• Sun, 12 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

مظاہر ِ قدرت پر جتنا زیادہ غور کیا جائیگا اُسی قدر اللہ کی لامحدود قوت اور علم کا ادراک ہوتا جائیگا

Updated: October 10, 2025, 1:26 PM IST | Qazi Abdul Wadud | Mumbai

’’کیا انہوں نے آسمان کی طرف نگاہ نہیں کی جو ان کے اوپر ہے کہ ہم نے اسے کیسے بنایا ہے اور (کیسے) سجایا ہے اور اس میں کوئی شگاف (تک) نہیں ہے۔ ‘‘ (سورۂ قٓ:۶)

The Holy Quran calls ORBIT the sky. The sky is usually taken to mean the sky because the Holy Quran had explained it by referring to the celestial bodies 1400 years ago. Photo: INN
قرآن کریم نے ORBIT کو فلک کہا ہے۔ عام طور پر فلک سے مراد آسمان لیا جاتا ہے کیونکہ قرآن کریم نے ۱۴۰۰؍ سال پیشتر اجرام فلکی کی طرف اشارہ کرکے اس کی وضاحت کردی تھی۔ تصویر: آئی این این
’’کیا انہوں نے آسمان کی طرف نگاہ نہیں کی جو ان کے اوپر ہے کہ ہم نے اسے کیسے بنایا ہے اور (کیسے) سجایا ہے اور اس میں کوئی شگاف (تک) نہیں ہے۔ ‘‘ (سورۂ قٓ:۶)
جب انسان آسمانی کروں کے محل وقوع، حرکات اور باہمی توازن پر غور و خوض کرتا ہے تو بے ساختہ الحمدللہ پکار اٹھتا ہے۔ ان اَن گنت آسمانی کروں کے باہمی فاصلے ’’بوڈس لاء‘‘ کے مطابق ٹھیک ٹھیک حسابی اندازے سے وقوع پزیر ہیں اور ان کا باہمی توازن حیرت انگیز ہے۔ قرآن کریم اس توازن کو انسانی رہنمائی کے لئے پیش کرتے ہوئے کہتا ہے:
’’سورج اور چاند (اسی کے) مقررّہ حساب سے چل رہے ہیں، اور زمین پر پھیلنے والی بوٹیاں اور سب درخت (اسی کو) سجدہ کر رہے ہیں، اور اسی نے آسمان کو بلند کر رکھا ہے اور (اسی نے عدل کیلئے) ترازو قائم کر رکھی ہے، تاکہ تم تولنے میں بے اعتدالی نہ کرو۔ ‘‘ سورہ الرحمٰن: ۵؍تا۸)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اربوں ٹن وزنی کرے اپنی اپنی جگہ پر کس طرح قائم ہیں ؟ وہ کیا چیز ہے جس نے ان کو باندھ رکھا ہے اور ان کو ادھر ادھر نہیں ہونے دیتی؟
قرآن کریم کا ارشاد ہے:
’’اور اﷲ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستون کے (خلا میں ) بلند فرمایا (جیسا کہ) تم دیکھ رہے ہو پھر (پوری کائنات پر محیط اپنے) تختِ اقتدار پر متمکن ہوا اور اس نے سورج اورچاند کو نظام کا پابند بنا دیا، ہر ایک اپنی مقررہ میعاد (میں مسافت مکمل کرنے) کیلئے (اپنے اپنے مدار میں ) چلتا ہے۔ وہی (ساری کائنات کے) پورے نظام کی تدبیر فرماتا ہے، (سب) نشانیوں (یا قوانینِ فطرت) کو تفصیلاً واضح فرماتا ہے تاکہ تم اپنے رب کے روبرو حاضر ہونے کا یقین کر لو۔ ‘‘ (الرعد:۲)
ایک دوسری جگہ کہا گیا:
’’اس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بنایا (جیسا کہ) تم انہیں دیکھ رہے ہو اور اس نے زمین میں اونچے مضبوط پہاڑ رکھ دیئے تاکہ تمہیں لے کر (دورانِ گردش) نہ کانپے اور اُس نے اس میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیئے اور ہم نے آسمان سے پانی اتارا اور ہم نے اس میں ہر قسم کی عمدہ و مفید نباتات اگا دیں۔ ‘‘ ( سورہ لقمان:۱۰)
یہ نظر نہ آنے والے ستون جن کی طرف قرآن نے ساڑھے ۱۴۰۰؍ سال پیشتر اشارہ کیا وہ کیا ہیں ؟ یہ ستون کشش ثقل سے بنے ہیں۔ ہر وہ مادی شے جس کا کچھ وزن ہو، ایک دوسری کو اپنی طرف ایک ایسی قوت سے کھینچتی ہے جس کا نام کشش ثقل ہے۔ ہر مادی ذرہ ایک دوسرے کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اس کشش ثقل کی ماہیت کیا ہے اس کی ٹھیک طور سے ابھی تک دریافت نہیں ہوسکی۔ موجودہ تحقیق اس سمت کی طرف بڑھ رہی ہے کہ یہ بھی بنیادی توانانی کی صورتوں Fundamental Forms of Energy میں سے ایک ہے۔ نیوٹن کے قانون کے مطابق دو اجسام کے درمیان باہمی کشش کی قوت ان کے اوزان کے حاصل ضرب کے تناسب سے ہے اور ان دونوں کے اجسام کے مربع کے معکوس تناسب سے ہے۔ 
اب غور کیجئے کہ نیوٹن نے سترہویں صدی عیسوی میں یہ قانون دریافت کیا تھا جبکہ قرآن کریم ساڑھے ۱۴۰۰؍ سال پیشتر نظر نہ آنے والے ستونوں کی طرف اشارہ کرچکا ہے۔ ستارے سیارے اور دیگر آسمانی کرّے مسلسل حرکت کے باوجود کشش ثقل کی وجہ سے اپنے اپنے افلاک کے گرد جکڑے ہوئے ہیں۔ 
فلک (Orbit) 
جیسا کہ بیان ہوا، آسمانی کرے ساکن نہیں ہیں۔ ان میں سے ہر ایک، ایک مخصوص چکر کے اندر اپنے مرکز ثقل کے گرد گھوم رہا ہے۔ پھر نظام شمسی کی مثال سامنے رکھئے، اس کے تمام سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں۔ جس قدر کوئی سیارہ سورج سے قریب ہے اسی قدر اس کی رفتار تیز ہے۔ مثلاً عطارد جو سورج سے ۳۶؍ملین میل دور ہے، ۳۰؍ میل فی سیکنڈ کی رفتار سے گھوم رہا ہے اور ۸۸؍ دن میں ایک چکر پورا کرتا ہے۔ اسی طرح زمین جو سورج سے ۹۲؍ ملین میل دور ہے، ۱۸۰۵؍ میل فی سیکنڈ کی رفتار سے گھومتی ہے اور ایک سال میں چکر پورا کرتی ہے۔ 
قرآن کریم نے ORBIT کو فلک کہا ہے۔ عام طور پر فلک سے مراد آسمان لیا جاتا ہے کیونکہ قرآن کریم نے ۱۴۰۰؍ سال پیشتر اجرام فلکی کی طرف اشارہ کرکے اس کی وضاحت کردی تھی:
’’اور وہی (اﷲ) ہے جس نے رات اور دن کو پیدا کیا اور سورج اور چاند کو (بھی)، تمام (آسمانی کرّے) اپنے اپنے مدار کے اندر تیزی سے تیرتے چلے جاتے ہیں۔ ‘‘  (سورہ الانبیاء:۳۳)۔ اس آیت میں لفظ يَسْبَحُونَ قابل ذکر ہے۔ اس کا مادہ ہے س ب ح، معنی تیزی سے حرکت کرنا۔ ایسی حرکت جو خود حرکت کرنے والی شے کے اندر سے پیدا ہو۔ 
ان افلاک کا محل وقوع ایسا ہے اور ان کے اندر ستاروں اور سیاروں کی حرکت کے اوقات اس قدر صحیح ہیں کہ ان میں سے کوئی ایک دوسرے کے ساتھ نہیں ٹکراتا۔ چنانچہ کہا گیا:
’’نہ سورج کی یہ مجال کہ وہ (اپنا مدار چھوڑ کر) چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے نمودار ہوسکتی ہے، اور سب (ستارے اور سیارے) اپنے (اپنے) مدار میں حرکت پذیر ہیں۔ ‘‘ (یٰسین:۴۰)
چنانچہ اربہا ارب اجرام فلکی اپنے اپنے دائرو ں میں بغیر ایک دوسرے سے ٹکرائے مسلسل حرکت کررہے ہیں۔ 
چاند اور اس کی حرکات 
چاند زمین سے اوسطاً ۲؍ لاکھ ۴۰؍ ہزار میل دور ہے۔ اس کا قطر ۲۱۶۳؍ میل ہے جو زمین کے قطر کا ایک چوتھائی ہے۔ زمین اپنے حجم کے لحاظ سے چاند سے قریباً ۵۰؍گنا بڑی ہے۔ رات کے وقت چاند اور ستاروں کی حرکت اور دن کے وقت سورج کی حرکت جو ہمیں نظر آتی ہے یہ زمین کے مغرب سے مشرق کی طرف لٹو کی طرح گھومنے کی وجہ سے ہے۔ ہر رات چاند کے محل وقوع کا مشاہدہ کرنے سے نظر آتا ہے کہ یہ روزانہ مشرق کی طرف سرکتا ہے۔ چاند کی اس حرکت کو Revolution کہتے ہیں اور چونکہ سورج بھی ستاروں کے جھرمٹ میں روزانہ مشرق کی طرف حرکت کرتا ہے، اس طرح چاند سورج کی نسبت روزانہ مشرق کی جانب ۱۲؍ ڈگری زیادہ بڑھتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں چاند روزانہ ۵۰؍ منٹ دیر سے نکلتا ہے۔ 
چاند کا ایک ہی چہرہ ہمیشہ زمین کی طرف رہتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ چاند کا اپنے محور کے گرد گھومنا اور زمین کے گرد چکر لگانا ایک ہی وقت یعنی ۲۷ء۵؍ دن میں پورا ہوتا ہے لیکن اس کے بظاہر آگے پیچھے جھولنے کی وجہ سے ہمیں پورا مہینہ اس کی کچھ ہی سطح نظر آتی ہے اور باقی زمین پر سے نظر نہیں آتی۔ چاند کی وہ سطح جو سورج کی طرف ہوتی ہے، ہمیشہ تیزی سے چمکتی ہے اور الٹی طرف کی سطح پر اندھیرا رہتا ہے اور جب چاند زمین کے گرد مغرب سے مشرق کی طرف حرکت کرتا ہے تو اس کی سطح کے مختلف حصے مختلف اوقات میں روشن نظر آتے ہیں جن کو چاند کی منازل کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم ان منازل کو اپنے مخصوص انداز میں یوں بیان کرتا ہے: ’’اور ہم نے چاند کی (حرکت و گردش کی) بھی منزلیں مقرر کر رکھی ہیں یہاں تک کہ (اس کا اہلِ زمین کو دکھائی دینا گھٹتے گھٹتے) کھجور کی پرانی ٹہنی کی طرح ہوجاتا ہے۔ ‘‘  (سورہ یٰسین: ۳۹)
زمین کی حرکات
Rotation یعنی لٹو کی طرح گھومنا۔ زمین کے چھوٹے (شمالاً جنوباً) قطر کے گرد گھومنے کو روٹیشن کہتے ہیں۔ ایک قطب سے دوسرے قطب تک کے Axis کو Axis of Rotation یا گھومنے کا محور کہتے ہیں۔ زمین کی حرکت ہموار ہے لیکن ہم زمین پر رہنے والوں کو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے یہ ساکن ہے۔ زمین اپنے محور کے گرد ایک دن میں چکر کاٹتی ہے جس کے نتیجے میں سورج، چاند اور ستارے مشرق سے ابھرتے نظر آتے ہیں، پھر مغرب کی طرف جاتے نظر آتے ہیں۔ یہ درحقیقت سورج، چاند اور ستاروں کی حرکت نہیں بلکہ خود زمین کی حرکت ہے۔ زمین کا وہ حصہ جو سورج کی طرف ہوتا ہے، روشن ہوجاتا ہے اور ہم اسے دن کہتے ہیں، اس کے برعکس زمین کی دوسری طرف رات ہوتی ہے۔ زمین کی ان حرکات یعنی لٹو کی طرح گھومنے اور سورج کے گرد چکر لگانے کے عمل کو قرآن کریم اپنے انداز میں اس طرح بیان کرتا ہے:
’’اور رات کی قسم جب وہ پیٹھ پھیر کر رخصت ہونے لگے۔ ‘‘  (سورہ المدثر:۳۳)
’’اور رات کی قسم جب اس کی تاریکی جانے لگے۔ ‘‘  (سورہ التکویر:۱۷)
’’اور رات کی قسم جب گزر چلے۔ ‘‘ ( سورہ الفجر:۴)
’’اور صبح کی قسم جب وہ روشن ہو جائے۔ ‘‘  (سورہ المدثر:۳۴)
’’اور دن کی قسم جب وہ سورج کو ظاہر کرے۔ ‘‘ (سورہ الشمس:۳)
’’وہی رات سے دن کو ڈھانک دیتا ہے (درآنحالیکہ دن رات میں سے) ہر ایک دوسرے کے تعاقب میں تیزی سے لگا رہتا ہے۔ ‘‘ ( سورہ الاعراف: ۵۴)
’’اور ایک نشانی اُن کے لئے رات (بھی) ہے، ہم اس میں سے (کیسے) دن کو کھینچ لیتے سو وہ اس وقت اندھیرے میں پڑے رہ جاتے ہیں۔ ‘‘ (یٰسین: ۳۷)
’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اﷲ رات کو دن میں داخل فرماتا ہے اور دن کو رات میں داخل فرماتا ہے اور (اسی نے) سورج اور چاند کو مسخّر کر رکھا ہے، ہر کوئی ایک مقرّر میعاد تک چل رہا ہے۔ ‘‘ (لقمان: ۲۹)
زمین کی اپنے محور کے گرد حرکت کو ایک دوسری جگہ نہایت خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے:
’’اُس نے آسمانوں اور زمین کو صحیح تدبیر کے ساتھ پیدا فرمایا۔ وہ رات کو دن پر لپیٹتا ہے اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو (ایک نظام میں ) مسخر کر رکھا ہے، ہر ایک (ستارہ اور سیّارہ) مقرّر وقت کی حد تک (اپنے مدار میں ) چلتا ہے۔ ‘‘ (سورہ الزمر:۵)
پھر کہا: ’’یہ اس وجہ سے ہے کہ اﷲ رات کو دن میں داخل فرماتا ہے اور دن کو رات میں داخل فرماتا ہے اور بیشک اﷲ خوب سننے والا دیکھنے والا ہے۔ ‘‘ ( سورہ الحج: ۶۱)
اوپر بیان کی گئی آیت زمین کے روزمرہ چکر کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ مضمون کے دوسرے حصے کی طرف بڑھنے سے قبل یہ احساس ضروری ہے کہ قرآنی آیات سے اخذ کی گئی ان معلومات پر کیا ہم کبھی غور کرتے ہیں ؟ 
(آئندہ ہفتے پڑھئے :موسموں کی تبدیلی اور معیاری وقت)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK