Inquilab Logo

ہماری ندیاں اور کسانوں کو دی جانے والی ایم ایس پی

Updated: January 18, 2021, 12:08 PM IST | Bharat Jhunjhunwala

کبھی شہروں میں رہنے والے لوگوں کو اپنے ملک کی ندیوں کا خیال آتا ہے؟ کیا وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان ندیوں کو برقرار رکھنے کے عمل میں ہم بھی حصہ دار ہوں؟

River - Pic : INN
ندی ۔ تصویر : آئی این این

کسان اپنی فصلوں کیلئے اقل ترین قیمت (ایم ایس پی) کا مطالبہ کررہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس سلسلے میں قانون بن جائے۔ اس مطالبہ کا ایک پہلو اپنی پیداوار کی مالی ضمانت ہے۔ میرے خیال میں دوسرا پہلو یہ ہے کہ اقل ترین قیمت ہمارے ملک کی ندیوں کے تحفظ کی بھی ضمانت دے۔ آپ سوچیں گے کہ ان دونوں میں کیا تعلق ہے، تو آئیے اس کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
 ہمارے ملک کی ندیوں کے دو دعویدار ہیں۔ پہلا دعویٰ کسانوں کا ہے جو ندیوں کا پانی آبپاشی کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ دوسرا دعویٰ ماہی گیروں کا ہے جو ندیوں سے مچھلی اور دیگر جانداروں کا شکار کرتے ہیں یا پھر آبی ترکاریاں حاصل کرتے ہیں۔ ڈیموں سے جو پانی ندیوں کی بقاء کیلئے چھوڑا جاتا ہے اسے ماحولیاتی بہاؤ (ای فلو) کا نام دیا جاتا ہے۔ 
 چند مطالعات کے ذریعہ یہ سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ندیوں کو زندہ رکھنے کیلئے کتنا پانی درکار ہوتا ہے۔ مَیں اس مضمون میں، گنگا کے حوالے سے گفتگو کروں گا حالانکہ اس کا اطلاق ملک کی تمام ندیوں پر ہوتا ہے۔
 انٹرنیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ، جس کا صدر دفتر کولمبو میں ہے، نے ۲۰۰۶ء میں مشورہ دیا تھا کہ گنگا سے ۲۹؍ سے ۶۷؍ فیصد ماحولیاتی بہاؤ ضروری ہےچنانچہ گنگا سے اتنی مقدار میں پانی چھوڑا جانا چاہئے۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے ایڈوکیٹ ارون کمار گپتا کی جرح کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ نرورہ سے ۵۰؍ فیصد پانی چھوڑا جائے۔ یہ فیصلہ ۲۰۱۱ء میں سنایا گیا تھا۔اس کے بعد ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ نے ۲۰۱۲ء میں سفارش کی کہ کانپور کے قریب واقع بتھور سے ۴۷؍ فیصد پانی جاری کیا جائے۔ اس کے بعد سات انڈین انسٹی ٹیوٹس آف تکنالوجی کے کنسورٹیم نے رشی کیش میں واقع پشو لوک بیریج سے ۵۵؍ فیصد ماحولیاتی بہاؤ کو یقینی بنانے کی صلاح دی۔ پشولوک بیریج سے چلا (Chilla)ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کو پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ۲۰۱۵ء میں وزارت آبی وسائل نے انڈین انسٹی ٹیوٹس آف ٹیکنالوجی کی سفارش کی حمایت کی جس میں ۵۵؍ فیصد پانی چھوڑنے کی بات کہی گئی تھی۔ 
 اکتوبر ۲۰۱۸ء میں جل شکتی وزارت نے نوٹیفکیشن جاری کیا کہ بھیم گوڑا بیریج سے فی سیکنڈ ۳۶؍ تا ۵۷؍ کیوبک میٹر پانی فراہم کیا جانا چاہئے۔ کئی اور باندھ مثلاً وہ جو بجنور، نرورہ اور کانپور میں واقع ہیں، اُن کے بارے میں نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ ندیوں کو زندہ رکھنے کیلئے ان باندھوں سے ۲۴؍ تا ۴۸؍ کیوبک میٹر پانی فراہم ہو۔ یہ ان باندھوں پر ذخیرہ کئے گئے پانی کا محض ۶؍ فیصد ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ وزارت نے ہائی کورٹ کے حکم کو نظر انداز کردیا جو اَب بھی قابل عمل ہے۔
 مسئلہ یہ ہے کہ ہم غذائی ضمانت اور ماحولیات، ان دو پاٹوں کے درمیان پسنا پسند کررہے ہیں۔ خود کسان بھی جھیلوں کے پانی کا مکمل طور پر کارآمد استعمال نہیں کرتے جو کہ اُنہیں فی ہیکٹر زمین کے حساب سے سپلائی کیا جاتا ہے۔ اس میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ فی ہیکٹر کے حساب سے جو سپلائی ہوئی ہے وہ پوری مقدار آبپاشی کے لئے ہی استعمال کی گئی یا نہیں۔ ایسی کوئی بندش نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے کھیتوں کے لئے ضرورت سے کہیں زیادہ مقدار پانی استعمال کرلیتے ہیں۔ اس طرح اُن کے کھیت جل تھل ہوجاتے ہیں۔ اس کا حل نکالنا مشکل نہیں ہے۔ 
 کسانوں سے کہا جانا چاہئے کہ جتنا پانی وہ استعمال کررہے ہیں اُس کی قیمت ادا کریں۔ اس طرح وہ پانی کی دستیاب مقدار کا جائز اور منصفانہ استعمال کریں گے اور ملک کو پانی کے بے دریغ استعمال کے بغیر غذا کی ضمانت دے سکیں گے۔ 
 بلاشبہ، پانی پرچارجیز کی وجہ سے کسان جو کھیتی کرتے ہیں اس کی لاگت بڑھ جائے گی۔مگر کسانوں کا نقصان نہ ہو اس کے لئے جتنی لاگت بڑھے اتنی رقم کو اقل ترین قیمت میں جوڑ دیا جائے۔ اس طرح واٹر چارجیز سے بڑھنے والی لاگت کا اثر کسانوں پر نہیں پڑے گا۔ 
 اقل ترین قیمت بڑھنے کی وجہ سے شہری آبادی کے لوگوں پر بھی اثر پڑے گا جو مارکیٹ سے اناج خریدتے ہیں۔ یہ بات اس لئے کہی جارہی ہے کہ واٹر چارجیز اور اس کی تلافی کیلئے ادا کی گئی اضافی اقل ترین قیمت کے تناسب سے اناج کے داموں میں اضافہ ہوگا۔ یہاں تھوڑی دیر ٹھہر کر یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہمیں اناج سستا چاہئے یا ملک کی ندیوں میں پانی چاہئے۔ آخر شہری آبادی کے لوگوں کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ کیا ہم سمجھتے ہیں کہ ماحولیاتی توازن، ندیوں سے حاصل ہونے والی دولت جو مچھلی اور آبی ترکاریوں وغیرہ کی وجہ سے ملتی ہے اہم نہیں ہے بلکہ اہم صرف وہ قیمت ہے جو ہم اناج کے عوض ادا کرتے ہیں؟ 
 میری رائے یہ ہے کہ جل شکتی وزارت، ہائی کورٹ کے آرڈر کو نافذ کرنے کے بجائے مختلف مطالعات کی سفارش کردہ پانی کی مقدار پر توجہ دے۔ کسانوں پر آبپاشی کے لئے فراہم ہونے والے پانی کا چارج واجب الاداہو، حکومت اس اضافی بوجھ کے ازالے کیلئے کسانوں کو اضافی اقل ترین قیمت ادا کرے اور شہری آبادی اناج کی خریداری کے وقت کچھ زیادہ رقم برداشت کرلے تو اس میں پس و پیش یا گریز نہیں کرنا چاہئے۔ 
 یہ ہے تعلق ملک کی ندیوں اور اقل ترین قیمت کا۔ ترقیاتی اُمور پر غور کرتے وقت ہر ایک بالخصوص حکومت وسیع تر تناظر میں دیکھے اور وسیع تر مفاد کا تانہ بانہ بُنے تو اس کے یقینی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں تب ہمارا ملک وسائل کے دانشمندانہ استعمال کو یقینی بناسکے گا ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK