Inquilab Logo

آپؐ نے آلِ یاسرؓ کو جنت کی بشارت دی اور صہیبؓ رومی کو روم کا ثمراوّل قراردیا

Updated: February 21, 2020, 12:25 PM IST | Maulana Nadeem Al Wajidi

گزشتہ ہفتے ان کالموں امیں اسلام کے اوّلین مرکز دارارقم کا ذکر کیا گیا تھا جسے تاریخ اسلام میں غیرمعمولی حیثیت حاصل ہے۔ آج حضرت یاسر بن عمارؓ،حضرت صہیبؓ رومی اور حضرت بلال حبشیؓ کے قبولِ اسلام کا تفصیلی تذکرہ ملاحظہ کیجئے

مدینہ منورہ ۔ تصویر: آئی این این
مدینہ منورہ ۔ تصویر: آئی این این

 حضرت عمار بن یاسرؓ اور 
حضرت صہیب بن سنانؓ کا اسلام
دار ارقم کی ایمان افروز داستان اس وقت تک ادھوری رہے گی جب تک حضرت عمار بن یاسرؓ اور حضرت صہیب بن سنانؓ کے اسلام لانے کا واقعہ اس میں شامل نہ ہو۔ ان دونوں جلیل القدر صحابیوں نے ایک ہی دن ایک ہی وقت میں اسلام قبول کیا۔ حضرت عمار بن یاسر ؓبن عامر مکہ کے رہنے والے اور بنی مخزوم کے موالی میں سے تھے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ آپ کے والد محترم حضرت یاسرؓ یمن سے اپنے گم شدہ بھائی کی تلاش میں مکہ مکرمہ آئے۔ اس سفر میں ان کی دوستی ابوحذیفہ سے ہوگئی اور اس کے بعد انھوں نے یمن واپسی کا ارادہ ترک کردیا اور مکہ ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ ابوحذیفہ نے ان کی شادی اپنی ایک کنیز سے کردی جس کا نام سمیہؓ تھا۔ آپ کی ولادت بعثت نبوی سے تقریباً چالیس سال قبل ہوئی۔ پہلے حضرت عمارؓ  مسلمان ہوئے، بعد میں والدین بھی مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اس خاندان کو اسلام لانے کی پاداش میں بڑی اذیتیں دی گئیں۔ حضرت عمارؓ اور حضرت صہیبؓ کو اس قدر سزائیں دی جاتیں جن کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ سورہ النحل کی یہ آیت (نمبر۱۴)  ’’جن  لوگوں نے اپنے اوپر ظلم ڈھائے جانے کے بعد اللہ کی راہ میں ہجرت کی‘‘ان ہی کے متعلق نازل ہوئی۔ایک بار ابوجہل حضرت عمارؓ کی والدہ حضرت سمیہؓ کو گالیاں دیتا ہوا ان کے پاس آیا، اور اپنے نیزے کے ذریعے ان کے نچلے حصے پر اتنی چوٹ پہنچائی کہ وہ وہیں شہید ہوگئیں، یہ اسلام میں پہلی شہادت تھی جس کا شرف حضرت سمیہؓ نے حاصل کیا۔ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمارؓ اور ان کے گھر والوں کے پاس سے گزرے، اس وقت ان لوگوں کو مشرکین مکہ ایذائیں پہنچا رہے تھے، یہ دیکھ کر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے آل عمار اور اے آل یاسر خوش ہوجاؤ تمہارے لئے جنت کا وعدہ ہے۔ (مستدرک علی الصحیحین للحاکم: ۳/۴۳۸، رقم الحدیث: ۵۶۶۶) حضرت عمارؓ والدین کی شہادت کے بعد رسولؐ اللہ کے حکم سے ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے تھے، جب رسولؐ اللہ  مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو حضرت عمارؓ نے بھی مدینے کی طرف ہجرت کی۔ (سیر اعلام النبلاء: ۲/۲۴۷، الاصابہ: ۴/۴۷۳)۔
حضرت عماربن یاسرؓ کی طرح حضرت صہیب بن سنان رومیؓ نے بھی ایمان کے راستے میں بڑی تکلیفیں اٹھائیں اور بہت زیادہ اذیتیں برداشت کیں۔ حضرت صہیبؓ کا اصلی وطن موصل بغداد کے قریب دریائے دجلہ کے کنارے پر واقع ایک گاؤں تھا، ان کے والد اور چچا بادشاہ ایران کِسریٰ کی طرف سے ایلہ کے عامل تھے، ایک مرتبہ رومی فوجوں نے ایلہ پر حملہ کردیا، اور بہت سا مال غنیمت لوٹ کر لے گئے، کچھ لوگوں کو بھی قیدی بنا لیا، ان میں کمسن صہیب بھی تھے، اس طرح حضرت صہیبؓ نے رومیوں میں پرورش پائی، اسی نسبت سے رومی کہلاتے ہیں۔ بعد میں رومیوں نے ان کو فروخت کردیا، قبیلۂ بنو کلب کا ایک شخص ان کو خرید کر لے گیا اور مکہ لے جا کر عبداللہ بن جدعان کے ہاتھوں فروخت کردیا، عبداللہ نے انہیں آزاد کردیا۔ جب آپﷺ کو نبوت ملی اور مکہ مکرمہ میں اس بات کا چرچا ہوا تو یہ تحقیقِ حال کے لئے چلے، اس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دار ارقم میں تشریف فرماتھے، اتفاق سے حضرت عمارؓ بھی اسی وقت اسی ارادے سے دار ارقم کے لئے روانہ ہوئے، دونوں کی باہر ہی ملاقات ہوگئی، حضرت عمار بن یاسرؓ فرماتے ہیں کہ دار ارقم کے دروازے پر صہیبؓ بن سنان سے میری ملاقات ہوئی، میں نے ان سے پوچھا تمہارا کیا ارادہ ہے؟ انھوں نے بھی مجھ سے یہی سوال کیا، میں نے کہا میرا ارادہ یہ ہے کہ میں آپؐ کے پاس حاضر ہوں اور آپؐ کا کلام سنوں، انھوں نے بھی یہی کہا، ہم دونوں دار ارقم میں داخل ہوئے، آپؐ نے ہم دونوں پر اسلام پیش کیا، ہم اسی وقت مسلمان ہوگئے۔ (طبقات بنی سعد: ۳/۲۱۲) حضرت صہیبؓ اسلام قبول کرنے والے پہلے رومی تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قبول اسلام کے بعد ارشاد فرمایا: صہیب روم کا ثمر اول  یعنی پہلا پھل ہے۔ (مستدرک حاکم: رقم الحدیث: ۵۶۹۸) حضرت صہیبؓ نے بھی حضرت عمارؓ کی طرح اپنے اسلام کو چھپا کر نہیں رکھا، جس کی وجہ سے انہیں بھی اس راستے میں بڑی تکلیفیں اٹھانی پڑیں، جو آپ نے انتہائی صبر وضبط سے برداشت کیں، جب کفار ومشرکین کے ظلم وستم کا سلسلہ دراز ہوا تو مسلمانوں کے لئے ہجرت کا حکم نازل ہوا، پہلی ہجرت حبشہ کی طرف ہوئی، بعد میں مدینہ کی طرف ہجرت کا سلسلہ شروع ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لے گئے، جو لوگ آپ کے بعد مکہ مکرمہ میں باقی رہ گئے، ان میں حضرت صہیبؓ بھی تھے، کفار کو اندیشہ تھا اور ان کا یہ اندیشہ درست تھا کہ صہیب بھی ہجرت کرنے والے ہیں، انھوں نے حضرت صہیبؓ پر جاسوس متعین کردئے تھے جو ہر وقت ان پر نگاہ رکھتے، جس رات حضرت صہیبؓ کو ہجرت کرنا تھی حسب معمول جاسوس ان کی نگرانی کررہے تھے، اس رات ٹھنڈ بہت تھی، آپ بار بار گھر سے باہر نکلتے، اور کچھ دیر بعد گھر میں داخل ہوجاتے، ظاہر یہ کرنا تھا کہ قضائے حاجت کے لئے باہر نکل رہے ہیں، جاسوس خوش ہوکر ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ہمارے معبود لات وعزیٰ نے تو اس کا پیٹ ہی خراب کردیا ہے، یہ کہہ کر وہ لوگ واپس چلے گئے، ان کے جانے کے بعد حضرت صہیبؓ تیر وکمان اور تلوار لے کر مکہ مکرمہ سے نکل گئے، کچھ ہی دور گئے تھے کہ جاسوسوں کو اس کا احساس ہوگیا کہ صہیبؓ ہمیں دھوکا دینے میں کامیاب ہوگئے ہیں، وہ لوگ بھی اپنے اپنے گھوڑوں پر سوار ہوئے اور آپ کا پیچھا کرنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے، یہاں تک کہ انھوں نے آپ کو دیکھ لیا، دوسری طرف حضرت صہیبؓ کو بھی اس بات کا احساس ہوگیا کہ ان کو دیکھا جاچکا ہے، اور کچھ ہی دیر میں وہ ان تک پہنچنے میں کامیاب ہوجائیں گے، یہ سوچ کر انھوں نے ایک اونچی جگہ منتخب کی اور وہاں جاکر اس طرح کھڑے ہوگئے کہ آنے والے ان کے تیر کے نشانے پر آگئے، حضرت صہیبؓ نے چیخ کر ان سے کہا کہ اگر زندگی چاہتے ہو تو یہیں سے واپس چلے جاؤ تم لوگ میرے نشانے پر ہو، اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ میں ایک ماہر نشانہ باز ہوں، میرا نشانہ کبھی نہیں چوکتا، میرا ہر تیر تم میں سے ایک شخص کی جان لینے کے لئے کافی ہے، تیر ختم ہوگئے تو میرے پاس تلوار بھی ہے، اور میں تلوار چلانے کے فن سے بھی خوب واقف ہوں، پیچھا کرنے والوں نے جب یہ دیکھا کہ وہ گھر چکے ہیں تو کہنے لگے کہ تم ہمارے پاس ایک غلام کی حیثیت سے آئے تھے، اور اب تم مال دار ہوکر یہاں سے جانا چاہتے ہو، ہم تمہیں جان ومال بچا کر ہرگز جانے نہیں دیں گے، حضرت صہیبؓ نے ان سے پوچھا، اچھا اگر میں اپنا سارا مال تمہیں دے دوں تو کیا تم مجھے جانے دوگے، وہ کہنے لگے ہاں! اس صورت میں تم جاسکتے ہو، حضرت صہیبؓ نے چابیاں ان کی طرف پھینک دیں اور ان کو اپنے مال کا پتہ بھی بتلادیا۔ پیچھا کرنے والے مکہ واپس چلے گئے اور حضرت صہیبؓ خیریت کے ساتھ مدینے پہنچ گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر انھوں نے یہ پورا واقعہ سنایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے ابو یحییٰ ! یہ سودا نفع بخش رہا۔ قرآن کریم کی یہ آیت آپ ہی کی شان میں نازل ہوئی ہے: ’’کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ کی رضاکے لئے اپنی جان بیچ ڈالتے ہیں، اور اللہ اپنے بندوں پر بڑی مہربانی کرنے والے ہیں۔‘‘ (البقرۃ: ۲۰۷) (اسد الغابہ: ۳/۳۰)
حضرت بلال حبشیؓ کا قبول اسلام
حضرت بلال حبشیؓ کے تذکرے کے بغیر اسلام کے سابقین اولین کا یہ تذکرہ ادھورا رہے گا، یہ بھی ان لوگوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے ظہور اسلام کے بعد اس نئے دین کی دعوت پر لبیک کہنے میں سبقت کی، اگرچہ اس راستے میں انہیں ناقابل برداشت اذیتیں دی گئیں۔ حضرت بلالؓ اسلام کے سب سے بڑے دشمنوں میں سے ایک امیہ بن خلف کے غلام تھے۔ انھوں نے اس وقت اسلام قبول کیا جب صرف سات افراد اس نعمتِ عظمیٰ سے بہرہ ور ہوئے تھے۔ واقعات میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دوست حضرت ابوبکر صدیقؓ کسی غار میں مصروف عبادت تھے، باہر میدان میں حضرت بلالؓ مکہ مکرمہ کے ایک رئیس عبد اللہ بن جدعان کی بکریاں چرا رہے تھے، آپ ؐ نے غار سے چہرہ مبارک نکال کر انہیں آواز دی، اے چرواہے، کیا تم ہمیں دودھ پلا سکتے ہو؟ بلالؓ نے عرض کیا ان میں میری ایک بکری ہے جس کے دودھ سے میں اپنا پیٹ بھرتا ہوں۔ آج کے دن کا دودھ میں آپ کو دے سکتا ہوں، آپؐ نے فرمایا بکری لے کر آؤ، حضرت بلالؓ نے اپنی بکری پیش کردی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن منگواکر اس میں دودھ نکالا یہاں تک کہ وہ برتن لبالب بھر گیا۔ پہلے آپ نے شکم سیر ہوکر دودھ پیا، پھر برتن بھر کر دودھ نکالا اور ابوبکرؓ کو دیا، انھوں نے بھی جی بھر کے پیا، پھر حضرت بلالؓ کو نکال کردیا، انھوں نے بھی پیٹ بھر کر دودھ پیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بکری کو چھوڑ دیا، یہاں تک کہ اس بکری کے تھن دودھ سے لبریز رہنے لگے۔ آپ ؐنے بلالؓ سے فرمایا کیا تم اسلام میں کچھ دلچسپی رکھتے ہو، اگر چاہو تو اسلام قبول کرلو، میں اللہ کا رسولؐ ہوں، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کا تعارف کرایا۔ حضرت بلالؓ نے اسی وقت اسلام قبول کرلیا، آپ نے ان سے ارشاد فرمایا، اب تم جاؤ اور اپنا اسلام لوگوں سے چھپا کر رکھو۔
ایک مرتبہ حضرت بلالؓ خانۂ کعبہ کے اندر گئے، وہاں اس وقت کوئی نہیں تھا، چاروں طرف بت رکھے ہوئے تھے، انھوں نے یہ کہتے ہوئے ایک بت پر تھوک دیا کہ جو شخص تجھے پوجتا ہے وہ سخت نقصان میں ہے، کسی شخص نے انہیں بتوں پر تھوکتے ہوئے دیکھا تو اس نے ان کے آقا امیہ بن خلف کو جاکر بتلایا، امیہ خود بھی بتوں کا پجاری اور اسلام کا دشمن تھا، اسے یہ خبر ملی تو سخت طیش میں آیا۔ عمائدین قریش بھی نہایت برافروختہ ہوئے اور امیہ سے یہ مطالبہ کرنے لگے کہ بلال کو ہمارے سپرد کرو، ہم خود اسے سزا دیں گے۔ اس طرح حضرت بلالؓ کی آزمائش کا سخت ترین دور شروع ہوا، ان کو سخت گرمی میں دوپہر کے وقت تپتی ہوئی ریت پر سیدھا لٹا دیا جاتا، اور ان کے سینے پر بھاری پتھر رکھ دیئے جاتے، تاکہ وہ حرکت نہ کرسکیں، پھر ان سے کہا جاتا کہ وہ زندگی چاہتے ہیں تو اسلام سے ہٹ جائیں، مگر وہ اس حالت میں بھی اَحَد اَحَد کی گردان کرتے رہتے، یعنی اللہ ایک ہے، اللہ ایک ہے۔ 
 رات کے وقت ان کو زنجیروں میں باندھ دیا جاتا اور ان کے بدن پر کوڑے برسائے جاتے، تب بھی ان کی زبان پر اَحد اَحد کے الفاظ ہی رہتے، کبھی یہ اذیت امیہ بن خلف خود دیتا، کبھی ابوجہل دیتا، اور کبھی کوئی اور، غرضیکہ یہ سلسلہ ایک لمبے عرصے تک چلا، وہ تپتی ہوئی ریت پر دہکتے ہوئے انگاروں پر اور جلتے ہوئے سنگریزوں پر لٹائے گئے، مشرکین کے آوارہ گرد لونڈوں نے ان کے گلے میں رسی ڈال کر کھینچا، مگر ان کے پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی، حضرت ابوبکرؓ نے ان کو اس حال میں دیکھا تو ان کا دل کانپ اٹھا۔ ایک دن امیہ بن خلف سے کہنے لگے کہ کیا تو اس بے کس اور مظلوم انسان پر ظلم کرنے میں اللہ سے نہیں ڈرتا، وہ بے شرمی سے ہنسنے لگا، حضرت ابوبکرؓ نے اس سے کہا کہ میں اس کو خریدنا چاہتا ہوں، تم اس کی کیا قیمت لینا چاہتے ہو، اس نے سونے کے دس سکے طلب کئے، آپ گھر گئے اور لاکر وہ سکے اس کو دے دیئے، امیہ بن خلف کہنے لگا کہ اے ابوبکر! اگر تم سونے کا ایک سکہ بھی دے دیتے تو میں اسے فروخت کردیتا، حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا بخدا اگر تو سو سکے بھی بلال کے عوض مانگتا تو میں تجھے دے کر اسے تیری قید سے چھڑا کر آزاد کرتا۔ اس طرح حضرت بلالؓ کو امیہ بن خلف کے خونیں پنجوں سے رہائی مل گئی بلکہ وہ غلامی کی زنجیروں سے بھی آزاد ہوگئے۔جاری

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK