Inquilab Logo Happiest Places to Work

معاشرے کا اخلاقی بگاڑ: اسباب اور حل

Updated: December 17, 2021, 3:53 PM IST | Prof. Dr. Anis Ahmed

اسلامی معاشرے کی نمایاں خصوصیت صحتمند احتساب، قانون کی حکمرانی، بے لاگ انصاف، خیر کی حوصلہ افزائی ور شر کی سرکوبی ہے۔

Elders in training children and improving their thinking, morals and affairs.Picture:INN
بچوں کی تربیت اور ان کے فکر اور اخلاق و معاملات کی اصلاح میں بزرگوں کا بھی اہم کردار ہوتا ہے۔ تصویر: آئی این این

ایک صالح معاشرے کی پہچان، اس میں بسنے والے افراد کا وہ رویہ اور طرزِعمل ہوتا ہے، جس میں اعتدال و توازن ، انسانی ہمدردی ، انسانی حقوق کا احترام اور بالخصوص جان ، مال اور عزّت و عصمت کا تحفظ پایا جائے ۔ اخلاقی بنیادوں پر قائم ہونے والے ایک صالح معاشرے کا ترقی پزیر ہونا ایک عقلی تقاضا ہے۔ کیوں کہ جس معیشت ، معاشرت اور قانون و ثقافت کی بنیاد حقوق و فرائض کی ادائیگی پر ہوگی، وہ پس ماندہ ، مفلس اور اخلاقی بیماریوں دھوکا ، جھوٹ ، فریب ، چوری، بے حیائی اور فحاشی کا مرکز نہیں ہو سکتا ۔اس میں معروف ،برّ، خیر ، فلاح، حیا ، نیکی، ایفائے عہد، معاشی، اخلاقی اور قانونی پیمانوںکا احترام لازمی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے سیاسی زوال کے باوجود صدیوں تک مسلم معاشرہ اپنی اخلاقی برتری ، ذمہ دارانہ طرزِ عمل ، حیا اور ایمان داری کے لئے مثال بنا رہا۔لیکن یہ بدقسمتی ہے کہ مسلم معاشرہ ان خوابیوں کے حوالے سے اب رو بہ زوال ہے ، جس کی متعدد وجوہات  اور اسباب ہیں۔
 گھر اور خاندان
ان اسباب میں سب سے اوّلین چیز والدین کی غفلت اور ذمہ داری سے فرار ہے۔ معاشی دوڑ میں گرفتار شوہر اور بیوی اپنے آپ کو نہ صرف اپنے بچوں بلکہ پورے خاندان (دادا، دادی، چچا ، تایا ، نانا، ماموں ، خالہ ودیگر رشتوں) سے پہلے ہی آزاد کر چکے ہیں۔ پھر آمدنی کے حصول کی کوشش میں ان کے پاس صبح سے شام تک ملازمت میں مصروفیت کے بعد اتنا وقت نہیں بچتا کہ وہ سکون سے موقع اور محل کے لحاظ سے بچوں کے ساتھ بات چیت کر سکیں یا ان کے ساتھ کچھ وقت چہل قدمی کرتے ہوئے یا انھیں کسی قریبی مسجد تک لے جاتے ہوئے یہ پوچھ سکیں کہ انھوں نے اپنے اسکول یا کالج میں دن کیسے گزارا،دوستوں سے کیا بات چیت کی؟ کلاس میں ان کا درجہ اوّلین پانچ طلبہ میں ہے یا وہ سب سے آخری درجے پر ہیں؟ بچوں کی تربیت اور ان کے فکر اور اخلاق و معاملات کی اصلاح میں والدین کا کردار بڑی تیزی سے ختم ہوتا جارہا ہے۔ خاندان کا نظام سکڑکر ماں، باپ اور بچوں تک محدود ہوگیا ہے اور ان برکتوں سے محروم ہوچکا ہے، جو گھر میں دادا، دادی ، نانا ، نانی ، خالہ، پھوپھی، چچی اور دیگر قریبی رشتہ داروں سے دن رات رابطے اور سیکھنے کے مواقع فراہم کرتا تھا ۔
تعلیم گاہ
جو تعلیمی نظام ہم نے ورثے میں انگریز سامراج سے پایا تھا اور جس کا مقصد ہی ہماری نئی نسلوں کو اپنے دین، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ سے کاٹ کر مغرب کی نقالی کے لئے تیار کرنا تھا،  اسے جاری رکھا ہے بلکہ اسے بہت زیادہ بگاڑ بھی لیا ہے، حالانکہ اُسے درست کرکے اسلامی، تہذیبی، قومی اور عصری ضروریات کے مطابق ڈھالنا تھا۔
نصاب میں مغرب سے مستعار لی گئی کتب جو لادینی ذہن پیدا کرتی ہیں، ہم نے ان کی متبادل کتب تیار کرنے کی کوئی فکر نہیں کی، نہ اساتذہ کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا، نہ طلباء و طالبات کو قرآن و سنت کے فراہم کردہ اخلاقی رویوں سے روشناس کرایا اور یہ سمجھ لیا کہ ہرپیدایشی مسلمان ایمان داری، ایفائے عہد ، شرم وحیا اور صداقت و امانت پر خود بہ خود عمل کرنے والا ہو جائے گا۔ایک غلط مفروضے پر قائم توقعات کا نتیجہ  کیا ہو سکتا تھا؟
سوال  یہ ہے کہ اصلاحِ احوال کیسے ہو ؟
اسلام ایک جامع ، قابلِ عمل اور اصلاحی نظام ہونے کی بنا پر ایسے تمام مسائل کا عملی اور آزمودہ حل پیش کرتا ہے۔ ہم آج جس اخلاقی زوال اور ظلمت کا شکار ہیں، بالکل یہی صورتِ حال تھی جب اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے، معاشرے کی تاریکی، گمراہی اور پس ماندگی کو بڑی حکمت کے ساتھ اور کامیابی سے ایک ایسے معاشرے میں تبدیل کر دیا، جہاں حیا، عدل ، احترام ،تحفظ ، ترقی، فلاح و سعادت معاشرے کی پہچان بن گئی ۔ اس اصلاحِ احوال میں باہمی تعاون و احساس ذمہ داری کے ساتھ معاشرے میں موجود ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ 
والدین کو اپنے اوقاتِ کار کا ایک بڑا حصہ اپنی اولاد کے اصلاحِ احوال کے لئے قربان کرنا ہوگا۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر اور انھیں اپنے ساتھ بٹھا کر  قرآن وسنت کے پیغام کو ان کے دل و دماغ میں پورے اعتماد و یقین کے ساتھ جاگزیں کرنے میں صرف کرنا ہو گا ۔یہ کام یک طرفہ طور پر وعظ و نصیحت سے نہیں ہوگا۔ کوشش کیجئے کہ بچے والدین کے ساتھ مل کر اجتماعی غوروفکر کی عادت کو اپنائیں اور اپنے دماغ کو قرآنی اخلاقیات اور پیغام سے منور کریں ۔
یہ سارا کام محض تعلیمی اداروں پر نہیں چھوڑا جا سکتا ۔بلاشبہ تعلیمی اداروں کا بھی ایک اہم کردار ہے، لیکن آج ستم یہ ہے کہ بیشتر تعلیمی اداروں نے تعلیم کو بطور تجارت اختیار کررکھا ہے ۔ ان کے سامنے سیرت و کردار کی تعمیر  بطور ہدف اور ترجیح موجود  ہی نہیں ہے ۔ اس وجہ سے والدین کی ذمے داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
ابلاغ اور نقار خانے کی آواز
آج سوشل میڈیا نے جو ابلاغی مقام حاصل کر لیا ہے، اس میں روایتی صحافت بہت پیچھے رہ گئی ہے ۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ سوشل میٖڈیا کو تعمیری کام کے لئے استعمال کیا جائے اور سنسنی خیز اطلاعات یا لطیفے اورا فراد پر تیشہ زنی کی جگہ گھریلو امن ، حیا ، پاکیزگی ،رشتوں کے احترام کی بحالی اور معاشرے سے فحاشی اور عریانی کو ختم کرنے کے لیے تدابیر کی جائیںاور اس سلسلے میں جہاد اور اجتہاد کے طریقوں سے کام لیا جائے۔
دعوت و اصلاح کا بنیادی مقصدمعروف اور بھلائی کا قیام اور منکر ، فواحش، باطل اور فساد سے معاشرے کو پاک کرنا ہے ۔ معاشرتی مفاسد سے نجات کے لئے مثبت حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی حکمت عملی جس کے نتیجے میں معاشرے میں خاندان کے تحفظ اور خصوصاً خواتین اور بچوں کی جان اور عزت کے تحفظ کے معاملات کو اسلامی فکر اور روح کے مطابق بہتر بنایا جا سکے ۔ ایسی دعوتی سرگرمیوں کا انعقاد کرنے کی ضرورت ہے ، جن میں خاندانوں کو شریک کروایا جائے ۔ اسلامی تعلیمات کو ملحوظ رکھتے ہوئے عورتوں اور بچوں کے لئے اجتماعی سرگرمیوں کا اہتمام بھی ضروری ہے، نیز خاندانی نظام کی مضبوطی کے لئے خصوصی جدوجہد مطلوب ہے۔
اصلاحِ احوال کے لئے علماو مشائخ کا کردار بھی اہمیت رکھتا ہے۔ مسجد وہ اہم مقام ہے، جہاں سے اس ضمن میں ہر جمعے کو اگر سنجیدہ تعمیری پیغام دیا جائے تو عام مسلمان جو بنیادی طور پر آج بھی دین کو اہمیت دیتا ہے، فحاشی و بے حیائی اور سماجی و معاشی استحصال کے خلاف کوشش میں شامل ہونے پر آمادہ ہوگا ۔  مساجد  اور خطباء  سے رابطہ کا مؤثر نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے، جس کے ذریعے مسلکی اختلافات سے بالاتر ہو کر معاشرے کو درپیش اہم مسائل، مثلاً خاندانی نظام کا تحفظ ، بزرگوں کا احترام ، معاشرتی رواداری ، عریانی و فحاشی کے خلاف رائے عامہ کی بیداری ، بچوں کی تربیت، گھر کے ماحول کو اسلامی رنگ میں رنگنے کی ضرورت و اہمیت اور اس جیسے بیسوں اہم مسائل پر اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کے لئے کردار ادا کرنے کی طرف  نوجوانوں متوجہ کیا جاسکتا ہے۔
حضرت تمیم داریؓ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:دین سراپا نصیحت اور خیرخواہی ہے۔ عربی میں نصیحہ سے صرف خیرخواہی ہی مراد نہیں بلکہ صحیح بنیادوں پر تعلق استوار کرنا اور اس کے تقاضوں کوپورا کرنا بھی اس میں شامل ہے ۔ اللہ، اس کی کتاب اور اس کے رسولؐ سے خیرخواہی کے معنی ان پر حقیقی ایمان، ان سے گہرا تعلق، اور اس ایمان اور تعلق کے تقاضوں کی صحیح ادائیگی ہے۔  یہ ہرفرد کے لئے لازم ہے جو اسلام  اور اس پر عمل کا دعوے دار ہے۔ سب سے بنیادی چیز اللہ کی ہدایت اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی روشنی میں خودسادہ زندگی گزارنا اور معاشرے اور زندگی کے پورے نظام کی اس کے مطابق تشکیل کو اپنی زندگی کا مقصد اورسعی و جہد کا محور بنانا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا ارشاد، دُنیا اور آخرت میں ہرشخص کے لئے اس کی ذمہ داری کے بارے میں جواب دہی کا اصول مقرر فرماتا ہے۔ اسلامی معاشرے کی نمایاں خصوصیت صحت مند احتساب، قانون کی حکمرانی، بے لاگ انصاف، خیر کی حوصلہ افزائی ا ور شر کی سرکوبی ہے۔ اسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی جامعیت کے ساتھ اپنے اس ارشاد میں اُمت کے لئے مشعلِ راہ بنایا ہے:
 رسول اللہ ﷺنے فرمایا: سنو! کہ تم میں سے ہرشخص چرواہا  (نگراں) ہے،اور تم میں سے ہرایک شخص سے اپنی رعیت کے بارے میں بازپُرس ہوگی۔ وہ امام جو لوگوں پر نگراں ہے، اس سے رعیت کے متعلق بازپُرس ہوگی، اور مرد اپنے گھر والوں کا نگراں ہے، اس سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا، عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچے کی نگراں ہے، اس (عورت) سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا، کسی شخص کا غلام اپنے آقا کے مال کا نگراں ہے تو اس سے اس کی بابت پوچھا جائے گا۔ سن لو کہ تم میں سے ہر شخص چرواہا  ا(نگراں) ہے اور تم میں سے ہرایک سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا۔ (بخاری، کتاب الاستقراض)اللہ تعالیٰ ہم سب کو آخرت میں جواب دہی کی تیاری کے لئے ، اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق بخشے، آمین!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK