Inquilab Logo

میوزک روم: موسیقی کا نگارخانہ

Updated: February 01, 2021, 1:15 PM IST | Shahid Nadeem

اپنی کتاب ’میوزک روم‘ میں نمیتا دیوی دیال نے موسیقی کے ان عظیم فنکاروں کو خراج عقیدت پیش کیا ہےجن کے بارے میں دنیا جاننا چاہتی ہے

Music Room
میوزک روم

  نمیتا دس برس کی تھی جب ان کی ماں انہیں ڈھونڈوتائی کے پاس لے گئیں، تائی جے پور گھرانے کی استاد تھیں انہوںنے خود کو پوری طرح موسیقی کے سپرد کردیا تھا۔ جے پور گھرانہ اللہ دیاخا ں سے شروع ہوا تھا۔ اس کی سب سے ممتاز گائیکہ کیسر بائیکیرکر اس روایت کی تنہا وارث تھیں۔ نمیتا نے گانے کا فن سیکھنا شروع کیا، پہلے پہل بے دلی سے لیکن بعد میں برسوں کے سخت ریاض اور شوق کے ساتھ ڈھونڈوتائی کو اس میں دوسری کیسر نظر آئی اور وہ پوری توجہ سے انہیں فن کی باریکیاں سکھانے لگیں ۔اپنی کتاب  ’میوزک روم‘ میں نمیتا دیوی دیال نے موسیقی کے ان عظیم فنکاروں کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔  نمیتا لکھتی ہیں، میں اپنی ماں کا شکریہ ادا کروں گی جنہوںنے اپنی ننھی سی بچی کو سنگیت کی دنیا میں زبردستی  داخل کردیااوراپنے والد بھگوت کا جنہوںنے چھوٹی باتو ں سے جذبوں کو حاصل کرنا سکھایا۔
  نمیتا خود بھی ایک اعلیٰ درجہ کی گلوکارہ ہیں۔ وہ کتاب  کے پیش لفظ کا آغاز استاد ولایت خاں کے ایک جملہ سے کرتی ہیں۔ راگ کی ادائیگی ایسی ہونی چاہئے کہ چند ہی منٹوں میں موسیقار اور سننے والا اسے اپنے سامنے کھڑا دیکھ سکے ۔ ان کے مطابق میں ایک شرمیلی  بے پردا دس برس کی لڑکی تھی ، جب مجھے موسیقی کی دنیا میں زبردستی داخل کردیا گیا۔ گرمی کی ایک شام جب بلڈنگ کے دوستوں کے ساتھ ولنگڈن کلب میں تیرنے جارہی تھی، ماں نے کار میں ٹھونس  دیا اورکہا ہم موسیقی کی تعلیم دینے والی سے ملنے چل رہے ہیں۔موسیقی کی تعلیم دینے والی برج کینڈی کے نیچے ایک پرانی عمارت   میں رہتی تھیں ، جو کمبا لاہل جہاں ہم  رہتے تھے، درختوں کی قطار والی سڑکوں سے دس منٹ کی دوری پرتھا۔  برج کینڈی  ایسا محلہ تھا جو موسیقاروں کےلئے نہیں بلکہ طوائفوں اور امرا کے کلبوں کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا لیکن بمبئی کے بیشتر محلوں کی طرح دن کی روشنی ان سب پر پردہ ڈال دیتی جو شام ڈھلے وہاں ہوتا رہتا۔ دن کے وقت برج کینڈی  کے نیچے کسی بھی ہجوم والی سڑک جیسا ہوتا ۔ سڑک کے سرے پر کانگریس ہاؤس کہلانے والی رہائشی کالونی کے اندر وہ عظیم موسیقار رہتی تھیں ۔
  شام پانچ بجے تھے، ماں اور میں وہاں پہنچے، پٹری کے کنارے کارکھڑی کی اور موٹروں کے پرزوں کو دیکھتے ہوئے اس اداس سلیٹی عمارت تک گئے، لفٹ کا انتظام نہیں تھا ، زینے پر گھسٹتے تیسری منزل کے چھوٹے سے فلیٹ تک گئے ، کچن کے ایک طرف تین افراد کا خاندان رہتا تھا اور موسیقی کی ایک جانب تعلیم دینے والی پیئنگ گیسٹ ایک کمرے میں دوسری جانب ۔ کمرے  میں ان کے ساتھ ان کی ماں بھی رہتی تھیں۔ جنہیں وہ آئی کہہ کر بلاتیں۔
  میوزک روم اپنے وقت کے عظیم موسیقاروں ،گائیکوں کی ایسی تصویر ہے جسے سنا تو نہیں جاسکتا مگر تحریر کے ذریعے سارا منظر  آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔ نمیتا نے کیسر بائی کیرکر اور استاد   اللہ دا خاں کو بس عقیدت سے یاد کیا ہے اور ان کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے وہ عام قارئین کے علم میں  اضافہ کرتا ہے۔
  راجا ، مہاراجہ اور نوابوں کی سر پرستی میں ہندوستانی موسیقی کو عروج حاصل تھا۔ ان کی خوب پذیرائی بھی ہوتی تھی ،نوازا بھی جاتا تھا مگر اس کا ایک اور پہلو بھی تھا۔ ایک دربار سے دوسرے دربار، وظیفہ میں اضافہ کی امید پر دور درازکا سفر ، یا پھر درباریوںکی خوشامد، اکثر راجا نواب ایسے گانے والیوں کو منتخب کرتے جو ان کے احباب یا وزیروں کی رکھیل کاکردار بھی ادا کرتیں۔ استاد اللہ دیا خاں اوران کے چھوٹے  بھائی حیدر خاں بھی کئی درباروں میں حاضری دینے ، ایک ریاست سے دوسری ریاست میں چکر لگاتے ۔ راستے میں جنگلی جانوروں اور چور لٹیروں کا ڈربھی رہتا۔ دہلی اوراس کے اطراف کی ریاستیں موسیقاروں اورگلوکاروں کی سرپرستی کے لئے مشہور تھیں ، لیکن گوالیار ، بڑودہ ، جے پور، میسور ، پٹیالہ اور کولہاپور بھی مرکز تھے۔ بیسویں صدی کا آغاز تھا،  چھترپتی  شاہو مہاراج بیس برس کی عمر میں کولہا پور کے حکمراں  بنے  اور پچاس برس کی عمر میں چل بسے۔ اس مختصر سی عمر میں انہوںنے کئی فلاحی اور اصلاحی خدمات انجام دیں۔ یہ وہ دور تھا جب کولہا پور کا نام کلاپومہ پڑ گیا تھا۔ استاد اللہ دیا خاں کولہاپور جانے کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے ۔ شاہو مہاراج کے چھوٹے بھائی کی محبوبہ بضد تھی کہ وہ استاد اللہ دیا خاں سے ہی تعلیم حاصل کرے گی، استاد ان دنوں بمبئی میں تھے، صرف ایک ہی صورت تھی کہ استاد کو کسی طرح  ریاست کا درباری گایک مقررکرادیاجائے۔ مہاراج خود بھی خاں صاحب کو پسند کرتے تھے، انہوںنے خاں صاحب کو درباری گایک بننے کی دعوت دے دی۔ ۱۸۹۵ء کے قریب خاں صاحب خاندان سمیت کولہا پور آباد ہوگئے، شاہومہاراج نے انہیں مکان اوران کے بھائی اور رشتہ داروں کی ذمہ داری قبول کرلی۔ خاص  صاحب کو قدیم محل کے مندر میں گانے اور مہاراج کے سامنے پیش کرنا تھا۔  بھائی حیدرخاں کو بھی درباری گایک مقرر کردیا گیا،  بھتیجے  ناتھن خاں کو ندی کنارے قدیم مندر میں سویرے گانے کا  کام دیا گیا۔ استاد اللہ دیا خاں کی اتنی شہرت تھی کہ اکثر موسیقار ان کے قریب رہنے کے لئے وہاں آباد ہوگئے۔ شاہو مہاراج ، خاں صاحب اور ان کے خاندان سے بہت محبت کرتے تھے، ہر وقت ساتھ رکھتے ۔خاں صاحب کے بیٹے نصیرالدین،  بدرالدین  اور شمس الدین جو بڑے جی، من جی اور بھُرجی کہلاتے ان تینوں کا زیادہ وقت راج کماروں کے ساتھ کھیلتے کھاتے گزرتا۔ مہاراج نے اپنے بچوں کے گرو کو حکم دےرکھا تھاکہ تینوں لڑکوں کوبھی سنسکرت کی تعلیم دیں۔ برہمن استاد  ان کے سامنے جی سرکار کہہ دیتا مگر خود کو آمادہ نہ کرپاتا، آخر مسلمان بچوں کو مقد س ہندو گرنتھ کیسے پڑھائے، کوئی نہ کوئی بہانہ کرکے ٹال دیتا۔ ایک روز محل کے آنگن میں ایک خاص اور عمدہ فن کے مظاہرے کے بعد وزیراعظم ، مہاراج  کو ایک طرف لے گیا ، اورکہا جناب عالی  آپ ا ن لڑکوں کو پال پوس رہے ہیں جیسے وہ آپ کی اپنی اولاد ہوں، لیکن کبھی سوچا کہ یہ بھی اپنے والد کی طرح موسیقی کا فن  حاصل کریں۔ عیش وعشرت میں مبتلا ہوکر رہ گئے تو اس روایت کو جاری کون رکھے گا، بات صحیح تھی۔
 مہاراج خاموش ہوگئے۔ وہ نادانستہ ایک روایت کو ختم کرنے جارہے تھے ۔ ان بچوں کو بچپن سے ہی نہیں  سکھایا گیا تو یہ فن ان کے والد کے ساتھ ختم ہوجائے گا۔ استاد اللہ دیاخاں موسیقی کے فن کی باریکیاں اور رموز  اپنے قریبی عزیزوں کو ہی بتاتے تھے۔ اس آبائی روایت کو بچانا ہوگا۔ لیکن انہیں جانے کے لئے کیسے کہہ سکتا ہوں، میں ہیں سمجھتا کہ ان سے یہ کہہ سکوں گا ’’بس ایک طریقہ ہے آپ جانتے ہیں یہ لڑکے کتنے خود دار اور انا پرست ہیں آپ کو  ان کی بے عزتی کرنی ہوگی، تاکہ وہ ناراض ہوکر خود چلے جائیں۔‘‘’’اچھا خیال ہے ‘‘چند روز بعد کسی قریبی ریاست کا راج کمار کولہاپور آیا۔ اس شام شاہومہاراج نے خاں صاحب کے تینوں بیٹوں کو پیغام بھجوایا کہ وہ شاہی مہمان کے ساتھ کھانا نہیں کھاسکیں گے۔ اس سے پہلے ایسا کبھی  نہیں ہوا تھا۔ تینوں سخت ناراض ہوئے خاص طورپر من جی خان جن کا غصہ بہت مشہورتھا، وہ مہاراج کے پاس گئے اور بولے ہمیں آپ کے ساتھ کھانے کی ضرورت بھی نہیں۔ اپنے فن سے ہم چھپن مہاراج خریدسکتے ہیں  اور تیزی  سے باہر نکل گئے۔ مہاراج سے کوئی اس طرح نہیں بولتا تھا مگر شاہو مہاراج مسکرا کر رہ گئے۔ وہ جو چاہتے تھےہوچکا تھا، اور یہی  ہوا بھی، تینوں لڑکے آگے چل کر بڑے موسیقار بنے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK