Inquilab Logo

نادرہ کی پہلی فلم ’آن‘ ۱۷؍ زبانوں میں ’سب ٹائٹل‘ کے ساتھ ریلیز گئی تھی

Updated: September 06, 2020, 12:27 PM IST | Anees Amrohi

اس کے ہیرو دلیپ کمار تھے۔بیرون ممالک اس فلم کو ’دی سویز پرنسز‘ کے نام سے ریلیز کیا گیا تھا۔ اس طرح فلم ’آن‘ کی کامیابی کے ساتھ ہی نادرہ کو ہندوستان کے علاوہ بیرون ممالک بھی شہرت حاصل ہوگئی۔حالانکہ اس سے قبل ۱۹۴۳ء میں بطور چائلڈ آرٹسٹ نانابھائی بھٹ اور بابو بھائی مستری کی فلم ’موج‘ میں بھی نادرہ کو ایک چھوٹا سا کردار مل چکاتھا

Actress Nadira
ادکارہ نادرہ

ہندوستانی فلمی دنیا میں کئی فنکار ایسےہوئےہیں جنہوں نے خواہ زیادہ فلموں میں کام نہ کیا ہو، مگر اپنے چند کرداروں کی وجہ سے ہی سہی، وہ ہمیشہ کیلئے اپنا نام سنیما کی تاریخ میں لکھوا گئے۔ ایسے ہی فنکاروں میں ایک تھیں اداکارہ نادرہ۔
 ۵؍دسمبر ۱۹۳۲ء کو نادرہ کا جنم اسرائیل میں ہوا۔ ان کا اصلی نام فرحت ایزیکل تھا۔ ان کے والد مصر کے ایک یہودی خاندان سے تھے جبکہ والدہ عراقی یہودی تھیں۔ تلاشِ معاش کے سلسلے میں یہ خاندان ہندوستان منتقل ہو گیا اور ممبئی کے مسلم اکثریتی علاقے ناگپاڑہ میں رہائش اختیار کی، جہاں یہودیوں کی بڑی تعداد آباد تھی۔ نادرہ کی خوبصورت ماں انگریزوں کے زمانے میں  ایئر فورس میں فلور سُپروائزر کی پوسٹ پر تھیں۔ گھر کے مالی حالات بہت زیادہ اچھے نہیں تھے لہٰذا نادرہ کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی۔ بعد میں انہیں مزید تعلیم کیلئے ایک کیتھولک نن کے پاس بھیجا گیا۔ گھر کے بچوں میں سب سے بڑی ہونے کی وجہ سے نادرہ نے کچھ دنوں تک ٹائپنگ اور شارٹ ہینڈ کے کام سے بھی گھر کے خرچ میں والدین کا ہاتھ بٹایا۔ حالانکہ وہ خود ڈاکٹر بننے کی خواہش رکھتی تھیں مگر حالات نے انہیں اداکارہ بنا دیا۔
 اُن دنوں فلموں میں کام کرنا بہت معیوب سمجھا جاتا تھا اور نادرہ کا تعلق ایک ایسے خاندان سے تھا کہ انہیں بغیر سر ڈھکے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ نادرہ کی ماں کو جب معلوم ہوا کہ وہ فلموں میں کام کرنا چاہتی ہیں تو وہ بہت ناراض ہوئیں اور کہا کہ اگر تو فلموں میں کام کرے گی تو تیری شادی کہاں ہوگی اور کون تجھ سے شادی کرے گا اور تو برادری میں ہماری ناک کٹوائے گی۔ تب نادرہ نے اپنی ماں کو سمجھاتے ہوئے ایک جملہ کہا کہ ’’ماں! میں ایک اچھے خاندان کی عزت دار لڑکی ہوں۔ میں فلم لائن میں بھی کوئی ایسا کام نہیں کروںگی جس سے ہمارے خاندان کی عزت پر آنچ آئے اور میں یہ بات آپ کی قسم کھاکر کہہ رہی ہوں۔‘‘ سخت مزاج کی ماں نے اس بات سے متاثر ہوکر نادرہ کو فلموں میں کام کرنے کی اجازت دے دی۔ نادرہ کا پہلا فلمی کانٹریکٹ بھی اُن کی ماں ہی کو سائن کرنا پڑاکیونکہ نادرہ اس وقت نابالغ تھیں۔ ان کی عمر ۱۷؍برس  رہی ہوگی۔
 بچپن ہی میں  نادرہ کے تیکھے نین نقش ہونے کی وجہ سے چائلڈ آرٹسٹ کے بطور ۱۹۴۳ء میں نانابھائی بھٹ اور بابو بھائی مستری کی فلم ’موج‘ میں ایک چھوٹا سا کردار ملا تھا۔ پھر ایک تقریب میں فلمساز و ہدایتکار محبوب خان نے نادرہ کو دیکھا اور فلم میں کام کرنے کا آفر دے دیا۔ اس طرح ۴؍اکتوبر ۱۹۴۹ء کو فلم ’آن‘ کیلئے محبوب خان نے نادرہ کو سائن کر لیا۔ اس فلم کے ہیرو دلیپ کمار تھے اور ساتھ میں نمی تھیں۔ یہ فلم ۱۹۵۲ء میں نمائش کیلئے پیش ہوئی۔ ’آن‘ ہندوستان کی پہلی رنگین فلم تھی اور نادرہ کی بھی یہ پہلی ہی فلم تھی۔ اس فلم میں نادرہ نے ایک بددماغ اور نک چڑھی راجکماری  راجیشری کا کردار ادا کیا تھا۔ محبوب خان کی ہدایت میں بنی اس فلم کی موسیقی نوشاد نے تیار کی تھی۔ ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ بیرون ملک میں بھی کئی جگہ’آن نے کامیابی حاصل کی۔ بیرون  ممالک اس فلم کو ’دی سویز پرنسز‘ کے نام سے ریلیز کیا گیا تھا، اور یہ ۱۷؍ مختلف زبانوں کے سب ٹائٹل کے ساتھ دکھائی گئی تھی۔ اس طرح فلم ’آن‘ کی کامیابی کے ساتھ ہی نادرہ کو بھی ہندوستان کے علاوہ باہر کے ممالک میں بھی شہرت حاصل ہوئی۔
 فلم ’آن‘ کی کامیابی کے بعد نادرہ نے فلم ’وراث‘ اور ’ڈاک بابو‘ میں کام کیا۔’ڈاک بابو‘ فلم میں انہوںنے ایک صفائی کرنے والی جمعدارنی کا کردار ادا کیا تھا۔ طلعت محمود اس فلم میں ان کے ہیرو تھے مگر یہ دونوں فلمیں کامیاب نہ ہو سکیں۔ ۱۹۵۵ء میں انہوںنے فلم ’رفتار‘ اور’جلن‘ میں بھی کردار ادا کئے مگر بات نہیں بنی۔’آن‘ کی کامیابی کے بعد نادرہ کو راج کپور کی فلم میں کام کرنے کی خواہش ہوئی،اسلئے انہوںنے بغیر سوچے سمجھے راج کپور کی فلم’شری چار سو بیس‘ میں ایک منفی کردار قبول کر لیا اور یہی ان کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی ثابت ہوئی۔ وہ راج کپور کی فلم میں کام کرنا چاہتی تھیں، اسلئے جب راج کپور فلم کی اسکرپٹ انہیں سنا رہے تھے تو درمیان ہی میں  نادرہ نے انہیں روک دیا اور فلم قبول کرلی۔  بعد میں اس کردار کو کافی شہرت ملی اور فلم بھی بہت کامیاب ثابت ہوئی۔ ۱۹۵۶ء میں ریلیز ہوئی اس فلم کا نادرہ پر فلمایا گیا ایک گیت ’’مڑ مڑ کے نہ دیکھ مڑ مڑ کے‘‘ بے حد مقبول ہوا تھا مگر اس فلم کے بعد نادرہ پر بُری فلمی عورت کا ٹھپہ لگ گیا۔ اس کے بعد نادرہ کے پاس ہیروئن کے مرکزی کردار آنے بند ہو گئے۔ لگ بھگ ڈیڑھ برس تک نادرہ نے کوئی فلم سائن نہیں کی۔اس درمیان ان کے مالی حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ حالات سے تنگ آکر  انہوںنے پھر سے ہر قسم کے رول کرنے شروع کر دیئے۔
 اُنہی دنوں نغمہ نگار نخشب کی محبت میں گرفتار ہوکر نادرہ نے ان سے شادی کر لی مگر شادی کے بعد نخشب نے نادرہ کے فلموں میں کام کرنے پر پابندی لگا دی اور وہ خود ایک گیت کار کے ساتھ ہی فلمساز بھی بن گئے۔ نادرہ کو ہیروئن لے کر انہوںنے فلم ’نغمہ‘ اشوک کمار کے ساتھ بنائی۔ یہ فلم زیادہ نہیں چلی۔ بعد میں طلعت محمود کے ساتھ نادرہ کو ہیروئن بناکر فلم ’رفتار‘ بنائی مگر وہ بھی فلاپ ہو گئی۔ اس کے بعد نخشب نے نادرہ کو صرف خواجہ احمد عباس کی فلم ’آکاش‘ میں بلراج ساہنی کے مقابل ہیروئن کا کردار ادا کرنے کی اجازت دی مگر اس  درمیان نخشب اور نادرہ کے آپسی تعلقات خراب ہوتے چلے گئے اور آخر ایک دن دونوں نے علاحدگی اختیار کر لی۔ نخشب بعد میں پاکستان چلے گئے تھے اورہیں پر اُن کا انتقال ہوا۔
 طلاق کے بعد نادرہ کو فلموں میں کام کرنے کیلئے پھر سے آفر آنے لگے۔ حالانکہ وہ ہیروئن بننا چاہتی تھیں مگر وقت اور حالات نے اجازت نہیں دی اور جو کردار اُنہیں ملتا گیا، وہ قبول کرتی چلی گئیں۔ فلمساز ایف سی مہرہ اور ہدایتکار محمد حسین کی فلم ’سپہ سالار‘ میں نادرہ نے مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگی ہوئی ایک کائو بوائے قسم کی لڑکی کا کردار ادا کیا تھا، جو گھوڑے پر سوار ہوکر گھومتی ہے۔ اس فلم کی خاص بات یہ ہے کہ نادرہ نے اس فلم میں میک اَپ بالکل نہیں کیا تھا اور اس قسم کے کردار ان کے تیکھے نین نقش پر خوب جچتے تھے۔ ’بلیک ٹائیگر‘ اور’مادام زیرو‘ بھی اُسی دور کی فلمیں ہیں۔ اس کے بعد ۱۹۶۰ء میں ریلیز ہوئی کمال امروہوی کی فلم ’دل اپنا پریت پرائی‘ میں ایک اہم اور بڑا رول اُن کو ملا مگر وہ بھی نگیٹیو رول تھا۔ اس فلم کی ہیروئن مینا کماری تھیں جو ایک نرس کا کردار ادا کر رہی تھیں اور اسپتال کے ڈاکٹر راجکمار سے محبت کرتی ہیں مگر راجکمار کی شادی امیر باپ کی نک چڑھی بیٹی نادرہ سے ہو جاتی ہے۔ اس طرح وہ مینا کماری سے نفرت کرنے لگتی ہے اور پاگل پن کی حد تک جانے کو تیار نظرآتی ہے۔ اس کے بعد نادرہ کو فلم ’جولی، پاکیزہ، ایک نظر اور امر اکبر انتھونی‘ وغیرہ فلموں میں سائڈ رول میںہی گزارا کرنا پڑا۔ فلم ’جولی‘ میں جولی کی ماں کے کردار کیلئے نادرہ کو بہترین اداکاری پر فلم فیئر ایورڈ بھی دیا گیا۔ یہ فلم ۱۹۷۵ء میں ریلیز ہوئی تھی۔
 انہوںنے بی آر اشارہ کی فلم ’چیتنا‘ اور’لوگ کیا کہیںگے‘ میں بھی کام کیا۔ بی آر اشارہ کی فلم ’انصاف کا مندر‘ کا کردار نادرہ کو  بہت پسند تھا۔ اسی درمیان انہوںنے ’پاکٹ مار، کالا بازار، میری صورت تیری آنکھیں، سپنوں کا سوداگر، تلاش، سفر اور ہنستے زخم‘ وغیرہ کئی بڑی فلموں میں کام کیا لیکن یہ سب فلمیں ان کے اندر کے فنکار کو مطمئن نہ کر سکیں۔ کافی عرصے کے بعد پوجا بھٹ کی فلم ’تمنا‘ میں انہیں ایک کردار ملا اور پھر مہیش بھٹ کی فلم ’جوش‘ میں انہوںنے کام کیا۔ فلمساز وگیت کار گلزار کی فلم ’کردار‘ کیلئے انہوںنے اتنی محنت سے کام کیا کہ ان کی آواز ہی بیٹھ گئی۔ مگر وہ ’کردار‘ کے اپنے کردار کو زندگی کا بہترین کردار مانتی تھیں۔ نادرہ کی فلم ’چھوٹی چھوٹی باتیں‘ کو ۱۹۶۵ء میں نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا، اسی طرح شمع/سشما فلم ایوارڈ شروع کئے گئے تو ۱۹۷۸ء میں نادرہ کو بھی انعام سے نوازا گیا۔ فلم ’ساگر‘ اور’ہنستے زخم‘ میں نادرہ کی بہترین اداکاری کیلئے بہت تعریف کی گئی۔ ۱۹۷۲ء میں ریلیز ہوئی فلم ’پاکیزہ‘ کے کردار میں نادرہ کی اپنی شخصیت کچھ اس طرح کھپ گئی تھی کہ وہ ایک یادگار کردار بن گیا۔  ہدایتکار روہت کوشک کے ٹی وی سیریل ’آنکھیں‘ میں بھی نادرہ کا ویمپ والا کردار ہی تھا، جو انہوںنے بڑی محنت سے ادا کیا تھا۔ اِس کردار میں جب وہ نشے کی حالت میں ہوتی ہیں تو پوری ڈائن عورت کا تصور پیش کرتی ہیں مگر جب ہوش میں ہوتی ہیں تو اپنی بیٹی کی بے حد مامتا بھری ماں بن جاتی ہیں اور بیٹی کو بہت پیار کرتی ہیں۔
 ’شری چار سو بیس‘ کے زمانے میں ہی نادرہ نے راج کپور کو بھائی مان کر راکھی باندھنی شروع کر دی تھی اور راج کپور نے زندگی کے آخری دن تک اس رشتے کو نبھایا بھی مگر اپنی زندگی کے آخر تک وہ اُس فلم ’شری چار سو بیس‘ میں بُری عورت کا کردار قبول کرنے پر پچھتاتی بھی رہیں۔ راج کپور، ہر راکھی کے تیوہار پر اُن کو پانچ سو روپے پابندی سے بھجواتے تھے۔ نادرہ نے فلمی دنیا کا اور اپنی زندگی کا اچھا اور بُرا، ہر طرح کا دور دیکھا تھا مگر انہوںنے اپنی زندگی اپنی مرضی کے مطابق ہی پوری زندہ دلی کے ساتھ گزاری۔
 نادرہ کو مختلف موضوعات پر کتابیں پڑھنے کا بے حد شوق تھا۔ اپنے فرصت کے زیادہ سے زیادہ لمحات وہ مطالعہ میں گزارتی تھیں اور کتابوں کو اپنا بہترین دوست، رفیق اور ہمدرد محسوس کرتی تھیں۔ ان کے ڈرائنگ روم میں ہی دیواروں سے لگی ہوئی قیمتی لکڑی کی بڑی بڑی الماریوں میں سیکڑوں نایاب کتابوں کی گویا ایک شاندار لائبریری سی نادرہ نے بنائی ہوئی تھی۔ نادرہ کو اردو زبان اور شعر وشاعری کا بھی بہت شوق تھا۔ ان کو اپنی ماں سے بھی بہت محبت تھی۔ ان کی ذاتی البم میں ماں کی بہت سی تصویریں خاص طور پر سجی ہوئی تھیں۔ نادرہ کے ڈرائنگ روم کے بک شیلف کے شیشے میں بھی اُن کی ماں کی ایک نہایت خوبصورت تصویر لگی تھی اور کئی تصویروں میں وہ اپنی یونیفارم میں بھی تھیں۔ 
 نخشب سے طلاق کے بعد نادرہ نے تنہائی سے گھبراکر ایک غیرفلمی شخص سے شادی کر لی تھی مگر یہ شادی ہفتہ دس دن سے زیادہ نہ چل سکی۔ اس طرح اپنی دونوں شادیوں کی ناکامی اور اولاد  نہ ہونے کی وجہ سے نادرہ کی زندگی میں کافی بڑا خلاء پیدا ہو گیا تھا۔ کافی عرصہ تک وہ اپنے تین بڑے بڑے کمروں والے مکان میں تنہائی کی زندگی گزارتی رہیں اور اپنے بیڈروم کی کھڑکی سے مہالکشمی کی چٹانوں سے ٹکراتے ہوئے بحرعرب کی لہروں کو دیکھتیں اور ہوائوں کو محسوس کرتی رہیں۔ نادرہ کے دونوں بھائی ان سے الگ تھے۔ ایک امریکہ میں اور دوسرا اسرائیل میں رہتا تھا۔ دسمبر ۲۰۰۵ء میں نادرہ پر فالج کا حملہ ہوا۔ ان کی حالت کافی نازک تھی کیونکہ انہیں ٹی بی اور سانس کی تکلیف بھی تھی۔ ممبئی کے بھاٹیہ اسپتال میں ان کی زندگی دوائوں کے سہارے پر چل رہی تھی۔ آخر میں ان کو بخار اور نمونیہ ہو گیا ، اس طرح زندگی کی جنگ اکیلے لڑتے لڑتے ۹؍فروری ۲۰۰۶ء کو انہوںنے اپنے خالقِ حقیقی کو لبیک کہا اور ۷۲؍ برس کی عمر میں اس جہانِ فانی سے رخصت لے لی۔
 اپنے خاص قسم کے کھڑے نقوش، ستواں ناک، چہرے پر کرختگی، کاندھوں پر جھولتے ہوئے گھنگھرالے بال، ٹانگوں پر کسی ہوئی پینٹ (برجیس) لانگ بوٹ اور کوٹ میں ملبوس چابک سوار نک چڑھی شہزادی والی اُس اداکارہ نادرہ کو لوگ ہمیشہ یاد رکھیںگے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK