Inquilab Logo Happiest Places to Work

ٹرمپ سعودی عرب پہنچے، شاندار خیر مقدم، کئی اہم معاہدوں کا امکان

Updated: May 14, 2025, 12:23 PM IST | Agency | Riyadh

مشرق وسطیٰ کے چار روزہ دورے کا یہ پہلا پڑاؤ ہے، ساتھ میں ایلون مسک بھی ہیں، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے امریکی صدر کا ہوائی اڈے پر استقبال کیا۔

Saudi Crown Prince Mohammed bin Salman and US President Donald Trump talking at the royal palace. Photo: INN
شاہی محل میں گفتگو کرتے ہوئے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ۔ تصویر: آئی این این

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ دنیا کے بیشتر ممالک پر محصولات عائد کرنے کے بعدنئی سرمایہ کاری اور تجارتی معاہدے کے حصول کیلئے اب تیل کی دولت سے مالامال مشرق وسطیٰ کے چار روزہ دورے پر سعودی عرب پہنچ گئے ہیں۔ یہ ان کے دورے کا پہلا پڑاؤ ہے۔ اس کے بعد اپنے دورے میں صدر ٹرمپ قطر اور متحدہ عرب امارات بھی جائیں گے۔
  سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض پہنچنے پر امریکی صدر کاسعودی ولی عہد محمد بن سلمان نےہوائی اڈے پر شاندار استقبال کیا۔اس موقع پر امریکی صدر کو عرب کا روایتی قہوہ بھی پیش کیا گیا۔ اس دورے میں کئی اہم معاہدوں کی امید کی جارہی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق وہائٹ ہاؤس میں دوبارہ قدم رکھنے کے بعد یہ ٹرمپ کاپہلا بڑا غیر ملکی دورہ ہے، جس کا زیادہ تر محور تیل سے مالا مال خطے سے تجارتی معاہدے اور نئی سرمایہ کاری کی کوششیں ہوں گی۔امریکی صدر کے دورہ سعودی عرب کے موقع پر اُن کے ہمراہ ایلون مسک بھی ہیں۔
 یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب صدر کو سیکوریٹی سے متعلق خدشات کا سامنا ہے، جن کا اظہار موجودہ اور سابق امریکی فوجی، دفاعی اور خفیہ سروس اہلکاروں نے کیا ہے۔ یہ خدشات قطر کی جانب سے امریکہ کو ایک پرتعیش طیارہ بطور تحفہ دینے کی پیشکش پر اٹھائے جا رہے ہیں، جو مبینہ طور پر صدر ٹرمپ کے استعمال کیلئے ہوگا۔
 امریکی میڈیا کے مطابق اس دورے میں امریکی صدر ٹرمپ اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے درمیان بات چیت متوقع ہے جس میں ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کی امریکی کوششیں، غزہ کی جنگ کا خاتمہ، تیل کی قیمتوں کو قابو میں رکھنے کے ساتھ ہی  دیگر اہم معاملات زیرِ بحث آئیں گے۔ اس کے ساتھ ہی ماہرین نے  ٹرمپ کو خلیجی ممالک سے کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کرنے کی امید ظاہر کی ہے۔
 خبر رساں ایجنسی نے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب نے۶۰۰؍ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے جبکہ امریکی صدر ٹرمپ سعودی مملکت سے ایک کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ نے خود ہی یہ دورہ کیا۔ سعودی عرب کی حکومت کی جانب سے بھی ان کا شاندار خیرمقدم کیا گیا۔  اطلاعات کے مطابق  ان کے شاہی محل میں آمد پر گارڈ آف آنر بھی پیش کیا گیا۔ خیال رہے کہ سعودی عرب امریکہ کے اہم ترین اتحادیوں میں سے ایک ہے۔ خیال ہے کہ ٹرمپ سعودی عرب کو۱۰۰؍ ارب ڈالر سے زائد کے ہتھیاروں کا پیکیج بھی دیں گے۔ برطانوی میڈیا نے۲۰۱۷ء میں ہونے والے ٹرمپ کے دورہ کے حوالے سے بتایا کہ اُس  وقت سعودی عرب میں ٹرمپ نے ۳۵۰؍ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کی تھی جس میں۱۱۰؍ ارب ڈالر کا اسلحہ معاہدہ بھی شامل تھا۔
 مشرق وسطیٰ کے دورے کے ساتھ ہی ان کا ۲۰۱۸ء کا ایک بیان تیزی سے گشت کرنے لگا ہے  ۔اس موقع پر انہوں نے کہا تھا’’ایسے کئی ممالک ہیں جو ہمارے تحفظ کے بغیر ایک ہفتہ بھی نہیں چل سکتے،اسلئے انھیں اس کی قیمت چکانی چاہئے۔‘‘ اس کے بعدٹرمپ نے ’پے ٹو اسٹے‘ یعنی رہنے کی قیمت سے متعلق پالیسی اپناتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ یورپ، مشرق وسطیٰ، جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ممالک امریکہ کو ادائیگی یقینی بنائیں۔
 اور اب ایک بار پھر جب وائٹ ہاؤس میں بطور صدر اُن کی واپسی ہوئی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدر کی طرف سے تجویز کردہ  وہی پالیسی  دہرائی جارہی ہے۔ ان کے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سمیت خلیجی ممالک کے دورے کو عالمی سطح پر اسی تناظر میں دیکھاجارہا ہے۔ ٹرمپ نے صرف اشاروں  میں نہیں بلکہ عوامی اور واضح انداز میں سعودی عرب سے ادائیگی کا مطالبہ کیا ہے۔ دنیا کی نظریں اس بات پر مرکوز ہیں کہ وہ اس دورے میں کتنا کچھ حاصل کرپاتے ہیں۔

 مشرق وسطیٰ کے دورے کیلئے  ڈونالڈ ٹرمپ نے اسرائیل کو نظرانداز کیا
امریکی صدر کے مشرق وسطیٰ کے دورے کے ساتھ ہی عالمی میڈیا میں کچھ اورباتیں بھی  ہورہی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ اس کیلئے امریکہ نے اسرائیل کو نظر انداز کیا ہے۔ اس کا مطلب یوں بھی نکالا جارہا ہے کہ امریکہ کیلئے اب اسرائیل ترجیحی حیثیت نہیں رکھتا۔ اتوار کو’رائٹرز‘ کی ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں اسرائیلی وزیراعظم کی مایوسی کا صاف صاف اظہار ہورہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق  غزہ میں فوجی کارروائیوں کو تیز کرنے کے منصوبوں کا اعلان کرنے کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے دفتر نے کہا کہ اسے امریکہ کی طرف سے ایک امریکی نژاد اسرائیلی یرغمالی ایڈن الیگزینڈر کی رہائی کی اطلاع دی گئی ہے، یہ بات چیت براہ راست واشنگٹن اور حماس کے درمیان ہوئی تھی جس میں اسرائیل شامل نہیں تھا۔ یہ پہلا موقع ہے جب امریکہ نے حماس سے براہ راست گفتگو کی۔ اسے اسرائیل کیلئے بڑا جھٹکا قرار دیا جارہا ہے۔اسی طرح امریکہ کی جانب سے سعودی عرب پر اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات بحال کرنے کا مطالبہ واپس لینے کا فیصلہ بھی اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ مسئلہ عالمی طور پر اسرائیل کیلئے کتنا نقصان دہ رہا ہے، کیونکہ سعودی عرب اس بات پر اصرار کر رہا تھا کہ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ تصفیے  پر رضا مندی دے۔
  اسی درمیان اسرائیلی نیوز آؤٹ لیٹ ’وائی نیٹ‘  نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل اب امریکہ کی پہلی ترجیح نہیں ہے۔  ایسے میں ٹرمپ کا یہ چار روزہ دورہ اسرائیل کی تشویش میں اضافے کا باعث ہی ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ اس میں  وہ کون کون سی باتیں گفتگو کا موضوع بنتی ہیں جو اسرائیل کی پریشانیوں میں مزید اضافے کا سبب  ثابت ہوتی ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK