سیرتِ نبی ٔ کریم ﷺ کی اس خصوصی سیریز میں حضور ؐ اور صحابہ کرام ؓ کے عمرۃ القضاء کے بعد کے حالات کا تذکرہ جاری ہے۔ آج کی قسط میں قریش کی چند نامور شخصیات کے قبول اسلام کا واقعہ خود انہی کی زبانی ملاحظہ کیجئے
EPAPER
Updated: April 07, 2023, 11:08 AM IST | Maulana Nadeem-ul-Wajidi | Mumbai
سیرتِ نبی ٔ کریم ﷺ کی اس خصوصی سیریز میں حضور ؐ اور صحابہ کرام ؓ کے عمرۃ القضاء کے بعد کے حالات کا تذکرہ جاری ہے۔ آج کی قسط میں قریش کی چند نامور شخصیات کے قبول اسلام کا واقعہ خود انہی کی زبانی ملاحظہ کیجئے
گزشتہ صفحات میں صلح حدیبیہ کے واقعات پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے، اس ضمن میں ہم نے صلح حدیبیہ کے اثرات کا جائزہ بھی لیا ہے، اس اہم تاریخی واقعے کا سب سے بڑا اثر یہ ہوا کہ اسلام میں لوگوں کی دلچسپی بڑھی اور قبولِ اسلام کے واقعات میں اضافہ ہوا، ان میں اہم ترین واقعہ حضرت خالد بن ولیدؓ، حضرت عمرو بن العاصؓ اور حضرت عثمان بن طلحہؓ کے قبول اسلام کا واقعہ ہے، اگرچہ ان تینوں حضرات نے عمرۃ القضاء کے بعد اسلام قبول کیا، مگر اس کی تحریک انہیں صلح حدیبیہ ہی سے ملی، جیسا کہ ان حضرات کے بیانات سے اس کا پتہ چلتا ہے، اکثر سیرت نگاروں نے ان حضرات کے قبول اسلام کے واقعہ عمرۃ القضا کے بعد ہی لکھا ہے، اس لئے ہم بھی ان کا تتبع کرتے ہوئے یہ واقعہ اسی موقع پر بیان کرنا مناسب سمجھتے ہیں، اگرچہ عربی کے قدیم سیرت نگاروں نے عمرۂ قضاء کے بعد ان حضرات کے قبول اسلام کا کوئی ذکر نہیں کیا، بلکہ ان کی کتابوں میں عمرۂ قضا کے بعد غزوۂ موتہ کا ذکر ملتا ہے، اس سلسلے میں سیرۃ ابن ہشام، سیرۃ حلبیہ اور زاد المعاد وغیرہ کا نام بہ طور مثال لیا جاسکتا ہے، لیکن ان حضرات کے قبول اسلام کا واقعہ تاریخ اسلام کا اہم ترین واقعہ ہے، اس کا ذکر موقع کی مناسبت سے ہی کیا جانا ضروری ہے، اس لئے ہم ان تینوں حضرات کے قبول اسلام کے واقعہ پر تفصیل سے روشنی ڈالنا ضروری سمجھتے ہیں۔
حضرت عمرو بن العاصؓ
کا قبولِ اسلام
حضرت عمرو بن العاصؓ کا ابتدائی زمانہ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید ترین مخالفت میں گزرا۔ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف ہر جنگ میں شرکت کی، لیکن غزوۂ خندق سے واپسی کے بعد ان کے خیالات میں تبدیلی شروع ہوئی جو بالآخر قبول اسلام پر منتج ہوئی۔ انہوں نے خود یہ قصہ بیان کیا ہے، بہتر ہوگا ہم انہی سے یہ قصہ سنیں، فرماتے ہیں:
جب ہم لوگ غزوۂ خندق سے واپس ہوئے تو میں نے قریش کے کچھ ایسے افراد کو بلایا جو میری بات سنتے تھے اور میری رائے کو اہمیت دیتے تھے، میں نے ان لوگوں سے کہا: خدا کی قسم میں یہ سمجھتا ہوں کہ محمدؐ کی بات تمام باتوں پر فوقیت لے جارہی ہے، اس سلسلے میں میری ایک رائے ہے، اسی کے متعلق میں تم سے مشورہ کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے پوچھا تمہاری رائے کیا ہے؟ میں نے کہا: میری رائے یہ ہے کہ ہم نجاشی کے پاس چل کر رہیں، اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہماری قوم پر غلبہ پالیا تو ہم نجاشی کے پاس ہوں گے، ان کی فتح وکامرانی سے ہم پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، ہم نجاشی کے ملک میں رہتے رہیں گے، محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ماتحتی سے کہیں بہتر یہ ہے کہ ہم نجاشی کے ماتحت رہیں، اور اگر ہماری قوم غالب آگئی تو ہم جانے پہچانے لوگ ہیں، ہماری قوم ہم سے بہتر ہی سلوک کرے گی۔ سب لوگوں نے ایک زبان ہوکر کہا: یہ رائے بہت اچھی ہے۔میں نے ان سے کہا کہ وہاں جانے سے پہلے بہتر یہ ہوگا کہ ہم نجاشی کے لئے کچھ تحائف اکٹھے کرلیں۔ نجاشی کو ہمارے ملک کا چمڑا بہت زیادہ پسند تھا، چناں چہ ہم نے اس کے لئے بہت سا چمڑا جمع کیا اور اسے لے کر حبشہ روانہ ہوئے اور نجاشی کے پاس جا پہنچے۔
ابھی ہم نجاشی کے دربار میں پہنچے بھی نہ تھے کہ ہم نے عمرو بن امیۃ الضمریؓ کو دربار سے نکلتے ہوئے دیکھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جعفرؓ اور ان کے ساتھیوں کے سلسلے میں کسی کام سے نجاشی کے پاس بھیجا تھا، میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ عمرو بن امیۃ الضمریؓ ہے، میں نجاشی سے جاکر کہوں گا کہ وہ اس شخص کو ہمارے سپرد کردے، اگرا س نے ایسا کیا تو میں اس کی گردن مار دوں گا اور قریش کو بتلاؤں گا کہ ہم نے محمدؐ کے قاصد کو قتل کرکے ان کا بدلہ لے لیا ہے۔ چنانچہ میں نجاشی کے دربار میں پہنچا، حسب معمول اس کو سجدہ کیا، اس نے کہا: خوش آمدید میرے دوست! پھر اس نے مجھ سے پوچھا کہ تم اپنے ملک سے میرے لئے کیا چیز لے کر آئے ہو، میں نے کہا: بادشاہ سلامت! ہم لوگ بہت سا چمڑا لے کر حاضر ہوئے ہیں، پھر میں نے وہ تمام سامان نجاشی بادشاہ کی خدمت میں پیش کردیا، اس نے میرا لایا ہوا تحفہ پسندیدگی کی نظر سے دیکھا اور کافی تعریف کی، میں نے نجاشی سے عرض کیا: عالی جاہ! میں نے ابھی ایک شخص کو یہاں سے باہر جاتے ہوئے دیکھا ہے، یہ شخص ایک ایسے شخص کے پاس سے آیا ہے جو ہمارا دشمن ہے۔ آپ اسے ہمارے حوالے کردیں، ہم اس کو قتل کرنا چاہتے ہیں۔ اُس شخص نے جس کے پاس سے یہ آیا ہے ہمارے شرفاء کی عزتیں پامال کررکھی ہیں۔
میری یہ بات سن کر نجاشی کو غصہ آگیا، پھر اس نے اپنا ہاتھ اس زور سے اپنی ناک پر مارا کہ مجھے لگا کہ شاید اس کی ناک ٹوٹ گئی ہے، اس کے اس طرز عمل سے مجھے اس قدر ندامت اور شرمندگی ہوئی کہ میں یہ تمنا کرنے لگا کہ کاش زمین شق ہوجائے اور میں اس کے اندر سماجاؤں۔ میں نے عرض کیا: بادشاہ سلامت! شاید آپ کو میری بات بری لگی ہے، اس نے جواب دیا: کیا تو یہ چاہتا ہے کہ میں ایسے شخص کو قتل کرنے کےلئے تیرے حوالے کردوں جو اس آدمی کا قاصد ہے جس کے پاس موسیٰ علیہ السلام کی طرح ناموس اکبر (فرشتہ) آتا ہے، میں نے کہا: کیا حقیقت میں ایسا ہی ہے، جیسا آپ فرمارہے ہیں؟ اس نے کہا: اے عمرو! تیرا ناس ہو، میری بات مان اور اس شخص کی اتباع کر، خدا کی قسم وہ شخص حق پر ہے۔ جس طرح حضرت موسیٰؑ فرعون اور اس کے لشکر پر غالب آئے تھے اسی طرح یہ بھی اپنے دشمنوں پر غالب آکر رہیں گے۔ میں نے نجاشی سے عرض کیا: بادشاہ سلامت! آپ مجھے اسلام پر بیعت کرلیں، انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھایا، میں نے ان سے اسلام پر بیعت کی۔
اس کے بعد میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا، اب میری رائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یکسر بدل چکی تھی، مگر میں نے اپنے ساتھیوں سے یہ بات چھپائی کہ میں مسلمان ہوچکا ہوں۔ پھر میںنے مدینہ منورہ کا قصد کیا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر باقاعدہ اسلام قبول کرلوں۔ یہ فتحِ مکہ سے پہلے کا واقعہ ہے، خالد بن ولیدؓ مکّے سے مدینے کی طرف جارہے تھے اور میں حبشہ سے ادھر جارہا تھا، راستے میں ہماری ملاقات ہوگئی، میں نے ان سے پوچھا: کدھر کا قصد ہے؟ انہوں نے کہا: اب یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی ہے کہ یہ صاحب (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نبی ہیں، واللہ! میں تو اب ان کے پاس جارہا ہوں تاکہ اسلام لے آؤں، کب تک ہم اس حقیقت سے راہِ فرار اختیار کریں گے، اور کہاں تک حیلے بہانے تراشیں گے۔ میں نے خالدؓ سے کہا خدا کی قسم! میں بھی اسی ارادے سے چلا ہوں، چنانچہ ہم لوگ مدینے پہنچے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، پہلے خالد بن ولیدؓ آگے بڑھے، انہوں نے کلمۂ شہادت پڑھا او ر آپؐ کے دست مبارک پر بیعت کی، پھر میں قریب ہوا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں اس شرط پر بیعت کروں گا کہ میرے تمام پچھلے گناہ معاف ہوجائیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمرو! تم بیعت کرو، اسلام اپنے سے پہلے کے تمام گناہوں کو ختم کردیتا ہے، اسی طرح ہجرت سے بھی تمام پچھلے گناہ ختم ہوجاتے ہیں چنانچہ میں نے بیعت کی اور واپس مکّہ چلا گیا۔
بعض روایات میں یہ ہے کہ حضرت عمرو بن العاصؓ کے دل میں جب اسلام کی محبت پیدا ہوئی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ اپنا دست مبارک بڑھائیں، میں بیعت کرنا چاہتا ہوں، چنانچہ آپؐ نے میری طرف اپنا دست مبارک بڑھایا، میں نے اسے تھام لیا ۔آپؐ نے پوچھا: اے عمرو! تم کچھ کہنا چاہتے ہو، میں نے عرض کیا :یارسولؐ اللہ! میری ایک شرط ہے اور وہ یہ ہے کہ میرے تمام گناہ معاف ہوجائیں۔ آپؐ نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام لانے سے پچھلے تمام گناہ ختم ہوجاتے ہیں، اسی طرح ہجرت سے بھی ماقبل کے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں، اور حج سے بھی پہلے کے تمام گناہ ختم کردئے جاتے ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل: ۲۹/۳۶۰، رقم الحدیث: ۱۷۸۲۷،صحیح مسلم:۱/۱۱۲، رقم الحدیث: ۱۲۱)
روایات میں ہے کہ حضرت عمرو بن العاصؓ مسلمان ہوکر مکّہ لوٹ گئے، پھر کچھ دنوں کے بعد ہجرت کرکے مدینہ واپس آئے۔ اسلام لانے کے بعد انہوں نے دفاعِ اسلام اور فروغ اسلام کے لئے بے مثال قربانیاں دیں، انہوں نے فتح مکہ کے بعد سریہ ذات السلاسل میں اسلامی کی فوج قیادت کی اور سریّہ سواع میں بھی قائد کی حیثیت سے تشریف لے گئے،عمان کے حاکم عبید اور اس کے بھائی جیفر کو جو خطوط رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تحریر فرمائے تھے، ان کو لے کر جانے والے حضرت عمرو بن العاصؓ ہی تھے۔ آپؓ ہی کی تبلیغ سے یہ دونوں بھائی اسلام کی دولت سے مالا مال ہوئے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے تک حضرت عمروؓ نے عمان ہی میں قیام کیا، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہاں کا عامل مقرر فرمادیا تھا۔، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال بعد مدینہ کا رخ کیا۔ (جاری)