’’کیا انہوں نے آسمان کی طرف نگاہ نہیں کی جو ان کے اوپر ہے کہ ہم نے اسے کیسے بنایا ہے اور (کیسے) سجایا ہے اور اس میں کوئی شگاف (تک) نہیں ہے۔ ‘‘ (سورۂ قٓ:۶)
جب انسان آسمانی کروں کے محل وقوع، حرکات اور باہمی توازن پر غور و خوض کرتا ہے تو بے ساختہ الحمدللہ پکار اٹھتا ہے۔ ان اَن گنت آسمانی کروں کے باہمی فاصلے ’’بوڈس لاء‘‘ کے مطابق ٹھیک ٹھیک حسابی اندازے سے وقوع پزیر ہیں اور ان کا باہمی توازن حیرت انگیز ہے۔ قرآن کریم اس توازن کو انسانی رہنمائی کے لئے پیش کرتے ہوئے کہتا ہے:
’’سورج اور چاند (اسی کے) مقررّہ حساب سے چل رہے ہیں، اور زمین پر پھیلنے والی بوٹیاں اور سب درخت (اسی کو) سجدہ کر رہے ہیں، اور اسی نے آسمان کو بلند کر رکھا ہے اور (اسی نے عدل کیلئے) ترازو قائم کر رکھی ہے، تاکہ تم تولنے میں بے اعتدالی نہ کرو۔ ‘‘ سورہ الرحمٰن: ۵؍تا۸)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اربوں ٹن وزنی کرے اپنی اپنی جگہ پر کس طرح قائم ہیں ؟ وہ کیا چیز ہے جس نے ان کو باندھ رکھا ہے اور ان کو ادھر ادھر نہیں ہونے دیتی؟
قرآن کریم کا ارشاد ہے:
’’اور اﷲ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستون کے (خلا میں ) بلند فرمایا (جیسا کہ) تم دیکھ رہے ہو پھر (پوری کائنات پر محیط اپنے) تختِ اقتدار پر متمکن ہوا اور اس نے سورج اورچاند کو نظام کا پابند بنا دیا، ہر ایک اپنی مقررہ میعاد (میں مسافت مکمل کرنے) کیلئے (اپنے اپنے مدار میں ) چلتا ہے۔ وہی (ساری کائنات کے) پورے نظام کی تدبیر فرماتا ہے، (سب) نشانیوں (یا قوانینِ فطرت) کو تفصیلاً واضح فرماتا ہے تاکہ تم اپنے رب کے روبرو حاضر ہونے کا یقین کر لو۔ ‘‘ (الرعد:۲)
ایک دوسری جگہ کہا گیا:
’’اس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بنایا (جیسا کہ) تم انہیں دیکھ رہے ہو اور اس نے زمین میں اونچے مضبوط پہاڑ رکھ دیئے تاکہ تمہیں لے کر (دورانِ گردش) نہ کانپے اور اُس نے اس میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیئے اور ہم نے آسمان سے پانی اتارا اور ہم نے اس میں ہر قسم کی عمدہ و مفید نباتات اگا دیں۔ ‘‘ ( سورہ لقمان:۱۰)
یہ نظر نہ آنے والے ستون جن کی طرف قرآن نے ساڑھے ۱۴۰۰؍ سال پیشتر اشارہ کیا وہ کیا ہیں ؟ یہ ستون کشش ثقل سے بنے ہیں۔ ہر وہ مادی شے جس کا کچھ وزن ہو، ایک دوسری کو اپنی طرف ایک ایسی قوت سے کھینچتی ہے جس کا نام کشش ثقل ہے۔ ہر مادی ذرہ ایک دوسرے کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اس کشش ثقل کی ماہیت کیا ہے اس کی ٹھیک طور سے ابھی تک دریافت نہیں ہوسکی۔ موجودہ تحقیق اس سمت کی طرف بڑھ رہی ہے کہ یہ بھی بنیادی توانانی کی صورتوں Fundamental Forms of Energy میں سے ایک ہے۔ نیوٹن کے قانون کے مطابق دو اجسام کے درمیان باہمی کشش کی قوت ان کے اوزان کے حاصل ضرب کے تناسب سے ہے اور ان دونوں کے اجسام کے مربع کے معکوس تناسب سے ہے۔
اب غور کیجئے کہ نیوٹن نے سترہویں صدی عیسوی میں یہ قانون دریافت کیا تھا جبکہ قرآن کریم ساڑھے ۱۴۰۰؍ سال پیشتر نظر نہ آنے والے ستونوں کی طرف اشارہ کرچکا ہے۔ ستارے سیارے اور دیگر آسمانی کرّے مسلسل حرکت کے باوجود کشش ثقل کی وجہ سے اپنے اپنے افلاک کے گرد جکڑے ہوئے ہیں۔
فلک (Orbit)
جیسا کہ بیان ہوا، آسمانی کرے ساکن نہیں ہیں۔ ان میں سے ہر ایک، ایک مخصوص چکر کے اندر اپنے مرکز ثقل کے گرد گھوم رہا ہے۔ پھر نظام شمسی کی مثال سامنے رکھئے، اس کے تمام سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں۔ جس قدر کوئی سیارہ سورج سے قریب ہے اسی قدر اس کی رفتار تیز ہے۔ مثلاً عطارد جو سورج سے ۳۶؍ملین میل دور ہے، ۳۰؍ میل فی سیکنڈ کی رفتار سے گھوم رہا ہے اور ۸۸؍ دن میں ایک چکر پورا کرتا ہے۔ اسی طرح زمین جو سورج سے ۹۲؍ ملین میل دور ہے، ۱۸۰۵؍ میل فی سیکنڈ کی رفتار سے گھومتی ہے اور ایک سال میں چکر پورا کرتی ہے۔
قرآن کریم نے ORBIT کو فلک کہا ہے۔ عام طور پر فلک سے مراد آسمان لیا جاتا ہے کیونکہ قرآن کریم نے ۱۴۰۰؍ سال پیشتر اجرام فلکی کی طرف اشارہ کرکے اس کی وضاحت کردی تھی:
’’اور وہی (اﷲ) ہے جس نے رات اور دن کو پیدا کیا اور سورج اور چاند کو (بھی)، تمام (آسمانی کرّے) اپنے اپنے مدار کے اندر تیزی سے تیرتے چلے جاتے ہیں۔ ‘‘ (سورہ الانبیاء:۳۳)۔ اس آیت میں لفظ يَسْبَحُونَ قابل ذکر ہے۔ اس کا مادہ ہے س ب ح، معنی تیزی سے حرکت کرنا۔ ایسی حرکت جو خود حرکت کرنے والی شے کے اندر سے پیدا ہو۔
ان افلاک کا محل وقوع ایسا ہے اور ان کے اندر ستاروں اور سیاروں کی حرکت کے اوقات اس قدر صحیح ہیں کہ ان میں سے کوئی ایک دوسرے کے ساتھ نہیں ٹکراتا۔ چنانچہ کہا گیا:
’’نہ سورج کی یہ مجال کہ وہ (اپنا مدار چھوڑ کر) چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے نمودار ہوسکتی ہے، اور سب (ستارے اور سیارے) اپنے (اپنے) مدار میں حرکت پذیر ہیں۔ ‘‘ (یٰسین:۴۰)
چنانچہ اربہا ارب اجرام فلکی اپنے اپنے دائرو ں میں بغیر ایک دوسرے سے ٹکرائے مسلسل حرکت کررہے ہیں۔
چاند اور اس کی حرکات
چاند زمین سے اوسطاً ۲؍ لاکھ ۴۰؍ ہزار میل دور ہے۔ اس کا قطر ۲۱۶۳؍ میل ہے جو زمین کے قطر کا ایک چوتھائی ہے۔ زمین اپنے حجم کے لحاظ سے چاند سے قریباً ۵۰؍گنا بڑی ہے۔ رات کے وقت چاند اور ستاروں کی حرکت اور دن کے وقت سورج کی حرکت جو ہمیں نظر آتی ہے یہ زمین کے مغرب سے مشرق کی طرف لٹو کی طرح گھومنے کی وجہ سے ہے۔ ہر رات چاند کے محل وقوع کا مشاہدہ کرنے سے نظر آتا ہے کہ یہ روزانہ مشرق کی طرف سرکتا ہے۔ چاند کی اس حرکت کو Revolution کہتے ہیں اور چونکہ سورج بھی ستاروں کے جھرمٹ میں روزانہ مشرق کی طرف حرکت کرتا ہے، اس طرح چاند سورج کی نسبت روزانہ مشرق کی جانب ۱۲؍ ڈگری زیادہ بڑھتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں چاند روزانہ ۵۰؍ منٹ دیر سے نکلتا ہے۔
چاند کا ایک ہی چہرہ ہمیشہ زمین کی طرف رہتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ چاند کا اپنے محور کے گرد گھومنا اور زمین کے گرد چکر لگانا ایک ہی وقت یعنی ۲۷ء۵؍ دن میں پورا ہوتا ہے لیکن اس کے بظاہر آگے پیچھے جھولنے کی وجہ سے ہمیں پورا مہینہ اس کی کچھ ہی سطح نظر آتی ہے اور باقی زمین پر سے نظر نہیں آتی۔ چاند کی وہ سطح جو سورج کی طرف ہوتی ہے، ہمیشہ تیزی سے چمکتی ہے اور الٹی طرف کی سطح پر اندھیرا رہتا ہے اور جب چاند زمین کے گرد مغرب سے مشرق کی طرف حرکت کرتا ہے تو اس کی سطح کے مختلف حصے مختلف اوقات میں روشن نظر آتے ہیں جن کو چاند کی منازل کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم ان منازل کو اپنے مخصوص انداز میں یوں بیان کرتا ہے: ’’اور ہم نے چاند کی (حرکت و گردش کی) بھی منزلیں مقرر کر رکھی ہیں یہاں تک کہ (اس کا اہلِ زمین کو دکھائی دینا گھٹتے گھٹتے) کھجور کی پرانی ٹہنی کی طرح ہوجاتا ہے۔ ‘‘ (سورہ یٰسین: ۳۹)
زمین کی حرکات
Rotation یعنی لٹو کی طرح گھومنا۔ زمین کے چھوٹے (شمالاً جنوباً) قطر کے گرد گھومنے کو روٹیشن کہتے ہیں۔ ایک قطب سے دوسرے قطب تک کے Axis کو Axis of Rotation یا گھومنے کا محور کہتے ہیں۔ زمین کی حرکت ہموار ہے لیکن ہم زمین پر رہنے والوں کو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے یہ ساکن ہے۔ زمین اپنے محور کے گرد ایک دن میں چکر کاٹتی ہے جس کے نتیجے میں سورج، چاند اور ستارے مشرق سے ابھرتے نظر آتے ہیں، پھر مغرب کی طرف جاتے نظر آتے ہیں۔ یہ درحقیقت سورج، چاند اور ستاروں کی حرکت نہیں بلکہ خود زمین کی حرکت ہے۔ زمین کا وہ حصہ جو سورج کی طرف ہوتا ہے، روشن ہوجاتا ہے اور ہم اسے دن کہتے ہیں، اس کے برعکس زمین کی دوسری طرف رات ہوتی ہے۔ زمین کی ان حرکات یعنی لٹو کی طرح گھومنے اور سورج کے گرد چکر لگانے کے عمل کو قرآن کریم اپنے انداز میں اس طرح بیان کرتا ہے:
’’اور رات کی قسم جب وہ پیٹھ پھیر کر رخصت ہونے لگے۔ ‘‘ (سورہ المدثر:۳۳)
’’اور رات کی قسم جب اس کی تاریکی جانے لگے۔ ‘‘ (سورہ التکویر:۱۷)
’’اور رات کی قسم جب گزر چلے۔ ‘‘ ( سورہ الفجر:۴)
’’اور صبح کی قسم جب وہ روشن ہو جائے۔ ‘‘ (سورہ المدثر:۳۴)
’’اور دن کی قسم جب وہ سورج کو ظاہر کرے۔ ‘‘ (سورہ الشمس:۳)
’’وہی رات سے دن کو ڈھانک دیتا ہے (درآنحالیکہ دن رات میں سے) ہر ایک دوسرے کے تعاقب میں تیزی سے لگا رہتا ہے۔ ‘‘ ( سورہ الاعراف: ۵۴)
’’اور ایک نشانی اُن کے لئے رات (بھی) ہے، ہم اس میں سے (کیسے) دن کو کھینچ لیتے سو وہ اس وقت اندھیرے میں پڑے رہ جاتے ہیں۔ ‘‘ (یٰسین: ۳۷)
’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اﷲ رات کو دن میں داخل فرماتا ہے اور دن کو رات میں داخل فرماتا ہے اور (اسی نے) سورج اور چاند کو مسخّر کر رکھا ہے، ہر کوئی ایک مقرّر میعاد تک چل رہا ہے۔ ‘‘ (لقمان: ۲۹)
زمین کی اپنے محور کے گرد حرکت کو ایک دوسری جگہ نہایت خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے:
’’اُس نے آسمانوں اور زمین کو صحیح تدبیر کے ساتھ پیدا فرمایا۔ وہ رات کو دن پر لپیٹتا ہے اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو (ایک نظام میں ) مسخر کر رکھا ہے، ہر ایک (ستارہ اور سیّارہ) مقرّر وقت کی حد تک (اپنے مدار میں ) چلتا ہے۔ ‘‘ (سورہ الزمر:۵)
پھر کہا: ’’یہ اس وجہ سے ہے کہ اﷲ رات کو دن میں داخل فرماتا ہے اور دن کو رات میں داخل فرماتا ہے اور بیشک اﷲ خوب سننے والا دیکھنے والا ہے۔ ‘‘ ( سورہ الحج: ۶۱)
اوپر بیان کی گئی آیت زمین کے روزمرہ چکر کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ مضمون کے دوسرے حصے کی طرف بڑھنے سے قبل یہ احساس ضروری ہے کہ قرآنی آیات سے اخذ کی گئی ان معلومات پر کیا ہم کبھی غور کرتے ہیں ؟
موسموں کی تبدیلی
جب زمین اپنے مدار یا فلک کے اندر حرکت کرتی ہے تو اس کا محور (Axis) ایک طرف کو اور ہمیشہ ایک ہی زاویہ پر جھکا رہتا ہے۔ یہ جھکاؤ عمودی خط سے ساڑھے ۲۳؍ ڈگری کے زاویہ پر ہوتا ہے۔ گویا یہ محور ہمیشہ خود اپنے آپ کے متوازی ہی رہتا ہے چنانچہ موسموں کی تبدیلی کی وجوہات حسب ِ ذیل ہیں :
(۱) سطح زمین کا جھکاؤ (۲) اس کا محور کے متوازی رہنا اور (۳) زمین کا سورج کے گرد چکر لگانا۔
چونکہ زمین کا خط استواء زمین کے مدار کی سطح کی نسبت ساڑھے ۲۳ ؍ ڈگری جھکا ہوا ہے اور سورج کے گرد پورے چکر میں اس کا جھکاؤ بدستور اسی طرح رہتا ہے اس لئے زمین کے دونوں قطبین میں پہلے ہر ایک سال کے ایک حصے میں سورج کے بالمقابل رہتا ہے اور باقی تمام سال اس کے الٹی طرف رہتا ہے۔ اسی کی بناء پر موسم تبدیل ہوتے ہیں۔ اگر زمین کی سطح اور زمین کے مدار کی سطح ایک دوسرے پر عمودی واقع ہوتیں تو آسمان پر سورج کا راستہ روزانہ ایک ہی ہوتا۔ اس صورت میں دن اور رات کی لمبائی ہمیشہ ایک ہی رہتی اور موسم کبھی تبدیل نہ ہوتے کیونکہ اس صورت میں سورج کی کرنیں ہمیشہ ایک ہی زاویے پر رہتیں اور روزانہ سورج ایک ہی وقت طلوع ہوتا اور ایک ہی وقت پر غروب ہوتا اور موسم جن کا انحصار سورج سے حاصل ہونے والی گرمی کی مقدار پر ہے، تمام سال ایک جیسے رہتے۔
دوسری طرف اگر زمین کا محور تو جھکا ہوا رہتا لیکن زمین، سورج کے گرد چکر نہ کاٹتی تو ایسی صورت میں دن رات برابر نہ ہوتے لیکن کسی ایک مقام پر دن اور رات کی لمبائی ہمیشہ ایک ہی رہتی اور ایسی صورت میں بھی سورج سے حاصل ہونے والی گرمی کی مقدار ہمیشہ ایک ہی رہتی چنانچہ موسموں کی تبدیلی واقع نہ ہوتی۔ گویا موسموں کی تبدیلی کا انحصار، زمین کے محور کے جھکاؤ اور زمین کی سورج کے گرد گردش پر ہے۔ زمین کے محور کے جھکاؤ کی وجہ سے سورج گرما میں موسم سرما کی نسبت اونچی سطح پر واقع ہوتا ہے جس کی وجہ سے دن لمبے ہوجاتے ہیں اور سورج کی کرنیں عمودی پڑتی ہیں۔ اگر زمین کے محور کا جھکاؤ ۲۳ء۵؍ ڈگری سے زیادہ ہوتا تو موسموں کی تبدیلی زیادہ نمایاں ہوتی یعنی موسم گرما میں گرمی زیادہ ہوتی اور سرماء میں سردی زیادہ ہوتی۔ موسموں کی تبدیلی میں باقاعدگی کا انحصار زمین کے محور کے متوازی رہنے پر ہے اور ہر موسم کی طوالت کا انحصار زمین کی گردش کے وقت پر ہے۔ اگر زمین کی گردش کا وقت لمبا ہوتا تو موسموں کے اوقات بھی طویل ہوتے۔
مشرقین اور مغربین
قرآنِ کریم زمین کی سورج کے گرد گردش کو اپنے مخصوص انداز میں بیان کرتا ہے۔ سورج کے نہ طلوع ہونے کا کوئی ایک مقام ہے اور نہ غروب ہونے کا۔ مشرق میں طلوع اور مغرب میں غروب ہونے کے مقامات سارا سال بدلتے رہتے ہیں اور یہ عام مشاہدہ ہے۔ اگر ہم سورج کے طلوع و غروب کے مقامات کا ریکارڈ رکھتے جائیں تو معلوم ہوگا کہ طلوع اور غروب کی دونوں طرف ایک حد ہوتی ہے۔ قرآن کریم ان حدود کو یوں بیان کرتا ہے:
’’(وہی) دونوں مشرقوں کا مالک ہے اور (وہی) دونوں مغربوں کا مالک ہے۔ ‘‘ (الرحمٰن:۵۵)
ایک جگہ بُعْدَ الْمَشْرِقَيْنِ یعنی دونوں مشرقوں کا فاصلہ کے الفاظ آئے ہیں۔ (الزخرف:۳۸)
باقی وہ مقامات جو انتہائی دو مشرقوں اور انتہائی دو مغربوں کے درمیان واقع ہیں ان کے متعلق ارشاد ہے:
’’سو مَیں مشارق اور مغارب کے رب کی قسم کھاتا ہوں۔ ‘‘ (المعارج:۴۰)
چنانچہ جہاں دو انتہائی مشرقوں اور دو انتہائی مغربوں کا ذکر تھا وہاں مشرقین اور مغربین کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور جہاں انتہائی دو مشرقوں اور انتہائی دو مغربوں کے درمیانی نقاط کا ذکر ہے وہاں مشارق اور مغارب کے الفاظ استعمال ہوئے۔ رب المشارق کے الفاظ (الصافات: ۵) بھی آتے ہیں۔
قرآن کریم زمین کی حرکات کو اپنے منفرد انداز میں ایک اور جگہ یوں بیان کرتا ہے:
’’اور (اے انسان!) تو پہاڑوں کو دیکھے گا تو خیال کرے گا کہ جمے ہوئے ہیں حالانکہ وہ بادل کے اڑنے کی طرح اڑ رہے ہوں گے۔ (یہ) اللہ کی کاریگری ہے جس نے ہر چیز کو (حکمت و تدبیر کے ساتھ) مضبوط و مستحکم بنا رکھا ہے۔ ‘‘ (النمل: ۸۸)
معیاری وقت
اگر دنیا کے ہر حصے میں کلاکس شمسی یا مقامی وقت کے مطابق پڑھے جائیں تو مشرق اور مغرب میں ہر جگہ وقت مختلف ہوگا۔ اس وقت تک تو یہ ٹھیک تھا جب دنیا میں ذرائع آمد و رفت محدود تھے لیکن اب یہ ناممکن ہوگیا ہے کہ کسی جگہ کا مقامی وقت لیا جائے اسلئے ایک معیاری وقت کی ضرورت پیدا ہوئی۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ وہ مقامات جو ایک دوسرے سے قریبی طول البلد پر واقع ہیں ان کے درمیان آمد و رفت کی سہولت ہوجائے۔ معیاری وقت کی پٹیاں چوڑائی میں ۱۵؍ ڈگری کے برابر ہیں چنانچہ یہ طریقہ اب ساری دنیا میں رائج ہے۔ بین الاقوامی طور پر طے شدہ دن کو کنوینشنل دن کہتے ہیں۔ یہ بین الاقوامی ’’ڈیٹ لائن‘‘ (Date Line) سے شروع ہوتا ہے اور ۱۵؍ ڈگری فی گھنٹہ مغرب کی طرف سورج کے ساتھ حرکت کرتا ہے چنانچہ دنیا کے کسی مقام پر اجتماعی دن اتوار ۳؍ مارچ ہوسکتا ہے اور دوسری جگہ پیر ۴؍ مارچ ہوسکتا ہے۔
سورج کی حرکت کے مطابق کیلنڈر بھی تیار ہوتے رہے ہیں اور چاند کی حرکت کے مطابق بھی۔ اس طرح تین قسم کے کیلنڈر معرض وجود میں آچکے ہیں : (۱) Lunar قمری کیلنڈر (۲) Luno Solar یا شمسی قمری کیلنڈر اور (۳) Solar شمسی کیلنڈر۔
قمری کیلنڈر: سب سے زیادہ سادہ ہے اور شروع شروع میں تمام اقوام عالم اسی کو استعمال کرتی تھیں۔ اس کا ہر مہینہ نئے ہلال کے آسمان پر نمودار ہونے سے شروع ہوتا ہے۔ فی زمانہ صرف ہجری کیلنڈر قمری ہے۔
شمسی قمری کیلنڈر: یہ چاند کی منزلوں کے ساتھ ساتھ چلنے کی بھی کوشش کرتا ہے اور موسموں کے ساتھ بھی۔ شروع میں اس کیلنڈر میں ایک تیرہواں مہینہ سال کے آخر میں بڑھایا جاتا تھا تاکہ سال کو موسموں کے مطابق بنایا جاسکے اور اس کے لئے قواعد مقرر تھے۔ واضح رہنا چاہئے کہ یہودیوں کا کیلنڈر اس کے مطابق ہے۔
شمسی کیلنڈر: یہ کیلنڈر چاند کی منزلوں کو چھوڑ کر حتی الوسع موسموں کے مطابق بنایا جاتا ہے۔ شمسی کیلنڈر کے مہینے قمری کیلنڈر کے بارہ مہینوں کی نسبت بڑے ہوتے ہیں۔ شروع شروع میں جنہوں نے اس کیلنڈر کو اختیار کیا وہ مصری اور رومن قومیں تھیں۔
ہجری کیلنڈر اس وقت شروع ہوا جب نبی کریمؐ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ ہجری کیلنڈر ٹھیک ٹھیک قمری ہے۔ اس میں طلوع ہلال کے مطابق بعض مہینے ۲۹؍ دن کے ہیں اور بعض ۳۰؍ دن کے۔ ہجری سال شمسی سال سے گیارہ دن چھوٹا ہوتا ہے۔ اسلامی ممالک میں یہ بحث بھی سننے میں آتی ہے کہ آیا ان ممالک میں سال شمسی ہونا چاہئے یا قمری؟ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ قرآن میں کس کا ذکر ہے؟ چنانچہ فرمایا گیا:
’’ وہی ہے جس نے سورج کو روشنی (کا منبع) بنایا اور چاند کو (اس سے) روشن (کیا) اور اس کے لئے (کم و بیش دکھائی دینے کی) منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کا شمار اور (اوقات کا) حساب معلوم کر سکو، اور اللہ نے یہ (سب کچھ) نہیں پیدا فرمایا مگر درست تدبیر کے ساتھ، وہ (ان کائناتی حقیقتوں کے ذریعے اپنی خالقیت، وحدانیت اور قدرت کی) نشانیاں ان لوگوں کے لئے تفصیل سے واضح فرماتا ہے جو علم رکھتے ہیں۔ ‘‘ (سورہ یونس:۵)
پھرکہا:
’’(وہی) صبح (کی روشنی) کو رات کا اندھیرا چاک کر کے نکالنے والاہے، اور اسی نے رات کو آرام کے لئے بنایا ہے اور سورج اور چاند کوحساب و شمار کے لئے، یہ بہت غالب بڑے علم والے (ربّ) کا مقررہ اندازہ ہے۔ ‘‘
(سورہ الانعام: ۹۶)
پھر کہا:
’’اور ہم نے رات اور دن کو (اپنی قدرت کی) دو نشانیاں بنایا پھر ہم نے رات کی نشانی کو تاریک بنایا اور ہم نے دن کی نشانی کو روشن بنایا تاکہ تم اپنے رب کا فضل (رزق) تلاش کر سکو اور تاکہ تم برسوں کا شمار اور حساب معلوم کر سکو، اور ہم نے ہر چیز کو پوری تفصیل سے واضح کر دیا ہے۔ ‘‘ (سورہ الاسراء:۱۲)
پھر کہا:
’’سورج اور چاند ایک مقررہ حساب سے چل رہے ہیں۔ ‘‘ (سورہ الرحمٰن:۵)
اب دیکھئے، قرآن کریم نے برسوں کا حساب لگانے کے لئے سورج اور چاند دونوں کا ذکر کیا ہے۔ سورہ یونس کی آیت نمبر ۵؍ میں چاند کی منازل کو وقت کے شمار کا ذریعہ قرار دیا۔ سورہ الانعام کی آیت ۹۶؍ میں سورج اور چاند دونوں کو ذرائع شمار بتایا۔ سورہ الاسراء میں رات اور دن یعنی سورج کی گردش کو برسوں کا شمار اور حساب کا علم حاصل کرنے کے لئے کہا اور سورہ الرحمٰن میں سورج اور چاند دونوں کا ذکر کیا۔ یعنی جہاں تک حساب و شمار کا تعلق ہے دونوں قسم کے سال یعنی شمسی اور قمری مستحکم ہیں۔
چونکہ شمسی سال اب ساری دنیا میں رائج ہے اور پوری دنیا ذرائع آمد و رفت کے آسان ہونے کے بعد ایک وحدت بن چکی ہے اس لئے عملی طور پر تمام ممالک کے ساتھ لین دین اور دیگر معاملات کی خاطر شمسی سال پر انحصار عین مناسب ہے اور اس لئے بھی کہ اس میں موسموں کا لحاظ ہے لیکن اس مسئلہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مسلمان قوم کا قمری مہینہ سال بہ سال بدلتا جاتا ہے۔ ماہِ رمضان میں روزہ مسلمانوں کے لئے فرض قرار دیا گیا ہے۔ عسکری لحاظ سے بھی اور روحانی لحاظ سے بھی ماہِ رمضان امت ِ مسلمہ کے لئے ٹریننگ پیریڈ ہے اورٹریننگ پیریڈ کا مختلف موسموں میں واقع ہونا ضروری ہے۔
اس مسئلے کا ایک اور پہلو بھی ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا کی آبادیوں میں ہر قسم کے لوگ موجود ہیں، صاحب ِ علم بھی اور بے علم بھی۔ قمری مہینے کا حساب ہر ذہنی سطح کا انسان رکھ سکتا ہے چاہے وہ شہری باشندہ ہو یا کسی جنگل یا صحرا میں رہنے والا ہو۔ یہ بھی یاد رکھئے کہ رحم مادر کے اندر جنین کا قیام پورے دس قمری مہینوں تک ہوتا ہے۔
(بحوالہ: مظاہر فطرت اور قرآن)