Inquilab Logo

مسجد مندر تنازع یا سیاسی غل غپاڑا

Updated: May 21, 2022, 10:56 AM IST | Mumbai

 گیان واپی مسجد، جس کا اصل نام، بقول مفتیٔ بنارس مولانا عبدالباطن نعمانی،  عالمگیری مسجد ہے، کم وبیش ۷؍ سو سال پرانی ہے۔ چو نکہ محلے کا نام گیان واپی ہے اس لئے، اس کا نام گیان واپی پڑ گیا۔

Gyanvapi Masjid.Picture:INN
گیان واپی مسجد۔ تصویر: آئی این این

 گیان واپی مسجد، جس کا اصل نام، بقول مفتیٔ بنارس مولانا عبدالباطن نعمانی،  عالمگیری مسجد ہے، کم وبیش ۷؍ سو سال پرانی ہے۔ چو نکہ محلے کا نام گیان واپی ہے اس لئے، اس کا نام گیان واپی پڑ گیا۔ مسجد، شہنشاہ اکبر کے زمانے میں موجود تھی جس کی تعمیر نو اورنگ زیب کے دور اقتدار میں ہوئی۔ ان حقائق سے اکثر لوگ واقف ہیں۔ اس پس منظر میں کہنا یہ ہے کہ جب مسجد اپنی جگہ قائم ہے اور وہاں پنجوقتہ نماز ہورہی ہے، مندر بھی اپنی جگہ موجود ہے اور وہاں بھی پوجا ارچنا جاری ہے، علاوہ ازیں، مسجد جانے والے نمازیوں نیز مندر جانے والے شردھالوؤں میں بھائی چارہ کی فضا صدیوں پرانی روایات کا حصہ ہے تو یہ بکھیڑا کھڑا کرنے سے کیا حاصل ہوجائیگا؟ کیا عوام کو بانٹنا مقصود ہے؟ اگر یہی مقصد ہے تو یہ ملک کے آئین اور قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔محض چند دنوں میں اس معاملے کو اتنا سنسنی خیز بنادیا گیا کہ ایودھیا تنازع بھی مات کھاگیا جو محض چند دنوں میں ہیجان انگیز صورت حال تک نہیں پہنچا تھا۔ مسئلہ دراصل یہ ہے کہ فریق ِمخالف قانونی طور پر مضبوط نہ تو ایودھیا کیس میں تھا نہ ہی گیان واپی مسجد کیس میں ہے۔ قانونی ماہرین بتاتے ہیں کہ گیان واپی مسجد کی قانونی حیثیت بھی خاصی پرانی ہے۔ 
 اس کی توثیق ۱۹۳۷ء کے ایک کیس سے ہوتی ہے جو مرزا پور کی سول عدالت میں داخل کیا گیا تھا۔ گیان واپی کے انتظام و انصرام کی ذمہ دار مسجد انتظامیہ کے وکیل ابھے ناتھ یادو نے ایک سوشل میڈیا چینل پر صاف لفظوں میں بتایا کہ ۱۹۳۷ء کے کیس میں مرزا پور کے سول جج شری ایس بی سنگھ نے اپنے فیصلے میں جو کچھ کہا تھا اس کا لب لباب یہ ہے کہ’’مسجد اور اس کے احاطے کی زمین حنفی مسلم وقف کی ہے اور مسلمانوں کو یہاں عبادت کا حق ہے۔ زمین کا اتنا حصہ ہی نہیں (جس پر مسجد قائم ہے) بلکہ وہ (مسلمان) چاہیں تو دھوبی گھر، مسجد کی چھت، شمالی دروازے کے پاس کا مکان اور مشرقی دروازہ پر واقع مکان یا شمال کی جانب کے چبوترہ کا استعمال بھی کرسکتے ہیں جہاں کئی قبریں ہیں۔‘‘  اس سے ثابت ہوا کہ ملک کی حالیہ تاریخ میں بھی مسجد کی حیثیت مسجد ہی کی رہی ہے اور ۲۴؍ اگست ۱۹۳۷ء کے مذکورہ عدالتی فیصلہ سے اس کی توثیق ِ مزید ہوتی ہے۔ چونکہ مسجد کی مسلم ّ قانونی حیثیت کو عدالت میں چیلنج کرکے کامیاب ہونا بڑی حد تک ناممکن ہے اس لئے کورٹ کے باہر بالخصوص گودی میڈیا کے ذریعہ ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جن میں ’’آستھا‘‘ کو مرکزیت حاصل ہوجائے اور پھر یہ کیس بھی ایودھیا کی راہ پر چل پڑے جس کا فیصلہ آستھا ہی کی بنیاد پر ہوا تھا۔ اسی لئے حوض میں مبینہ طور پر ’’شیو لنگ‘‘ کے ملنے کی خبر زوروشور سے پھیلائی گئی جبکہ یہاں بھی سروے ٹیم قانونی گرفت میں ہے۔ اسے اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کرنی تھی، یہ باہر کیسے آگئی؟  جمعہ کو سپریم کورٹ نے ضلع عدالت میں اس کی سماعت جاری رکھنے کا حکم دیا ہے۔ اب مسلم فریق کے اس اعتراض پر بھی، کہ سروے کا حکم عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون ۱۹۹۱ء کی خلاف ورزی ہے، ضلع عدالت ہی فیصلہ کرے گی۔ اِدھر  گودی میڈیا غیر معمولی عجلت میں ہے۔ اس کا بس چلے تو سماعت رُکوا کر آناً فاناً خود فیصلہ سنا دے۔ اس کی فعالت کے پیش نظر، اس کے لائق و فائق اینکروں سے یہی اپیل کی جاسکتی ہے کہ امن و امان کو مقدم رکھیں اور سنسنی نہ پھیلائیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK