• Sun, 14 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بیشتر اخبارات نے بی ایل اوز کی اموات، مقدمات کا بحران اور بلدیاتی انتخابات کو موضوع بنایا

Updated: December 11, 2025, 3:47 PM IST | Ejaz Abdul Ghani | Mumbai

اس ہفتے بیشتر اخبارات نے بی ایل اوز کی اموات، مقدمات کا بحران اوربلدیاتی انتخابات میں بلامقابلہ جیتنے کے رجحان کو موضوع بنایا ہے۔

Mamata Banerjee has also opened a big front in West Bengal against SIR. Picture: INN
ایس آئی آر کے خلاف مغربی بنگال میں ممتا بنرجی نے بھی ایک بڑا محاذ کھول رکھا ہے۔ تصویر:آئی این این
ملک کے موجودہ حالات  پر مختلف اخباری اداریوں  میں شدید تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر انتخابی نظام اور عدلیہ کی کارکردگی پر گہری نظر ڈالی گئی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ایس آئی آر کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے سبب بوتھ لیول افسران میں ہلاکتوں اور خودکشی کے واقعات میں ایک پریشان کن اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ غیر اردو زبانوں کے بیشتر اخبارات نے اس سنگین صورتحال کو دیکھتے ہوئے براہ راست الیکشن کمیشن کو ہدف تنقید بنایا ہے۔ اسی دوران مہاراشٹر میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بلا مقابلہ منتخب ہونے کا رجحان بھی سامنے آیا ہے جسے مراٹھی اخبارات نے انتخابی عمل میں بڑی  قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ ملکی عدالتی نظام کی کارکردگی بھی شدید تنقید کی زد میں ہے۔سکال نے اپنے اداریے میں یہ سنگین حقیقت بیان کی ہے کہ ملک بھر میں پانچ کروڑ سے زائد مقدمات زیر التواء ہیں اور اس صورتحال کو عدالتی نظام کی کمزوری اور تاخیری انصاف کا سب سے بڑا ثبوت قرار دیا ہے۔ 
بی ایل اوزکی اموات باعث تشویش  ہے
جن ستہ( ہندی، ۲۵؍نومبر)
’’انتخابی فہرستوں کی خصوصی نظر ثانی (ایس آئی آر) کا جاری عمل ایک مرتبہ پھر اس انتظامی ڈھانچے کی کمزوریاں عیاں کر رہا ہے جس پر ملک بھر میں آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کا پورا دار و مدار ہے۔ بنیادی سطح پر خدمات انجام دینے والے افسران بالخصوص بی ایل او اس وقت شدید ذہنی و جسمانی اور پیشہ ورانہ دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں۔ صورت حال اس قدر سنگین ہو چکی ہے کہ کئی افسران شدید تھکن کے باعث اسپتالوں تک جا پہنچے ہیں۔الیکشن کمیشن پر یہ سنجیدہ اعتراضات بھی سامنے آ رہے ہیں کہ وہ مختلف ریاستوں میں بی ایل اوز کے خلاف غیر معمولی سخت کارروائیاں کر رہا ہے۔ انتخابی فہرستوں کی درستگی ایک اہم اور نازک ذمہ داری ضرور ہے مگر جب یہی کام افسران کیلئے خوف و ہراس اور عدم تحفظ کی علامت بن جائے تو یہ سوال ناگزیر ہو جاتا ہے کہ آخر مسئلہ کہاں پیدا ہوا ہے؟گزشتہ چند ہفتوں میں غیر معمولی دباؤ کے نتیجے میں بے شمار اہلکار جسمانی و ذہنی تکان کا شکار ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ریاستی مشینری نے ان اہلکاروں کی انسانی حاجتوں  اور عملی مشکلات کا حقیقتاً ادراک کیا ہے؟ چھتیس گڑھ، گوا، گجرات، کیرالا، راجستھان،  مدھیہ پردیش، تمل ناڈو، اتر پردیش، مغربی بنگال، جموںکشمیر، لداخ اور دہلی سمیت کئی ریاستیں اس وقت خصوصی نظر ثانی کے عمل سے گزر رہی ہیں اور انہی علاقوں میں بی ایل او زکو غیرمعمولی کارروائیوں کا نشانہ بنائے جانے کی اطلاعات مل رہی ہیں۔اہلکاروں کا مؤقف ہے کہ برسوں سے اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی کے باوجود ان سے تہواروں کے ایام میں بھی غیر فطری رفتار اور غیر معمولی دباؤ کے ساتھ کام لینے کی روش سراسر ناانصافی ہے۔ یہ دباؤ نہ صرف ان کی صحت اور نجی زندگی پر منفی اثرات ڈال رہا ہے بلکہ انتخابی فہرستوں جیسے حساس اور دقیق عمل کے معیار پر بھی سوالیہ نشان چھوڑ رہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ انتخابی فہرستوں کی تیاری اور اس کی نظرِ ثانی بلا شبہ ایک نہایت اہم قومی ذمہ داری ہے مگر اس مقصد کے حصول کیلئے اہلکاروں پر غیر انسانی دباؤ ڈالنا کسی طور قابل قبول نہیں۔‘‘
زیرالتوا مقدمات کا بحران، ایک بڑا مسئلہ
سکال(مراٹھی ، ۲۷؍ نومبر)
’’ہندوستان کا عدالتی نظام اس وقت جس نازک بحران سے گزر رہا ہے وہ نہ کوئی عارضی انتظامی رکاوٹ ہے اور نہ ہی معمولی کمزوری بلکہ انصاف کے پورے ڈھانچے میں ایک ایسی گہری دراڑ ہے جس نے اس عمارت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ چیف جسٹس سوریہ کانت نے منصب سنبھالتے ہی زیر التواء مقدمات کی سنگین صورتحال کی نشاندہی کرتے ہوئے جس تلخ سچائی کی طرف توجہ دلائی وہ عدلیہ کیلئے ایک سخت اور سنجیدہ انتباہ ہے۔فی الوقت ملک کی مختلف عدالتوں میں ۵؍ کروڑ سے زائد مقدمات زیر التواء ہیں، ایسا بوجھ جس کے تلے انصاف کی رفتار نہ صرف سست پڑ گئی ہے بلکہ کئی مواقع پر تقریباً مفقود نظر آتی ہے۔عدالتی اصلاحات پر آج کل بحث و مباحثہ تو بہت ہے۔سیمیناروں سے لے کر مختلف قانونی پلیٹ فارموں تک اصلاحات کا بیانیہ گونجتا رہتا ہے مگر عملی نتائج کی رفتار انتہائی مایوس کن ہے۔ افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے بہت سے سینئر جج صاحبان نظام کی بنیادی خامیوں پر کھل کر گفتگوسبکدوشی کے بعد ہی کرتے ہیں جبکہ اصل ضرورت یہ ہے کہ اصلاحات کی بنیاد ذمہ داری کے موجودہ منصب پر رہتے ہوئے ہی رکھی جائے۔‘‘
بلدیاتی انتخابات میں بلامقابلہ جیتنے کا رجحان
سامنا(مراٹھی، ۲۴؍نومبر)
’’مہاراشٹر کی میونسپل کونسلوں، نگر پنچایتوں اور نگر پریشدوں کے انتخابات میں حالیہ برسوں کے دوران ایک تشویش ناک رجحان تیزی سے ابھر کر سامنے آیا ہے بغیر مقابلہ منتخب ہونے کا سلسلہ۔ جمہوری اصولوں کے برعکس یہ رجحان محض چند مقامی واقعات نہیں بلکہ ایک منظم سیاسی حکمت عملی بنتا جا رہا ہے جس نے انتخابی شفافیت اور عوام کے جمہوری حقوق پر سنجیدہ سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق مختلف علاقوں میں سیاسی اثر و رسوخ اور سرکاری طاقت کا استعمال کرتے ہوئے مخالف امیدواروں کو دستبرداری پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ پیسہ، دباؤ اور سرکاری مشینری کا غلط استعمال ایسے عناصر ہیں جو انتخابی میدان کو غیر مسابقتی بنا کر مخصوص افراد کو بآسانی منتخب کرانے کیلئے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس پورے کھیل میں رشتہ داروں کو عہدوں پر فائز کرنے کا رجحان بھی واضح طور پر نمایاں ہے۔ چکھلدارا میونسپلٹی میں جو وزیر اعلیٰ فرنویس کے ماموں زاد بھائی ہیں،بغیر مقابلہ منتخب ہوئے۔جامنیر میں وزیر گیش مہاجن کی اہلیہ سادھنا مہاجن کومیونسپل صدر کا عہدہ دلایا گیا جبکہ ان کے خلاف داخل درخواستیں پر اسرار طور پر واپس لی گئیں یا واپس لینے پر مجبور کیا گیا۔ ڈونڈائچہ میونسپلٹی میں وزیر جئے کمار راول نے اپنی والدہ نین کنور راول کو صدر بنوایا اور مخالف امیدوار کی نامزدگی غیر معمولی انداز میں خارج کر دی گئی۔ مزید براں یہاں پورے ۲۶؍ امیدوار بغیر مقابلہ منتخب ہوئے جیسے انتخاب کا عمل محض رسمی کارروائی ہو۔ شولاپور کی انگار نگر پنچایت میں سابق ایم ایل اے راجن پاٹل کی جانب سے ۱۷؍ کونسلروں کو بغیر مقابلہ منتخب کرانے کی کوششیں بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ جہاں حکمراں جماعت چاہتی ہے،وہاں اپنے وفاداروںکو مقابلے کے بغیر منتخب کروا کر  انتخابی برتری حاصل کی جا رہی ہے۔ یہ عمل اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ کیا واقعی انتخابی میدان عوام کی رائے اور سیاسی قابلیت کی بنیاد پر ہے یا محض اثر و رسوخ کے کھیل کا میدان بن کر رہ گیا ہے۔‘‘
کرناٹک میں کانگریس کا بحران
فری پریس جنرل( انگریزی، ۲۶؍نومبر)
’’کرناٹک کی کانگریس حکومت اس وقت جس شدید داخلی بحران سے گزر رہی ہے وہ محض دو شخصیات کے درمیان سیاسی کھینچا تانی نہیں بلکہ اس بڑی کمزوری کی علامت ہے جو پارٹی کے اندر تنظیمی نظم و ضبط کے بتدریج زوال سے جنم لیتی ہے۔ وزیر اعلیٰ سدارمیا اور نائب وزیر اعلیٰ ڈی کے شیوکمار کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی نے حکمرانی کے پورے ڈھانچے کو لرزا کر رکھ دیا ہے۔ ریاستی انتظامیہ کی رفتار سست پڑ چکی ہے اور عوام کے دلوں میں بے یقینی و بے اعتمادی نے مستقل جگہ بنانی شروع کر دی ہے۔یہ  بحران اُس مبینہ پاور شیئرنگ فارمولے کے گرد گھومتا ہے جس کے مطابق حکومت کی مدت کار کے نصف مرحلے پر وزارتِ اعلیٰ شیوکمار کے سپرد کئے جانے کی بات کہی جاتی ہے۔ شیوکمار کے حامی اب اس وعدے کی تکمیل کا وقت آ چکا قرار دیتے ہیں جبکہ سدارمیا اس طرح کے کسی بھی تحریری یا غیر تحریری معاہدے کو قطعی طور پر مسترد کرتے ہیں۔ اسی باہمی ضد اور سیاسی اعصاب آزمائی نےحکومتی ایوانوں میں انتشار اور فیصلہ سازی کے عمل میں جمود پیدا کر دیا ہے۔کانگریس ہمیشہ سے اپنی تنظیمی ڈھانچے میں اندرونی جمہوریت کے فروغ کا دعویٰ کرتی رہی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پارٹی میں لیڈر قیادت کے فیصلوں پر بھی کھل کر اپنی رائے پیش کرتے ہیں جسے اکثر پارٹی کی فکری آزادی اور جمہوری مزاج کا ثبوت قرار دیا جاتا ہے مگر کرناٹک کی حالیہ ہلچل اس جمہوری آزادی کے دوسرے رخ کو بھی بے نقاب کر رہی ہے۔ جب اختلاف رائے ادارہ جاتی نظم و ضبط سے بے نیاز ہو جائے تو نتیجہ سیاست کی کمزوری اور حکومت کی عدم استحکام کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔صورتحال کا سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ کانگریس کا’ہائی کمان‘ وہ مرکزی قوت اور فیصلہ کن اختیار اب ظاہر نہیں کر پا رہا جو کبھی پارٹی کی شناخت ہوا کرتا تھا۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK