Inquilab Logo Happiest Places to Work

میرا بچپن،میری عید

Updated: April 26, 2023, 3:17 PM IST | Ahmed Zia Ansari|Saadat Khan| quttuddin shahid| Asim Jalal| Hamza Fazal Islahi|Afzal usmani|Saeed Ahmad Khan | Mumbai

روزنامہ انقلاب کے رفقائے کار کی یادیں کہ بچپن میں اُنہوں نے گاؤں میں کیسی عید منائی

Childhood Eid is always fresh in everyone`s mind
بچپن کی عید ہر کسی کے ذہن میں ہمیشہ تازہ ہو تی ہے

ڈر تھا کہ میرا نمبر آتے آتے
 عیدی کے پیسے ختم نہ ہوجائیں
  شروع سے ہی ہم لوگ ممبئی میں عید مناتے آئے ہیںلیکن ایک بار اسکول کی چھٹیاں اور عید تقریباً ساتھ ساتھ آنے سے والد محترم نے عید اپنے آبائی وطن الہ آباد( جو اب پریاگ راج ہو گیا ہے) میں منانے کا فیصلہ کیا تھا۔مجھے جب پتہ چلا تو دل اداس ہوگیا کیوںکہ ممبئی میں اپنے اسکول اور محلے کے دوستوں کے ساتھ عید اور ’باسی‘ عید کو گھومنے پھرنے کا پروگرام پہلے ہی طے ہوچکا تھا۔ خیر ٹرین سے جب ہم آبائی وطن کی جانب جا رہے تھے تو شام کو بار بار والد صاحب اپنی کلائی کی گھڑی کو اور میں ان کے چہرے کو دیکھتا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ افطار کا وقت ہونے والا تھا اور ٹرین میں گھڑی کے حساب سے ہی روزہ کھولنا تھا۔ہم بھائی بہن بھی گھر سے لائے ہوئے توشے کو دیکھ رہے تھے اور اس کے کھلنے کا انتظار کر رہے تھے۔وقت ہوا تو ہم سب نے روزہ کھولا اور ٹرین کے ڈبے میں چند ایک لوگ اور روزےسے تھے انہیں بھی ساتھ بلا لیا۔مجھے عجیب سی حیرت ہوئی کہ ایک روزہ کس طرح مختلف علاقوں اور ریاستوں کے لوگوں کو ایک ہی دسترخوان پر لے آتا ہے۔
 وطن پہنچے تو سب نے ہم لوگوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔یہاں رمضان کے چند دن گزارنے پر احساس ہوا کہ یہاں کچھ الگ ہی رونق ہوتی ہے۔خیر ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں تھا ہم تو بس عید کا انتظار کر رہے تھے تاکہ ’بمبئی‘ سے لائے اپنے کپڑے گاؤں والوں کو دکھا کر ان کی داد و  تحسین حاصل کر سکیں۔عید کے روز اپنے دادا،والد اور ۴؍چچا کے ہمراہ عید گاہ پہنچے اورعید کی نماز ادا کی۔ممبئی میں عید کی نماز پڑھ کر ہم سیدھے اپنے گھر کا رخ کرتے تھے لیکن یہاں تو لوگوں سے گلے ملنے اور مصافحہ کرنے میں ہی کافی وقت لگ گیا ۔اس کے بعد سب لوگ مٹھائی کی دکان پر پہنچے اور سب نے گھر کے لئے مٹھائیاںخریدیں۔
 گھر پہنچے تو دادی کے ہاتھوںبنی’قمامی‘ سیوئی ملی ۔شاید پہلی بار اس طرح کی سیوئی کھائی تھی کیوںکہ ممبئی میں ہمارے گھر پتلی اور دودھ کی سیوئی بنتی ہے۔ناشتہ کرنے کے بعد گھر کے سب بڑے ایک جانب بیٹھ گئے ۔ سب کے سامنے پیسے رکھے ہوئے تھے۔دادا نے عیدی بانٹنے کی شروعات کی اور گھر کے سب سے بڑے فرد سے ہوتے ہوتے چھوٹے بچوں کا نمبر آیا۔اس دوران میں بھی حسرت بھری نگاہ سے سب کو عیدی لیتے ہوئے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اگر میرا نمبر آتے آتے دادا اور چاچا لوگوں کے پیسے ختم ہوگئے تو کیا ہوگا۔مگر حقیقت یہ ہے کہ جتنی عیدی مجھے بچپن میں وطن میں ملی تھی اتنی آج تک نہیں مل سکی۔ شاید بمبئی سے جانے اور پہلی بار عید منانے کی وجہ سے مجھے کچھ زیادہ ہی عیدی ملی۔دیگر بچوں کو جہاںچار چار آنے اور آٹھ آٹھ آنے ملے وہیں مجھے سب نے ایک ایک روپیہ دیا۔عیدی جمع کرنے کے بعد دیگر رشتہ داروں کے یہاں’ زبردستی‘ دھاوا بولا تاکہ وہاں سے بھی کچھ وصول ہوجائے۔سب نے خوش دلی سے ہمارا استقبال کیا اور عیدی بھی دی۔یاد نہیں کتنے پیسے جمع ہوئے تھے لیکن اتنا یاد ہے کہ والدہ نے کہا تھا کہ پیسے سنبھال کر رکھ دو بمبئی چل کر نیا جوتا خرید لینا۔
 محلے کے دوستوں کے ساتھ عید کے دوسرے دن کے بارے میں پروگرام بنایا تو پتہ چلا کہ الہ آباد میں عید کے بعد ’ٹر ‘ ہوتا ہے۔ٹر کے بارے میں کسی نے کوئی وضاحت نہیں کی لیکن بتایا کہ منصور پارک میں ٹر کا میلہ لگتا ہے جہاں مختلف قسم کے جھولے اور بچوں کی تفریح کےلئے چیزیں ایک جگہ ہوتی ہیں اور بچوں کے والدین اور سرپرست وہاں انہیں ضرور لے جاتے ہیں جس طرح ہمارے ممبئی میں ’باسی عید‘ کو حاجی علی درگاہ جانا ایک طرح سے رواج بن گیاہے۔
 خیر ہم نے بھی ٹر کے میلے میں دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ خوب  لطف اٹھایا ۔جس جگہ ٹر کا میلہ لگتا تھا اس جگہ اب ملٹری اور پولیس والوں نے اپنے کیمپ لگا رکھے ہیں۔یہ وہی منصور پارک ہے جہاں سی اے اے کی مخالفت میں کئی ہفتوں تک خواتین نے دن رات ڈیرا ڈالے رکھا تھا۔پولیس چھاؤنی کی وجہ سے برسوں پرانی ٹر کے میلے کی روایت اب باقی نہیں ہے ۔
عید پر مسجدکےمتولی کے گھر 
ضیافت کی روایت ،اب بھی یاد ہے
 کسی زمانے میں آبائی شہر مرزاپور (اُترپردیش ) میں ہمارےاسلاف کی متعدد جائیدادیں تھیں۔جس کی مثال یہاں کاموجودہ بڑاقبرستان اور متعدد مساجد ہیں، جو اَب بھی ہمارے خانوادہ کے افراد سے منسوب ہیں۔  محلے کی ’فتح خاں ‘ مسجد بھی ان میں شامل ہے۔ اسلاف نے اس مسجد کی دیکھ بھال کی ذمہ داری  محلے کے ایک خاندان کو  سونپی تھی۔ اس خاندان کے لوگ  آج بھی اس ذمہ داری کو بحسن وخوبی ادا کر رہےہیں۔  عید سے متعلق ہم دونوں خاندانوں سے ایک یاد منسوب ہے جس کاذکر  راقم کیلئے اپنے بچپن کی عید کی یادتازہ کرنے کا اہم جزہے۔چونکہ مسجد کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اس خاندان کو سونپی گئی تھی، اس لئے  یہاں کے متولی ہر سال عید والے دن  ہمارے گھر کے مرد حضرات کیلئے ظہرانہ کا اہتمام کرتےتھے۔ عید والے دن ظہر کی نماز کے بعد ہمارے گھر کےمرد حضرات اُن کی رہائش گاہ پر ضیافت کیلئے خاص طور پر مدعو کئے جاتےتھے۔  دسترخوان  لذیذ گوشت کےسالن، روٹی ،چاول اور بنارسی سیوئی سےسجاہوتا تھا۔ کھانےکی لذت اپنی جگہ لیکن اس گھر میں جوسیوئی پکائی جاتی تھی، وہ پورے محلے میں مقبول تھی۔ کھانے سے زیادہ سیوئی پسند کی جاتی تھی۔ حالانکہ اس روایت کو ختم ہوئے  عرصہ گزرگیاہے۔ تاہم اس دعوت کا خیال آتےہی یہاں کی سیوئی کی لذت کا احساس زبان پر اب بھی محسوس ہوتا ہے ۔ 
  ایک سال عید کے موقع پر آباواجداد سے جاری اس دعوت کی رسم پر ہمارے خاندان کے ایک بزرگ نے اعتراض کرتےہوئے کہاکہ ’’عیدپر لوگ اپنے گھروں پر انواع و اقسام کے کھانے پینے کا اہتمام کرتےہیں ۔ خاندان کے سبھی افراد ایک ساتھ  ظہرانہ اور عشائیہ میں شریک ہوتے ہیں ۔ لیکن ہم لوگ کسی اور کے گھر جاکر ضیافت کرتے ہیں ۔ یہ روایت کہاں تک درست ہے؟ اس کو ختم کرنا چاہئے۔ چونکہ وہ خاندان کے موجودہ بزرگوںمیں سب سےعمررسیدہ تھے اور ان کی بات بھی معقول تھی،اسی لئے اس عید کے بعد ہم نے مذکورہ خاندان سے معذرت کرلی اور اس طرح عید کے دن کی  ضیافت کا یہ سلسلہ موقوف ہوا ۔ بچپن کی عید سے جڑی یہ بات اب بھی ذہن نشین ہے۔

 ایسا لگتا تھا
 کہ آسمان سے فرشتوں کی 
کوئی فوج اُتری ہے
 گاؤںمیںعید کی تیاریاں بہت پہلے سے ہونے لگتی تھیں لیکن چاند رات کی تیاریاں قابل دید ہوتی تھیں۔ بازار پر انحصار کم رہتا تھا، بیشتر اشیاء گھروں ہی میں تیار کی جاتی تھیں۔  چاول کا آٹا اکثر گھروں ہی میں پیسا جاتا تھا، آٹے کو باریک کپڑے سے چھان کر میدہ تیار کیا جاتا تھا حتیٰ کہ سیوئیاں بھی گھروں ہی میں تیار کی جاتی تھیں۔ آسودہ حال گھروں میں شکر کی  اور عام گھروں میں گڑ کی سیوئیاں بنتی تھیں۔ دودھ کا استعمال کم کم ہی ہوتا تھا۔  ہم بھی اپنی والدہ کاہاتھ بٹانے کیلئے رات بھر جاگتے تھے، اپنی بساط بھر کام بھی کرتے  اور کام کرتے کرتے سوجاتے تھے۔ کسی نے کیا خوب کہاہے :
 چاول چنتے چنتے نیند آگئی :صبح اٹھ کے دیکھا تو عید آگئی
 عیدکی خوشیاں اپنی جگہ، نیند کے تقاضے اپنی جگہ۔ ہماری کوشش ہوتی کہ ہم آتی ہوئی عید کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں لیکن اکثر نیند ہماری خوشیوں پر پانی پھیر دیتی۔ وہ دبے قدموں سے ہمارے پاس آتی اور ہمیں اپنی آغوش میں لے لیتی۔ اُس وقت گھروں میں برتنوں کے کھنکنے کی آواز پر موسیقی کا گمان ہوتا تھا۔کہیں کم توکہیں زیادہ،  یہ آواز ہر گھر سے آتی تھی اور اسی آواز کے درمیان ہم سو جاتے تھے۔ پھر تھوڑی ہی دیر میں ابو ہمیں جگاتے اور کہتے کہ بیٹا اٹھو! عید آگئی ہے ، چلو جلدی سے نہا لو۔ہم فوراً نیند سے بیدا ر ہوجاتے اور پھر ابو کے ساتھ نہانے کیلئے ندی کی طرف چل دیتے۔ ندی میں نہانے کا اپنا ایک الگ ہی لطف ہے۔ گرمی کے موسم میں اس کا پانی سرداور سردی میں گرم ہوتا ہے۔ وہاں سے گھر آتے تو ایک دن قبل دھلے اور پریس کئے ہوئے صاف ستھرے کپڑے پہن کر اول وقت میں فجر کی نماز کیلئے ابو کے ساتھ مسجد جاتے تھے۔ کبھی کبھار نئے کپڑے بھی سلائے جاتے تھے۔اُن دنوں اگر نئے کپڑے بنتے تھے تو وہ عید ہی کے موقع پر بنتے تھے، عام دنوں میں نئے کپڑوں کی تیاری کا تصور بہت کم تھا۔
 فجر کی نماز کے بعدعید کی نماز کیلئے عید گاہ جاتے تھے۔ وہ منظر قابل دید  اور روح پرورہوتا تھا ۔ عیدگاہ میرے گاؤں سے چار سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر تھی ۔ یہ سفر پیدل ہی طے ہوتا تھا۔ عید گاہ پہنچنے کیلئے لوگ سڑک کا انتخاب کم ہی کرتے تھے، بیشتر لوگ پگڈنڈیوں اور کھیتوں کی منڈیروں  پر چلتے ہوئےعید گاہ پہنچنے کی کوشش کرتے تھے۔ گاؤں سے باہر نکلتے تو صبح کی سپیدی میں سفید کپڑوں میں ملبوس چاروں طرف سے لوگ جوق درجوق عیدگاہ کی جانب  رواں  دواں نظر آتے ۔     ایسا لگتا کہ آسمان سے فرشتوں کی کوئی فوج اُتری ہے  جو عیدگاہ کو اپنے حصار میں لینے کی کوشش کر رہی ہے۔
 نما ز پڑھ کر ابو کی انگلی پکڑے ہوئے گاؤں کے قریب پہنچتے تو دور ہی سے مشام جاں کو معطر کرنے والی پکوانوں کی خوشبو اپنی طرف کھینچنے لگتی۔ بیشتر گھروں میں گھر کے پالے ہوئے مرغ کا سالن،کالا نمک چاول جس کی خوشبو آج بھی پورے گاؤں کو مہکا دیتی ہے، کے علاوہ اپنے کھیت کی  رائی کے تیل میں تلی ہوئی گیہوں اور چاول کی پوریاں بنتی تھیں۔ اُس وقت بیشتر گھروں میں مرغیاں پالی جاتی تھیں۔ یہ ایک طرح سے گاؤں کی معیشت تھی۔ لوگ ان مرغیوں اور ان کے انڈوں کو بیچ کر بازار کیا کرتے تھے۔ انہیں مرغیوں میں سے عید کیلئے کچھ مرغیاں مخصوص کرلی جاتی تھیں۔ ہم بچے ان کا بڑا خیال رکھتے تھے۔  میرے گاؤں میں میرے گھر کی سیوئیاں بہت مشہور تھیں بلکہ آج بھی ہیں۔ پورے گاؤں کا چکر لگا لینے کے بعد لوگ میرے گھرآتے تھے اور یہاں سے واپس ہونے کے بعد سیدھے اپنے گھر کا رُخ کرتے تھے۔   اکثر لوگ کہتے تھے کہ ’’مولانا کے گھر کی سیوئیاں پی لینے کے بعد ، اب کہیں اور جاکر منہ کا مزہ خراب نہیں کرنا ہے۔‘‘
 گاؤں میں ایک دوسرے کے گھروں سے پکوانوں سے لطف اندوز ہونے کیلئے لوگ گروپ کی شکل میں جایا کرتے تھے۔ یہ گروپ کئی طرح کے ہوتے تھے۔ ایک گروپ بڑوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ دوسرا گروپ نوجوان لڑکوں کا ہوتا تھا۔ تیسرا گروپ ہم بچوں کا ہوتا تھا۔ چوتھے گروپ میں نوجوان لڑکیاں ہوتی تھیںلیکن ان کی تعداد محدود اور ان کا دورہ مختصر ہوتا تھا۔ یہ صرف اپنی سہیلیوں کے گھرجایا کرتی تھیں۔ اُن دنوں خواتین کا ایک دوسرے کے گھر جانے کا رواج نہیں تھا۔ پہلے گھر چھوٹے لیکن دل بڑے ہوتے تھے ، خوشحالی کم تھی لیکن خوشیاں بہت تھیں۔
 ظہر کی نماز  کے بعدگھر کے بڑے بوڑھے آرام کرتے یا پھر سو جاتے لیکن ہم بچوں کو نیند نہیں آتی تھی۔ ہم عید کے ایک ایک لمحے  سے لطف و اندوز ہوناچاہتے تھے۔بڑے ہوئے تو حالات اور ضروریات بدل گئے۔ اسی لئےکہتے ہیں کہ عید تو بچوں کی ہی ہوتی ہے اور بچوں کو دیکھ کر بڑوں کی بھی عید ہوجاتی ہے۔ اب اُن دنو ں کی صرف یادیں ہیں۔ 

گاؤں کی سیویوں میں  سادگی ہوتی تھی

عید گاؤں کی ہو کہ شہر کی، عید ہوتی ہے۔ خوشیوں سے بھر پور، نئے کپڑے پہننے اور عیدی بٹور کر اپنی مرضی کی چیزیں خرید کر کھانے ،میلے میں جھولا جھولنے  اور دیگر تفریحات سےلطف اندوز ہونے کا خیال ہی ہم بچوں  میں جوش بھر دیا کرتاتھا۔  ابو کا ہاتھ پکڑ کرعید گاہ کی طرف جانے،ان کے بغل میں کھڑے ہوکر دوگانہ ادا کرنے اورپھر سب سے پہلے ان ہی سے گلے مل کر دعائیں لینے کے وہ دن کسی نعمت  سے کم نہیں تھے۔زیادہ تر عیدیں ممبئی میں ہی منائیںکیوں کہ جب سے ہوش سنبھالا خود کو یہیں پایا مگر گاؤں سے تعلق بہت گہرا تھا۔اب تو بڑی حدتک شہر کے ہوکر رہ گئے،ورنہ پہلے شہر میں رہتے تھے مگر تھے گاؤں کے۔ ہر سال وطن کا سفر لازمی تھامگر وہاں عیدمنانے کا اتفاق صرف ایک بار ہوا جس کی یادیں بہت دھندلی ہوچکی ہیں۔
 ہمارا گاؤں عالم گنج جو اتر پردیش  کےضلع فتح پور میں واقع ہے، اُس وقت پکی سڑک سے جڑا ہوا نہیں تھا۔یہی وجہ ہے کہ بمبئی (اس وقت ممبئی، بمبئی ہی ہوا کرتا تھا)  سے جاتے وقت کانپور اترنے کےبعد زیادہ آسان یہ تھا کہ اپنے ننہال(کورواں) چلے جائیں جو  ’بندکی‘ کے آگے جی ٹی روڈ پر واقع ہے۔ دوگھنٹے کے سفر کے بعد نانا کے گاؤں پہنچ جاتے اور پھر دو ایک روز قیام کرکے وہاں سے نانا جو ’کڑے خاں‘ کے نام سے مشہور تھے اور بے انتہا محبت کھتے تھے، بیل گاڑی میں ہمیں عالم گنج   خود پہنچادیتے۔ گھوڑا گاڑی  جسے  تانگہ یا یکہکہتے تھے، میں حالانکہ نسبتاً کم  وقت میں پہنچ سکتے تھے مگر  راستہ کچا تھا  اور بیل گاڑیوںکےمسلسل چلنے کی وجہ سے مٹی اس قدر پِس سی جاتی تھی کہ کئی انچ بلکہ کہیں کہیں تو ایک ایک فٹ گرد(دھول) بن جاتی تھی جسے گاؤں کی زبان میں ’’بھدا‘‘کہتے تھے۔ اس پر گھوڑے کیلئے شاید تانگے کو کھینچنا مشکل ہوتا ہوگا اس لئے کوئی تانگے  والا تیار ہی نہیں ہوتا تھا۔ مجبوراً  بیل گاڑی پر دھکے کھاتے ہوئے محض ۹؍ کلومیٹر کا سفر کئی گھنٹوں میں طے کرتےمگر بیل گاڑی کے اس سفر کا بھی اپنا ہی مزہ تھا، بدن کا کون سا حصہ ہے جو بیل گاڑی کے اوبڑ کھابڑ راستے پر چلنے کی وجہ سے  متاثر نہ  ہوتا ہو۔ہم بچوں کو خیر فرق نہیں پڑتا تھا مگر بڑوں کو دیکھتے تھے کہ بیل گاڑی سے اتر کر بدن کو سیدھا کرنے میں بھی انہیں  چند سیکنڈ لگ جاتے تھے۔ وہ دور بھی کیا خوب تھا،  ایسی مادیت  نہیں تھی۔ ایسے سادہ لوح لوگ  ہوتے تھے کہ ایک دوسرے کے کام آنا اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے۔ گاؤں میں  اگر کسی ایک کے پاس بھی بیل اور گاڑی ہیں تو سمجھئے کہ وہ سارے گاؤں کیلئے حاضر ہیں۔ نانا  کے پاس بیل گاڑی نہیں تھی مگر وہ کبھی کسی سے عاریتاً لے کر خود پہنچاتے یاپھر گاؤں کے کسی بزرگ کو کہہ دیتے تو وہ بے چارے اپنی بیل گاڑی میں پہنچانے تک چلے آجاتے۔ بھلا آج کے دور میں  کوئی تصور بھی کرسکتاہے کہ کوئی اپنا پورا دن خراب کرے،ا پنی ہی بیل گاڑی میں کسی اور کی فیملی کو چھوڑنے جائے اور پھر خالی بیل گاڑی لے کر واپس آئے۔مگرمجھے یاد ہے کہ ایسا ہوتا تھا۔ 
 خیر بات عید کی ہورہی تھی۔ اب گاؤں اور شہر کی عید میں بہت زیادہ فرق نہیں رہ گیا مگر پہلے ایسا نہیں تھا۔ہم نے شیر خرمہ بمبئی میں دیکھا۔ شیرخرمہ میں تکلف نظر آتا ہے جبکہ گاؤں کی سیویوں میں  پیاری سی سادگی ہوتی تھی۔  عید کی تیاری کئی دنوں پہلے شروع ہوجاتی۔ سیویاں گھر میں ہی بٹی جاتیں اور پھر عید کے دن وہی موٹی موٹی سیویاں محض پانی میں ابال لی جاتیں۔ دودھ الگ سے گرم کرلیا جاتا اور جب  عید کی نماز پڑھ کر لوگ گھر پہنچتے یا کوئی عید ملنے آتا تو  ایک کٹورے میں ابلی ہوئی سیویوں میں شکر ،دودھ اور گری (جسے یہاں کھوپراکہتے ہیں) ڈال کر پیش کردیا جاتا۔ جو صاحب حیثیت ہوتے وہ دیگر میوہ جات بھی ڈالتے۔گاؤں میں عید کی تیاری بھی گاؤں کے اپنے مخصوص انداز میں ہوتی تھی۔  تالاب سے لائی گئی نرم مٹی سے رسوئی  جسے گاؤں کی زبان میں ’روسیاں‘ کہتے تھے،لیپی جاتی۔ برتنوں کوچمکانے کے ساتھ ان کا پیندہ جو چولہے میں کھانا پکانے کی وجہ سے سیاہ پڑ جاتا، پر بھی مٹی مل دی جاتی تاکہ کالک چھپ جائے ۔ پورے گھر کی لیپا پوتی بھی خواتین کی ہی ذمہ داری ہوا کرتی۔ 
  اس وقت عید کے دن کیلئے دودھ کا انتظام بھی  ایک بڑا کام ہوتا تھا۔ دودھ کی ڈیری کا نظام ہوجانے کی وجہ سے اب تو گاؤں میں بھی دودھ جب اور جتنا چاہئے دستیاب ہوجاتا ہے۔ اُس وقت ایسا نہیں تھا۔ گاؤں  میں جن کے پاس دودھ دینے والے مویشی ہوتے  ان ہی کے ہاں دودھ دستیاب ہوتا۔ اکثر لوگ کچھ دودھ اپنے استعمال کیلئے  رکھتے اور باقی  بیچ دیتے ۔ جن کے ہاں گائے یا بھینس نہیں ہوتی تھی ان کا کام عام  دنوں میں گھر پر پالی ہوئی بکری کے دودھ سے کام چل جاتا تھا مگر عید کے دن چونکہ زیادہ دودھ کی ضرورت ہوتی تو  اس لئے آس پڑوس کے گاؤں سے دودھ کا انتظام کرنا پڑتا ۔ عید گاہ کا تصور بھی گاؤں میں ہی  پورا ہوتا ہے۔ گاؤں  کے باہر وسیع و عریض عیدگاہ سال میں  صرف ۲؍ بار عید الفطر اور عیدالاضحی   کے موقع پر  آباد ہوتی جس کی صفائی  یعنی اس میں اُگ آنے والی گھاس کو کاٹنے کا کام پہلے ہی کروالیا جاتاتھا۔ آج ہم بھلے ہی شہروں تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں،  مسجدوں اور سڑکوں کو عیدگاہ بنا لیا ہے مگر گاؤں کی  سادہ سی  عید جو بہت کچھ نہ ہونے کے بعد بھی بہت زیادہ خوشیوں بھری ہوا کرتی تھی،شاید ہی کوئی بھول سکے۔ 

     عید سے پہلے بازار جانے کی عید

میرا تعلق اتر پردیش کے اعظم گڑھ کے ایک گاؤں منجیر پٹی سے ہے ۔اس سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر سرائے میر بازار ہے جس کی شہر ت عید کے بازار کی ہے ۔ یہاں کپڑا ، چپل ،جو تا اور چوڑی سب کچھ ملتا ہے۔میرے بچپن کا ذکر ہے، اس دور میں میرے جیسے گاؤں کے ہزاروں بچے سال میں ایک آدھ بار ہی بازار لے جائے جاتے تھے ، اس لئے   جیسے ہی خبر ملتی کہ عید کی خریداری کیلئے  بازار جانا ہے ، میں  اور میرے چھوٹے بڑے بھائی  بہنوں کے پاؤں  زمین  پر نہیں پڑتے تھے۔ پھولے نہیں سماتے تھے۔ ماں بہنوں سے باربار پوچھتے تھے کہ کون سا کپڑا پہن کر بازار جانا ہے؟ دکھاؤ  ۔ چپل جوتے کی پالش کی جاتی تھی، پھر ایک کار یاجیپ آتی تھی ، اس میں سوار ہو کر چند منٹ میں سرائے میر پہنچ جاتے تھے۔ اس مختصر وقت میںبڑے بوڑھوں کوپریشان کرتے تھے، چین سے نہیں بیٹھتے تھے۔  بازار میں داخل ہوتے ہی کا ر ایک جگہ کھڑی کردی جاتی تھی۔ پھر بڑے ابو کی رہنما ئی میں چھوٹے چھوٹے قدم بڑھاتے تھے۔  راستے  کے ایک طرف سے چلنے کی نصیحت کی جاتی تھی۔  زیادہ اچھل کود کرنے والے  ڈانٹ سنتے تھے ۔ سب سےپہلے چپل کی دکان ’ نیتا شو سینٹر‘  پہنچتے تھے۔ اس زمانے میںیہ دکان بہت مختصر تھی ۔اب بڑی ہوگئی ہے۔ بڑی مشکل سے سارے بچے  اس میں بیٹھ پاتے تھے ،کچھ کھڑے بھی رہتے تھے۔  چپل کے ناپ کے دوران کبھی کبھی دشواری ہوتی تھی ۔ بہرحال گھنٹے دو گھنٹے میں یہ مرحلہ طے ہوجاتا تھا۔ اسکے بعد جانو ٹیلر کے ہاں جاتے تھے جو سرائے میر میں کرتے  کے مشہور درزی ہیں۔ تھان کے تھان ممبئی کےکپڑے ہوتے تھے۔   ایک ہی جیسے ہوتے تھے ۔ عید کے دن پہن نکلتے تھے تو دوسرے گاؤں والوں کو بھی پتہ چل جاتاتھا کہ یہ ایک ہی گھر کے بچے ہیں ۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتاتھا کہ جانو ٹیلر ناپ لینے گھر ہی آجاتے تھے۔ انہیں دیکھ کر بچے منہ بنالیتے کہ اب بازار میں کچھ کم وقت گزارنے کا موقع ملے گا ۔خیر ٹیلر  کے ناپ لینے کے بعد کھانے پینے کا نمبر آتا تھاجس بھی دکان پر بچوں کی فوج پہنچتی تھی ، دکاندار سرکھجانے لگتاتھا ۔ ایک کہتا کہ یہ دو تو دوسرے کہتاکہ وہ دو، مجھے پہلے دو ..مجھے پہلے دو کا بھی شور سنائی دیتا تھا  ۔ دکاندارجلد ی جلدی انہیں کھلا پلا کر اپنی جان چھڑا لیتا تھا۔ ہم بچے دعا کرتے تھے کہ سورج ڈوبے  ہی نہیں ، تاکہ زیادہ سے زیادہ بازار میں گھوم سکیں  اور عید سے پہلے کی عید کا لطف لے سکیں ۔بڑے ہونے کےبعد پتہ نہیں کیوں کہ اس بازارمیں وہ کشش نہیں رہی؟

عیدی صرف اسی نے دی جس کے ہم یا جو ہمارا رشتہ دار تھا

کہتے ہیں عید منانے کا حق اسے ہے جس نے اپنے رب کو راضی کرلیا۔اس نعمت کا احساس بچوں کے چہروں پر پھیلی مسکراہٹوں اور خوشیوںکو دیکھ کر ہوتا ہے۔گاؤں کے بچے ہوں یا شہر کے، عید کی خوشیوں سے لطف اندوز ہونے کا ہنر خوب جانتے ہیں لیکن گاؤں کی عید کا تجربہ خوشگوار اور یاد گار ہوتا ہے۔مجھے بچپن میں ایک عید گاؤں میں منانے کا موقع ملا تھا۔اس بات کو طویل عرصہ ہوگیا ہےمگر ان خوشیوں کی حلاوت کا احساس آج بھی تازہ ہے۔
 ۲۶؍ ویں رمضان کو ہم اپنی فیملی کے ساتھ گاؤں کیلئے روانہ ہوئے۔ ہم اپنے والدین سے اکثر گاؤں میں منائی گئی عید کے قصے سنتے تھے اس لئے تجسس زیادہ تھا۔ پہلے روزے ہی سے شور تھا کہ اس بار ۲۹؍ کا چاند ہوگا۔آخر ۲۹؍ویں شب بھی آگئی اور مغرب کے بعد میں اپنے چچا زاد بھائیوں کے ساتھ ہلال عید کا دیدار کرنے چھت پر چڑھ گیا۔ صاف آسمان پر کہیں کہیں بادل کے ٹکڑے تھے۔گاؤں میں گھروں کی چھتیں کافی قریب قریب تھیں۔ سبھی چاند دیکھنے کیلئے بے چین تھے۔ پاس ہی ایک چھت پر ایک غیر مسلم خاندان کے افراد ہمیں دیکھ رہے تھےکہ آخر یہ سب آسمان پر ٹکٹکی باندھ کر کیوں اور کیا دیکھ رہے ہیں۔ ان کے پوچھنے پر ہم نے بتایا تو انہوں نے اپنی چھت پر بلاکر ہمیں تھوڑی اونچی جگہ کھڑا کردیا تاکہ آسمان واضح دکھائی دے ۔ کچھ دیر ہی گزری تھی کہ بادل کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کے کنارے باریک سا چاند نظر آیاجسے دیکھ کر بڑوں سے زیادہ بچے خوشی سے سرشار ہوگئے۔ بڑے ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے جبکہ میں فوراً نیچے اترا اور گھر میں داخل ہوتے ہی بآواز بلند یہ خبر سنائی کہ چاند نظر آگیا ہے،اور کل عید ہے۔
 عید کی خوشی میں تھوڑا سوئے اور زیادہ جاگتے رہے۔ صبح ہوگئی۔ مسجد سے نماز کے اوقات کا اعلان ہوا،میں نے بھی اپنی تیاری شروع کردی۔ کپڑے کے متعلق غلطی یہ ہوگئی کہ بڑے بھائی کا کپڑا پہن لیا ۔در اصل میرا اور بھائی کا کپڑا ایک ہی تھان سے لیا گیا تھا، فرق صرف سائز کا تھا۔ خیر امی نے مجھے میراکپڑا پہنایا اور میں ابو کے ساتھ مسجد روانہ ہوگیا۔ مسجد میں بچوں کی صف سب سے پیچھے بنائی گئی اور بڑوں کی جانب سے ہمیں شور شرابہ نہ کرنے کی تاکید کی گئی ۔ عیدکی نماز کے بعد سیدھا گھر جانے کا ارادہ تھا مگر چچا زاد بھائیوں نے بتایا کہ مسجد ہی سے سب ایک دوسرے کے گھر جائیں گے۔ میرے لئے یہ تجربہ نیا اور انوکھا تھا ۔ ہم یہ طے کرنے لگے کہ سب سے پہلے کس کے گھر جانا ہے۔ مسجد سے قریب جس کا گھر تھا اس نے آواز دی کہ سب یہاں آجائیں ۔ بڑے حضرات بر آمدے میں لگی چار پائی اور چوکی پر بیٹھ گئے اور ہم بچے کھڑے رہے۔چھولا،قمامی سیوئی اور گلاب جامن آگئے۔ سبھی کو ایک پیالی میں ایک گلاب جامن  دیا گیا البتہ بچوں کو کہا گیا کہ ایک پیالی میں دو بچے کھائیں۔ ہم نے میٹھے میں سمجھوتہ کیا عیدی میں نہیں۔ انہوں نے ۵؍ روپے کا نوٹ بطور عیدی دی۔ یہ اُس عید کی پہلی عیدی تھی ۔ الغرض باری باری سبھی کے گھر جاتے اور کھاتے رہے۔ بھلا ہو ا اس گھر کا جہاں سب سے آخر میں گئے تھے۔در اصل وہاں ’ اسپرائٹ‘ کا انتظام تھا۔ ہم نے بھی پلیٹ سے اسپرائٹ سے بھرا ایک گلاس اٹھا لیا۔ اس گھر پر سبھی نے صرف اسپرائٹ ہی پی۔ سیوئیوں کی پیالیاں اور اس میں موجود چمچے ایک دوسرے کو خاموشی سے تکتے ہی رہ گئے۔
 عیدی صرف اسی نے دی جس کے ہم یا جو ہمارا رشتہ دار تھا ۔ہم گھوم گھوم کر کھاتے کھاتے تھک گئے تھے اب آرام کی چاہت تھی۔ گھر کے ایک گوشے میں جو سوئے تو قرب شام کو اٹھے۔ پھر دوستوں کے ساتھ میلہ گئے ۔اب میلے میں کیا ہوا وہ پھر کبھی۔

بچپن میں عیدی خرچ کرکے والدہ سے دوبارہ پیسوں کی ضدکی بات ہی کچھ اورتھی

بچپن کی عید واقعی بچپن کی عید تھی۔ اس وقت عسرت تھی آج حالات قدرے بہتر ہیںاس کے باوجود جولطف بچپن کی عید میںتھا اس کاتصور محال ہے۔ عید کے دن صبح صبح والدہ ہم چاروں بھائیوں کوتیارکرتیں اوربمشکل تین چار روپے ایک ایک کو عیدی ملتی،اسے خرچ کرنے اوردوبارہ پیسوں کے لئے والدہ سے ضد کرنے کاکچھ الگ ہی لطف تھا۔ سب کاکپڑا یکساں ہوتا ،تھان سے کٹواکرلایا جاتا اورگھر پر درزی کوبلاکر سلوایا جاتا ۔ 
 عید کی نمازکے بعدمسجد کے قریب لگنے والےمیلے میںجاکر سب سے پہلے کچالو کھایا جاتا۔مہوا کے پتّے پردیا جانے والا کچالو کھانے میںہم سب اس قدر مگن رہتے تھے کہ کپڑوں کے گندے ہونے کااحساس نہیںہوتا چنانچہ اکثر کپڑوںپرکچالو کا مسالہ گرجاتااورکپڑے خراب ہوجاتے،اسے اپنے انداز میںصاف کرنے کی کوشش میں کپڑامزید گندہ ہوتا۔میلہ دیکھ کر گھر لوٹنے پر والدہ کپڑے کی حالت دیکھ کرکہتیں ’رَچ آئے ہا کپڑوا، چلا اتاردَے ، ایہک بقرید میں پہنک ہے، نکارا،(کپڑے کی حالت خراب کر کے آئے ہو،چلو اتارو،اسی کوبقرعید میںپہننا ہے)۔مالی تنگی کے سبب عموماً عید والے کپڑے بقرعیدمیںپہنے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ پان کھانےکی ضد ہوا کرتی تھی۔پان لگانے کے لئے میلے میں کچھ وقت گزارنےکےبعدبرئی (پان فروش)گھرآتے تھے ۔ ان کی ٹوکری میںپان اور پان کا مسالہ رہتا تھا لیکن اکثر پان کے پتّے خراب،گلے اور کٹے ہوئے ہوتے اورمسالہ وغیرہ بھی بس یوں برائے نام رہتا تھا۔ زیادہ ضدکرنے پر وہ بھی محبت کا اظہار کرتے اوربڑوں کو پان لگاکر دینےکےبعد کہتے کہ ’پنوا دیئت ہے بابو رُکارُکا‘ (پان دے رہا ہوں بابو رکو )پان کا چھوٹا ٹکڑا لگاکر ضدپوری کردیتے۔اس طرح پان کھاکرہم اپنے کپڑےمزید رنگین کرلیتےتھے ۔
 ایک اوراہم چیز جواب تک ذہن میںمحفوظ ہےبلکہ جدید آلات کے آنےکےسبب اس کی کمی محسوس ہوتی ہے،وہ ہے عید کی نمازکے لئےلوگوں کو بلانے کی خاطر لگائی جانے والی صدا۔ پہلے مائیک نہیںتھا تو گاؤں میںجن لوگو ںکی آواز بلند ہوتی تھی،وہ نماز سے قبل مسجد کی چھت پریا اس بلند جگہ پر جہاںسے اذان دی جاتی تھی، آواز لگاتےکہ چلاہو، جلدی آوا، دوگانہ کا ٹائم ہوئی گا ہے (چلو جلدی آؤ ،عیدکی نمازکا وقت ہوگیاہے) ۔ گاؤںمیں عیدوبقرعید میں لوگوں کوبلانے کے لئےصدا بلند کرنے والوں میں محمد ادریس عرف پانڈے بابا اورعبدالوہاب پردھان ہوا کرتے تھے۔محمدادریس جو طویل العمر ہونے کے باوجود بقید حیات اورصحت مند ہیںجبکہ عبدالوہاب پردھان انتقال کرچکے ہیں۔ مائیک کے آنے کے بعدسےآواز لگانے کایہ سلسلہ بند ضرور ہوگیا ہے مگرآوازلگانے میںجو اپنائیت تھی وہ مائیک کابدل کبھی نہیں ہوسکتی ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK