Inquilab Logo

پریم چند کے کرداروں کا انبوہ ہندوستانی دیہات اور شہر کے ہر طبقہ کی نمائندگی کرتا ہے

Updated: July 31, 2023, 12:41 PM IST | Mumbai

افسانے کی ساری توانائی اس کے بے تکلف اور سبک اظہار سے ہے۔ جس زبان سے بھی کہانی کی آباد کاری ہو جائے یعنی جو اپنا آپ پیش کرنے کے بجائے کہانی کو پیش کر سکے ، وہی اس کہانی کے لئے صائب قرار دی جا سکتی ہے۔ حقیقت نگاری کی چاہ نے پریم چند کو اپنے آپ اظہار کی اسی راہ پر ڈال دیا۔ نتیجتاً ایک ’’کفن‘‘ میں ہی نہیں، اس کی دیگر اچھی کہانیوں میں بھی زبان کچھ اس طرح سالم گولائیوں میں جڑی ہوئی ہے جیسے کسی نئی جان کا سالم وجود۔

Premchand Arrival: July 31, 1880. Departure: October 8, 1936
پریم چند۔ آمد: ۳۱؍جولائی ۱۸۸۰ء چ رخصت: ۸؍اکتوبر ۱۹۳۶ء

اُردو افسانے کا حلیہ بہت حد تک بدل چکا ہے لیکن اس کے مانوس ترخد و خال اس حلیے میں بھی بے اختیار پریم چند کی یاد دلاتے ہیں۔ بیٹے نے اگر باپ دادا کی پگڑی کو ایک طرف ڈال دیا اور ننگے سر گھومنے پھرنے کو ترجیح دینے لگا تو کیا ہوا؟ اہم بات تو یہ ہے کہ وہ اپنے سر کو دھڑ سے جدا کر کے وہاں کوئی نیا سر جوڑنے سے کیوں قاصر ہے۔ زندگی کے نئے سماجیاتی باب میں بھی افسانہ اگر اپنی پگڑی سنبھالنے کا منظر نامہ پیش کئے چلا جاتا تو یقیناً ایک مضحکہ خیز صورت پیدا ہو جاتی، تاہم اپنی روایت سے یکسر منکر ہو کر وہ اپنی الگ شناخت کی صورت تو کیا کر پاتا ، اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو لیتا۔ کوئی بالغ زندگی ایک وجود میں نہیں آجاتی بلکہ ایک پوری روایت کی ترتیب پا کر اونچی ہوتی ہے اور اونچی ہو کراسی روایت کو نئے سیاق و سباق میں دریافت کر کے اس کی توسیع کے اسباب کرتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پریم چند کی حقیقت نگاری کے امکانات ابھی تک جوں کے توں قائم ہیں۔ مشکل در اصل اس وقت پیش آتی ہے جب ہم الفاظ کو جامد اور بے جان سمجھ کر برتتے ہیں اور ان کے مفاہیم کو زندگی کے مانند بڑھنے اور پھیلنے سے روکنے کے درپے ہو جاتے ہیں۔ پریم چند نے افسانے کی افسانویت سے خطرہ محسوس کر کے اسے بجا طور پر اپنے واقعیت کے ویژن کے تابع کرنے کا جتن کیا۔ یہ آغاز تھا لیکن پریم چند کے بعد اس جڑسے پھل پھول کر واقعیت آئندہ ادوار کے مفاہیم کو اپنے اندر جذب کرتی چلی آئی۔ فنون لطیفہ کی شناخت میں اصطلاحیں اسی وقت معاون اور با ثمر ہوتی ہیں جب ہر دورکے تقاضوں سے ہم آہنگ رہیں ۔ 
 پریم چند کو ورثہ میں داستانوں کی روایت ملی۔ ہر بڑا مصنف اپنے دور سے نبرد آزما ہو کر ایک نئے دور کا راستہ تو ہموار کرتا ہی ہے مگر یہ بھی ہے کہ اس کی تحریروں پر اپنے دَور کی مخصوص چھاپ کا احساس بھی ہو۔ پریم چند کی کہانیوں میں بھی داستانوں کے واضح نشانات کے ثبوت فراہم ہوتے ہیں۔ اوائل میں تو ان نشانات کا جبر اس کے حقیقت پسندی کے جارحانہ رجحان پر بھی کافی حاوی ہے اور اس کے کر دار داستانوی کرداروں کے مانند گویا اپنے طلسمی ارادوں سے ہی آدرشوں کے جھنڈے گاڑتے چلے جاتے ہیں۔ اس معصوم رویے کا جواز پیش کرنا مشکل نہیں۔ پریم چند کی مقصدیت اخلاقی سطح پر ہزار قابل ستائش سہی تاہم کھری حقیقت نگاری اس امر کی غماز نہیں ہوتی کہ جو برا بھلا سوچ لیا اسے چٹکیوںمیں کر دکھایا۔ فن کی اعلیٰ سطحوں پر تو کرداروں کو اپنے حالات کے جبر سے ٹوٹ ٹوٹ کر جڑنا ہوتا ہے تاکہ بارہا شکست خوردگی کے باوجود اپنی پیہم شرکتوں کا باب بنائے رکھیں۔ پریم چند کی بعد کی کہانیاں عموماً اور بجاطور پر آدرشوں کی فتحیاب گھن گرج سے احتراز کرتی ہیں اور المیوں سے گھرے ہوئے ان چھوٹے موٹے لوگوں کی تصویرکشی کرتی ہیں۔
  داستانوں کی روایت پریم چند کے فن پر ایک خوشگوار اثر کا باعث بھی ہوئی، وہ اس طرح کہ اس کی کہانیوں میں زندگی کی طرح واقعات کی ریل پیل ہے۔ بعض اوقات تو یہ ریل پیل اتنی بڑھ جاتی ہے کہ بھیڑ بھاڑ کا سماں بندھنے لگتا ہے اور جی چاہتا ہے کہ مصنف ہجوم کو تھوڑا چھانٹ لے، پھر بھی اکثر اوقات گنجان واقعات کے ریلے پریم چند کی کہانیوں کو کتاب کے صفحوں سے زندگی میں بہا لے آتے ہیں اور پڑھنے والے کو گمان ہونے لگتا ہے کہ وہ سچ مچ انہی مقامات پر کہیں آنکلا ہے اور جو کچھ پڑھ رہا ہے اسے اپنی دونوں آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ پریم چند کے فن کا یہ پہلو ہمارے کئی ایسے نئے لکھنے والوں کی توجہ کا باعث ہونا چاہئے جو اپنی بے واقعہ کہانیوں کے خلا میں لٹک کر تکنیکی کرتب بازی کو ہی کہانی کے فن سے تعبیر کر لیتے ہیں۔ وہ اپنی بھری پُری دنیا میں رہتے ہیں مگر ان کی کہانیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں کوئی واقعہ پیش نہیں آتا۔ پریم چند کے تار و پود کو چاک کرنا در اصل اس لئے محال ہے کہ اس کی کہانیاں گویا اس پر بیت چکی ہوتی ہیں۔ وہ اپنے لئے خام مال کی کمی واقع نہیں ہونے دیتا اور ہمیشہ اس طرح زندگی بسرکرتا کہ آس پاس سے گاڑھا میل جول رہے۔ ’’سو اسیر گیہوں‘‘ کے آخر میں اس نے اپنے قارئین کو براہ راست مخاطب کیا ہے کہ وہ ’’اس قصے کو فرضی نہ سمجھیں ۔ یہ سچا واقعہ ہے۔ ایسے شنکروں اور ایسے پنڈتوں سے دُنیا خالی نہیں۔‘‘ شنکر اور پنڈت فرضی بھی ہوتے تو اس کا دعویٰ بے جانہ تھا کیوں کہ وہ اپنے لکھے ہوئے کو واقعی جی چکا ہوتا اور یوں تجربے کی بنیاد پر ٹھوس اور مخصوص موقع ومحل کی کہانیاں لکھتا ۔ 
 میدانوں سے پہاڑوں کا سلسلہ دھیرے دھیرے اونچا ہوتا ہوا نظر آئے تو دوردراز کی چوٹیوں تک انسانی بود و باش کا تصور فطری معلوم ہوتا ہے۔ پریم چند بھی ایک ایسا ہی پہاڑی سلسلہ ہے جو آہستہ آہستہ بلند تر ہوتا چلا جاتا ہے اور اپنے ساتھ ساتھ آسمانوں کی جانب بستیاں بساتا جاتا ہے۔ آسکر وائلڈ کا یہ قول گمراہ کن ہے کہ جینئس بتدریج ترقی نہیں کرتا بلکہ سارا کا سارا ایک دم ہوتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جینئس بھی عام لوگوں کی طرح دھیرے دھیرے بڑھ کر ہی اپنے آپ کو سنبھال پاتا ہے۔ پر یم چند کی کہانی ’’یہ میرا وطن ہے‘‘ سے شروع ہو کر ’’کفن ‘‘ تک پہنچے بغیر ہماری یا ترا اس لئے سپھل نہیں ہوتی کہ پریم چند کو اپنی آخری کہانی کو آخرمیں ہی لکھنا تھا۔ ساری عمر دُکھ جھیل جھیل کر کہیں یہ استعداد پیدا ہوتی ہے کہ آدمی اوروں کے دُکھ آنکھیں موند کر بخوشی اپنا لے۔ پریم چند کو کبھی اس امر کا ادراک بتدریج ہوا کہ جنہیں ہم برا کہہ کے رد کر دیتے ہیں انہیں ہماری ہمدردانہ فہم کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔’’کفن‘‘ کے حقیقت پسندانہ شعور میں اس کے خالق کی دردمندی کی آمیزش پڑھنے والے کو انجانے ہی انجانے میں آمادہ کر لیتی ہے کہ گھیسو اور مادھو کو بد کردار ٹھہرانے کے بجائے وہ ان کی جنم جنم کی بھوک میں شریک ہو جائے… کیا ہوا جو انہوں نے بڑھیا کے کفن کے پیسے کھانے پینے میں اڑا دیئے ہیں؟ مرنے والی کشن کے بغیرہی بیکنٹھ کی رانی جابنے گی کیوں کہ اسی کی بدولت زندوں کو پہلی بار خوب سیر ہو کر کھانا پینا نصیب ہوا ہے… ’’ کفن ‘‘پریم چند کا ایک چھوٹا سا کلاسیک ہے جو نہایت فنکارانہ سادگی سے ہمیں بروں کی مجبوری اور نیکی کا عرفان عطا کرتا ہے۔
 یہ امر معنی خیز ہے کہ ’’کفن‘‘ (وہ کہانی ہے جو) پریم چند کی موت کے بعد شائع ہو پائی۔ اس کی یہ آخری کہانی اس کی بہترین تخلیق ہی نہیں، بلکہ مزاج اور برتاؤ کے اعتبار سے مختلف بھی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ’’کفن‘‘ اس سے اتفاقاً ہو گئی بلکہ یہ کہ اسی آخری کہانی سے اس کی نجات ہونا تھی جس کے پَٹ آنے والے ادوار کی طرف کھلتے ہیں۔ 
 پریم چند کے کرداروں کی گیلری بہت بڑی ہے اور اپنے سبھی کرداروں سے اس کی بڑی گاڑھی جان پہچان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر اوقات وہ کہانی کے تانے بانے کی ذمہ داری بڑے چین سے انہی کو سونپ دیتا ہے۔ ’’ کفن‘‘ کے گھیسو اور مادھو، ’’پنچایت‘‘ کے جمن شیخ اور الگو چودھری، ’’بڈھی کا کی‘‘ کی بڈھی کا کی، ’’ شطرنج کی بازی‘‘ کے میرا اور مرزا، ’’ گھاس والی‘‘ کی ملیا ، ’’پوس کی رات‘‘ کا ملکو، ’’ریاست کا دیوان‘‘ کے باپ بیٹا مہتہ اور جے کرشن ، ’’دوبہنیں‘‘ کی دونوں بہنیں، ’’راہ نجات‘‘ کے جھینگر اور بدھو، اور تو اور ’’دوبیل‘‘ کے دونوں بیل اور ’’پوس کی رات ‘‘ کا کتا جبرا اور ’’دودھ کی قیمت‘‘ کا ٹامی، سبھی اپنے اپنے رول میں کھپے اور سجے ہوئے ہیں اور اپنے مزاج اور کردار کے مطابق آپ ہی اپنی زندگی بناتے یا بگاڑتے ہیں، جس سے ہر ایک کی کہانی میں ایک فطری بہاؤ سا ہے۔ کرداروں کا یہ انبوہ ہندوستانی دیہات اور شہر کے ہر طبقے کی نمائندگی کرتا ہے، نہ صرف یہ، بلکہ ہر کردار کی اپنی ایک الگ شناخت بھی ہے اور اپنے چہرے میں وہ آپ ہی پورے کا پورا دکھائی دیتا ہے۔
  پریم چند کو ہندوستان کے مستقبل کی تعمیرمیں درمیانی طبقے کی اہمیت کا پور ا احساس تھا، اس لئے اُس نے اپنی کہانیوں میں ان عام شہریوں کے مسئلوں اور ولولوں کی پوری گنجائش روا رکھی۔ ان سے بھی بڑھ کر اس نے اپنے فن میں غریب اور بھولے بھالے کسانوں کی تصویرکشی کی۔ وہ ان معصوم دیہاتیوں کے باطن وخارج سے یکساں طور پر با خبر تھا۔ اس کے دیہات سے گہرے رابطے کے ضمن میں اکثر یہ تاثر پیش کیا جاتا ہے کہ ہندوستان کے دیہات اپنے اپنے مقام سے نکل کر اس کی کتابوں میں آباد ہو گئے ہیں۔ پریم چند کے دور کے مانند آج بھی ہمارے ملک کا دل ہمارے دیہات میں ہی دھڑکتا ہے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے افسانوی فن نے صرف جنگل نما شہروں میں ڈیرے جمارکھے ہیں۔ پریم چند کی روشن روایت کے باوجود اسے ملک کی دھڑکنوں میں رچنا بسنا نصیب نہیں ہوا۔ اعظم کریوی، علی عباس حسینی اور سہیل عظیم آبادی نے اس روایت کو اپنے طور پر بنائے رکھنے کا جتن کیا تا ہم آج ہماری کہانی شہری رہن سہن کی اس قدر عادی ہو چکی ہے کہ کبھی پکنک پر ہی گاؤں کے کچے راستوں کی گرد پھانکنے پر آمادہ ہو تو ہو۔
 پریم چند کی ایک اور نہایت اہم دین یہ ہے کہ اس نے افسانے کو پہلی بار اس کی مناسب زبان سے روشناس کروایا۔ نیاز فتح پوری، سجاد حیدر یلدرم اور سلطان حیدرجوش بھی انہی دنوں لکھ رہے تھے مگر ان کی زبان اپنے آپ میں بہتر ہونے کے باوصف ، بلکہ بہتر ہونے کے باعث افسانوی اظہار پر حاوی نہ تھی۔ افسانے کی ساری توانائی اس کے بے تکلف اور سبک اظہار سے ہے۔ جس زبان سے بھی کہانی کی آباد کاری ہو جائے یعنی جو اپنا آپ پیش کرنے کے بجائے کہانی کو پیش کر سکے ، وہی اس کہانی کیلئے صائب قرار دی جاسکتی ہے۔ حقیقت نگاری کی چاہ نے پریم چند کو اپنے آپ اظہار کی اسی راہ پر ڈال دیا۔ نتیجتاً ایک ’’کفن‘‘ میں ہی نہیں، اس کی دیگر اچھی کہانیوں میں بھی زبان کچھ اس طرح سالم گولائیوں میں جڑی ہوئی ہے جیسے کسی نئی جان کا سالم وجود۔ ’’آہ بیکس‘‘ میں مونگا کی وحشت کا بیان اس تاثر کی مثال ہے، ’’ شطرنج کی بازی‘‘ بھی اس باعث نواب واجد علی شاہ کے زمانے کی بو باس سے لبریز ہے اور ’’راہ نجات‘‘ میں جھینگر اور بدھوکا پیچ دار سمبندھ بھی اسی لئے اتنا صریح ہے۔ زبان کے ایسے ہی استعمال پر قدرت کہانی میں دم پھونکتی ہے۔ مصنف بیچ میں سے گویاہٹ جاتا ہے اور کہانی آپ ہی اپنے پیروں پر چلنے لگتی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پریم چند کے بعد ترقی پسند ادب کے دَور میں صرف منٹو کا فنی ادراک ہی کہانی کو اپنا مخصوص مزاج دے پایا جس کی بدولت اس کے کردار جی اُٹھتے ہیں اور اپنی کہانیاں آپ ہی خلق کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ آج کی کہانی میں بھی بعض لوگ لسانی گورکھ دھندوں کو تخلیقی زبان سے تعبیر کر کے خوش ہو لیتے ہیں۔ حالانکہ زبان کا عمل واقعی تخلیقی ہو تو کہانیاں انگور کی بیل کی طرح غیر محسوس طور پر بڑھتی اور پھیلتی چلی جاتی ہیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK