Inquilab Logo Happiest Places to Work

ساس-بہو:نازک رشتہ مضبوط بن سکتا ہے

Updated: June 20, 2025, 4:31 PM IST | Mufti Nadeem Ahmed Ansari | Mumbai

اگر قرآن و حدیث کی روشنی میں ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کیا جائے اور اعتدال کی راہ اپنائی جائے۔

A little ignorance and ego can ruin the beauty of this beautiful relationship, so prudence is a must. Photo: INN
ذرا سی ناسمجھی اور اَنا اس خوبصورت رشتے کے حسن کو ماند کردیتی ہے، اس لئے سمجھداری شرط ہے۔ تصویر: آئی این این

سماج میں ساس اور بہو کا رشتہ نہایت پیچیدہ سمجھا جاتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ قیامت آسکتی ہے لیکن ساس بہو کے رشتے میں سُدھار نہیں آسکتا۔ وہ اپنی بات میں کسی حد تک حق بہ جانب بھی ہیں، کیوں کہ لوگ خود سدھرنا نہیں چاہتے، دوسروں کو سدھارنا چاہتے ہیں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ انسان جو کچھ کرتا ہے وہ اس کے سامنے آکر رہتا ہے، اچھا ہو یا برا، کبھی اِسی دنیا میں تو کبھی اُس دنیا میں۔ جن کے دلوں میں خدا کا خوف اور اس کے سامنے حاضری کا احساس ہو، وہ خدا کی مخلوق کو تنگ نہیں کیا کرتے۔ لیکن بعض ساسیں اور بعض بہوئیں ایسی دیکھی جاتی ہیں جیسے انہیں نہ مرنا ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونا ہے، جب کہ ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا بھی ہونا ہے اور حساب بھی دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور صور پھونکا جائے گا تو یکایک یہ اپنی قبروں سے نکل کر اپنے پروردگار کی طرف تیزی سے روانہ ہو جائینگے۔ کہیں گے : ہائے ہماری کم بختی! ہمیں کس نے ہمارے مرقد سے اٹھا کھڑا کیا ہے ؟ (جواب ملے گا) یہ وہی چیز ہے جس کا خدائے رحمٰن نے وعدہ کیا تھا، اور پیغمبروں نے سچی بات کہی تھی۔ ‘‘ (یٰسین) ایک جگہ فرمایا: ’’یقین جانو ان سب کو ہمارے پاس ہی لوٹ کر آنا ہے، پھر یقیناً ان کا حساب لینا ہمارے ذمے ہے۔ ‘‘ (الغاشیۃ) 
 اللہ و رسول اللہ ﷺ نے آخرت کی فکر پیدا کر کے دنیوی مسائل کو آسان کر دیا ہے۔ اخلاقی و معاشرتی زندگی کے زریں اصولوں کی تعلیم کے ذریعہ یہ بتا دیا گیا کہ کس طرح انسان دنیا و آخرت میں سکون کی زندگی گزار سکتا ہے۔ پھر بھی نہ جانے کیوں ساسیں اور بہوئیں ان تمام کو بالکل طاق میں رکھ دیتی ہیں۔ ایک دوسرے کی غیبت، حسد، تحقیر، کینہ، ناراضی، ایک دوسرے کو معاف نہ کرنا، تکلیف پہنچانا، رنجیدہ کرنا اور حقوق پامال کرنا جیسے کاموں کو گناہ ہی نہیں سمجھتیں۔ یا دوسرے انسانوں کے معاملے میں تو گناہ سمجھتی ہیں، لیکن خاص ساس اور بہو کے رشتے میں ان باتوں کی پروا نہیں کرتیں اور کہیں ساس تو کہیں بہو ایسے ایسے مظالم کرتی دیکھی سنی جاتی ہے کہ انسانیت شرمسار ہو کر رہ جاتی ہے!کسی کی بیٹی (اپنی بہو) کو یا کسی کی ماں (اپنی ساس) کو ایسی تکلیف دینا جو اپنی بیٹی یا اپنی ماں کے لئے پسند نہ کی جائے، ایمان کے منافی ہے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اپنے بھائی کے لئے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ (بخاری) ساس کو چاہئے کہ بہو کے ساتھ شفقت کا معاملہ کرے اور بہو کو چاہئے کہ ساس کا احترام کرے، تاکہ دونوں کی زندگیوں میں سکون اور گھر کا ماحول خوشگوار رہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس نے ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کیا اور ہمارے بڑوں کے حقوق کو نہ پہچانا وہ ہم میں سے نہیں۔ (ابوداؤد)
یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر کئے گئے مظالم کو اللہ تعالیٰ بھی اس وقت تک معاف نہیں فرماتے جب تک خود بندہ معاف نہ کر دے۔ توبہ و استغفار اور نیکیوں سے ذنوب (گناہ) معاف ہوتے ہیں حقوق معاف نہیں ہوتے۔ ظالم چاہے جو ہو، اسے ظلم کا بدلہ چکانا پڑتا ہے۔ اسلئے ساس اور بہو دونوں کو اللہ کے سامنے جواب دہی سے ڈرنا چاہئے۔ جب صور پھونکا جائےگا، محشر بپا ہوگا اور ہر ایک کا کچّا چٹھا کھل کر سامنے آجائےگا تو کسی کو زبان کھولنے کی اجازت نہ ہوگی، بدن کے اعضا تمام باتوں کو کھول کر بیان کر دیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’ آج کے دن ہم ان کے منہ پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے کہ وہ کیا کمائی کیا کرتے تھے۔ ‘‘ (یٰسین)
اعتدال اور میانہ روی سے کام لیں 
لوگوں میں مشہور ہے کہ عورت ہی عورت کی دشمن ہوتی ہے۔ جو ساس خود اپنے بیٹے کے لئے بہو لے کر آتی ہے پھر وہی اس سے غیرمحفوظ محسوس کرنے لگتی ہے۔ جو بہو ساس کے دم پر گھر میں داخل ہوتی ہے، وہی اس کی جڑ کاٹنے لگتی ہے۔ بعض ساسیں بیٹے کی محبت (بہو) کو برداشت نہیں کرتیں تو بعض بہوئیں اپنے شوہر کو ساس کی خدمت کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتیں۔ اس میں وہ مَرد بھی قصوروار ہوتا ہے جو اعتدال اور میانہ روی سے کام نہ لے کر یا تو مماز بوائے (ماں کا لاڈلا) یا زَن مرید بن کر رہ جاتا ہے۔ جب وہ کسی ایک کی حق تلفی کرتا ہے تو دوسری کے دل میں نفرت جنم لیتی ہے۔ اسلئے ہر ایک کے ساتھ انصاف کرنا اور اعتدال سے کام لینا چاہئے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میانہ روی اختیار کرو اور سیدھے راستے پر رہو، کیوں کہ تم میں سے کسی کو بھی اس کا عمل نجات دلانے والا نہیں ہے! صحابۂ کرام ؓنے عرض کیا : اے اللہ کے رسول! آپ کو بھی نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے بھی نہیں، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت وفضل سے ڈھانپ لے۔ (ابن ماجہ)
بدزبانی اور طعنہ زنی وغیرہ سے بچیں 
اکثر دیکھا گیا ہے، ساس بہو کی عادت ہوتی ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر ایک دوسرے کے ساتھ بدزبانی کرتی ہیں، طعنے دیتی ہیں، لعنت کرتی ہیں، جب کہ یہ تمام اوصاف مومن کو زیب نہیں دیتے، ان سے اجتناب کرنا چاہئے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’مومن طعنہ دینے والا، لعنت کرنے والا، بےحیا اور بدزبان نہیں ہوتا۔ ‘‘(ترمذی) 
آپس میں دل صاف رکھیں 
 رشتہ نبھانے کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ جانبین ایک دوسرے کی طرف سے اپنے دل صاف رکھیں۔ تمام لوگوں کی طرف سے عموماً اور جن لوگوں سے ہمیں واسطہ پڑتا ہے ان کی طرف سے خصوصاً ہمیشہ ہی دل صاف رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ حضرت انس بن مالکؓبیان کرتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے بیٹے! اگر تجھ سے ہو سکے تو اپنی صبح و شام اس حالت میں کر کہ تیرے دل میں کسی کے لیے کوئی برائی نہ ہو، پس تو ایسا کر! پھر فرمایا: اے بیٹے! یہ میری سنت ہے اور جس نے میری سنت کو زندہ کیا گویا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔ (ترمذی)
  تعلقات نبھانے کیلئے ہمیشہ ایک دوسرے کی خوبیوں پر نظررکھنی چاہئے، کمیوں پر نظر رکھنے سے دل مکدر ہو جاتا ہے۔ کوئی بھی انسان ایسا نہیں کہ اس میں کوئی بھلائی ہی نہ ہو، اگر ہم اس کی برائیوں اور کمیوں کے بجائے اس کی اچھائیوں پر نظر رکھیں تو زندگی گزارنے میں آسانی ہوگی، یہ بات ہر ساس اور بہو کو ذہن نشین کر لینی چاہئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK