ پہلے راہل گاندھی کوئی کام کرتے ہیں پھر مودی اس کا جواب دیتے ہیں اوریہ جواب بھی مدافعانہ ہوا کرتا تھا، مثال کے طورپر کانگریس کا پسماندہ طبقوں کی رائے شماری بی جے پی کے لئے سم قاتل بن گئی ہے، بی جے پی اس کی مخالفت بھی نہیں کر سکتی لیکن اندر سے وہ اس کے بالکل بر خلاف ہے، تو یقیناً اس بار انتخاب بی جے پی کے لئے چیلنج ہیں۔ 
یو پی میں لوک سبھا کی کل ۸۰؍سیٹیں ہیں اور مہاراشٹر میں کل ۴۰ ؍سیٹیں ہیں، اگر ان سیٹوں میں کچھ کمی ہوجائے تو بی جے پی کو بہت مشکلوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی لئے یہ بات مشہور ہے کہ مودی ہیں تو سب ممکن ہے، اسی طرح یہ بات بھی مشہور ہورہی ہے کہ اگر یہ سب کچھ ممکن ہے تو یہ باتیں جو یہاں دج کی گئی ہیں وہ بھی ممکنات میں ہیں یعنی مودی ہیں تو یہ سب بھی توممکن ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK