Inquilab Logo Happiest Places to Work

میرے والد امان اللہ خان نواب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے

Updated: June 27, 2023, 4:51 PM IST | Mumbai

زینت امان نے ۱۸؍ جون کو ’فادرس ڈے‘‘ کے موقع پر اپنے والد امان اللہ خان کو جذباتی انداز میں یاد کیا۔ انہوں  نے بتایا کہ انہیں  اپنا سرنیم ’’امان ‘ کیسے ملا ۔ وہ اپنے والد کی اردو شاعری کے ترجمہ اور اشاعت کی خواہشمند بھی ہیں۔

A photo of Zeenat Aman with her father Amanullah Khan (left) which she shared on Instagram.
زینت امان کی اپنے والد امان اللہ خان (بائیں) کے ساتھ وہ تصویر جو انہوں نے انسٹا گرام پر شیئر کی ہے۔

زینت امان نے ۱۸؍ جون کو  ’فادرس ڈے‘‘ کے موقع پر اپنے والد امان اللہ خان کو جذباتی انداز میں یاد کیا۔ انہوں  نے بتایا کہ انہیں  اپنا سرنیم ’’امان ‘ کیسے ملا ۔ وہ اپنے والد کی اردو  شاعری کے ترجمہ اور  اشاعت کی خواہشمند بھی ہیں۔
  زینت امان نے فادرس ڈے کے موقع پر   انسٹا گرام پر ایک تصویر شیئر کی  اور پھر وہ  اس  کے حوالے سے  بچپن کی یادوں میں کھوگئیں۔  وہ کہتی ہیں کہ ’’یہ بیش قیمتی تصویر ایک فوٹو اسٹوڈیو میں کھنچوائی گئی تھی ،  میں بچی تھی۔ میرے والد پیچھے بیٹھے ہوئے ہیں جبکہ ایک رشتہ دارسامنے ہیں۔ میرے والد امان اللہ خان کا تعلق شاہی نواب گھرانے سے تھا۔ان کی والدہ اختر جہاں بیگم بھوپال کے آخری نواب حمید اللہ خان کی چچازاد بہن تھیں۔ ‘‘   وہ مزید لکھتی ہیں کہ ’’میرے والد جو امان صاحب کہلاتے تھے، ۸؍ بھائی بہن تھے  اور بھوپال میں آرام دہ زندگی گزار رہے تھے۔ جوانی  میں   ان کی وجاہت کے چرچے تھے اس لئے وہ  اپنے چچازاد بھائی الناصر کے ساتھ  ا س امید پر ممبئی چلے آئےکہ یہاں شاید فلمی دنیا میں  موقع مل جائے۔ یہاں ان کی ملاقات میری والدہ وردھنی سندھیا سے ایک پارٹی میں ہوگئی۔‘‘ زینت امان کے مطابق’’دونوں نے شادی کرلی مگر ان کے گھرانوں نے اس شادی کو تسلیم نہیںکیا۔ مختصر عرصہ اداکاری کرنے کے بعد امان صاحب قلمکار بن گئے۔ انہوں نے جن پروجیکٹس پر کام کیا ان میں مغل  اعظم اور پاکیزہ  جیسی شاہ کار فلمیں  شامل ہیں۔  امان  صاحب نے ان  دونوں  ہی فلموں کے اسکرین پلے اور مکالموں پر کام کیا۔ 
 اپنے والد کو یاد کرتے ہوئے  زینت امان کہتی ہیں کہ ’’بطور مصنف ان کی قدر کی  جاتی تھی مگر میں نہیں سمجھتی کہ انہیں وہ مقام حاصل ہوا جس کے وہ حقدار تھے۔ میں سمجھتی ہوں کہ فلم انڈسٹری میں  رائٹرس کو ان کی خدمات کے مطابق صلہ نہیں مل پاتا۔‘‘اپنے والدین کی علاحدگی کے تعلق سے زینت امان نے بتایا ہے کہ ’’میری  پیدائش کے چند ہی برسوں بعد میرے والدین نے علاحدگی کا فیصلہ کرلیا۔ میں  ماں کے ساتھ رہی جبکہ والد ماؤنٹ میری ہل باندرہ میں واقع ایک عالیشان بنگلے میں منتقل ہوگئے۔‘‘ والد کے ساتھ گزارے ہوئے  بچپن کے خوبصورت لمحوں کا یاد کرتے ہوئے اپنے انسٹا گرام پوسٹ میں زینت امان نے  بتایا ہےکہ کس طرح ان کے والد انہیں چہل قدمی کیلئے لے جایا کرتے اور راستے میں آئس کریم کھلاتے تھے۔  ان کے مطابق’’وہ مجھے کہانیاں سناتے  اور میرے لئے اردو نظمیں پڑھتے جن میں  سے کچھ انہوں نے صرف  میرے لئے لکھی تھیں۔ وہ مجھے اور میری والدہ کو انگریزی میں بہت خوبصورت  خط   بھی لکھا کرتے تھے۔ 
 کم عمری میں ہی والد کے سائے سےمحروم ہوجانے کا حوالہ دیتے ہوئے زینت امان لکھتی ہیں کہ ’’اپنےو الد کے تعلق سے یہ میری کچھ یادیں ہیں۔ میں اسکول ہی میں تھی کہ ۴۱؍ سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا۔کاش کے مجھے ان کے ساتھ وقت گزارنے کا اور موقع ملا ہوتا تاکہ   میرے  پاس کچھ اور بھی یادیں ہوتیں۔   ان کی جو یادیں   اورنشانیاں میرے پاس  ہیں ان میں ان کی اردو شاعری بھی ہے۔ یہ میرے دل کے بہت قریب ہے۔ ‘‘ وہ جذباتی ہوکر کہتی ہیں کہ ’’کاش  وہ دن آئے جب ان کی شاعری کو میں ترجمہ کراکر شائع کرواسکوں۔ کوئی کتنا ہی بڑا ہوجائے،والدین کو یاد کرتے ہوئے بچہ    ہو جاتا ہے۔  یوم پدر کے موقع پر میں  اپنے والد امان اللہ خان کو شدت سے یاد کررہی ہوں جن کانام(امان) میرے نام کا حصہ بن گیا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK