Inquilab Logo

وزیر اعظم کی حقیقی مسائل پر خاموشی کب تک؟

Updated: March 04, 2024, 1:37 PM IST | P Chidambaram | Mumbai

وزیراعظم نے عوام کو ’’ترقی یافتہ ہندوستان‘‘ کا نیا نعرہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم ترقی یافتہ ہندوستان کا ہدف ۲۰۴۷ء تک ضرور حاصل کرلیں گے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان ۲۰۴۷ء میں ۲۰۲۴ء سے زیادہ ترقی یافتہ ہوگا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

آپ نے غور کیا ہوگا کہ وزیراعظم نریندر مودی اپنی تقاریر میں  ہمیشہ ’اپنا‘ ذکر غیر حاضر متکلم کی حیثیت سے کرتے ہیں  اور اپنے لئے ’وہ‘ (اسم ضمیر) کا استعمال کرتے ہیں ۔ وزیراعظم کی یہ عادت عوام کے ایک طبقے کو اس قدر پسند ہے کہ وہ اپنی تکالیف بھول جاتے ہیں ۔ مودی کی یہ عادت اس حقیقت کا ادراک کرتی ہے کہ اصل میں  وہی، حکومت ہیں  اور تنہا ہی حکومت کے ہر اچھے اور برے کام کے ذمہ دار ہیں ۔ امیت شاہ کے علاوہ دیگر تمام وزراء، بی جے پی لیڈران، اراکین پارلیمان حتیٰ کہ وزرائے اعلیٰ بھی مودی کے سامنے اپنے آپ کو معمولی سمجھتے ہیں ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ اپنی اس حالت پر خوش ہیں ۔ اس لئے میرا ماننا ہے کہ ہماری گزارشات اور تنقید، عزت مآب وزیراعظم پر مرکوز ہونی چاہئے۔ 
 وزیراعظم نے حال ہی میں  عوام کو نیا نعرہ دیا ہے، ’’ترقی یافتہ ہندوستان۔‘‘ اس نعرہ کے ساتھ نعروں  کی فہرست مزید طویل ہوگئی ہے جس کی ابتداء’’اچھے دن آنے والے ہیں ‘‘ سے ہوئی تھی۔ مجھے امید ہے کہ یہ نعرہ آخری ہوگا۔ ان نعروں  کی بھیڑ میں  کئی نعرے پیچھے رہ گئے ہیں  اور منزل تک پہنچنے میں  ناکام ثابت ہوئے ہیں ۔ مودی کہتے ہیں  کہ ہم ترقی یافتہ ہندوستان کا ہدف ۲۰۴۷ء تک ضرور حاصل کرلیں  گے۔ ۲۰۲۴ء سے ۲۰۴۷ء کے درمیان مرکز میں  کوئی بھی حکومت ہو، بلاشبہ ہندوستان ۲۰۴۷ء میں  ۲۰۲۴ء سے زیادہ ترقی یافتہ ہوگا اور گزرتے وقت کے ساتھ `’’ترقی یافتہ‘‘ لفظ کی تعریف بھی بدل جائے گی۔
  کسی ہدف کو حاصل کرنے کیلئے اس پر ثابت قدم رہنا ضروری ہے۔ ہدف کو بار بار بدلنا ذمہ دار حکومت کا شیوہ نہیں ۔ ۵؍ کھرب ڈالر کی معیشت کیلئے پہلے ۲۴۔۲۰۲۳ء کا ہدف طے کیا گیا تھا مگر اسے تبدیل کرکے ۲۸۔۲۰۲۷ء کردیا گیا۔ ۲۴۔۲۰۲۳ء کا مالی سال ختم ہونے تک ہندوستان کی جی ڈی پی کی مالیت تقریباً ۱۷۲؍ لاکھ کروڑ روپے ہوگی جو حالیہ شرح مبادلہ کے مطابق ۳ء۵۷؍ کھرب ڈالر کے برابر ہے۔ فرض کریں  کہ اگر یہ شرح مبادلہ برقرار رہتی ہے تو ۵؍ کھرب ڈالر کی معیشت کا ہدف مختلف شرح نمو پر مختلف اوقات میں  حاصل ہوگا۔ مثلاً، اگر شرح نمو۶؍ فیصد ہو تو ہدف تک پہنچنے کیلئے ۶؍ سال درکار ہوگے اور یہ ہدف ۲۰۲۹ء میں  حاصل ہوگا۔ اسی طرح شرح نمو۷؍ یا ۸؍ فیصد رہی تو بالترتیب ۵؍ یا ساڑھے چار سال میں  یہ ہدف مکمل ہوگا۔ لیکن اگر اس دوران ڈالر کی قیمت میں  اضافہ ہوگیا تو اس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے مزید انتظار کرنا ہوگا۔
 گزشتہ دس برسوں  میں  بی جے پی حکومت کا ریکارڈ مایوس کن رہا ہے۔ یوپی اے کے ۶ء۷؍ فیصد (پرانے بنیادی سال کے مطابق ۷ء۵؍ فیصد) کی شرحِ نمو کے مقابلہ این ڈی اے کے ایک دہائی پر مشتمل دور حکومت میں  صرف ۵ء۹؍ فیصد کی اوسط شرح نمو دیکھنے کو ملی ہے۔ کیا بی جے پی، جی ڈی پی کا پہیہ تیزی سے گھما کر شرح نمو میں  اضافہ کرسکتی ہے؟ بی جے پی کا کوئی فرد اس سوال کا جواب نہیں  دے سکے گاکیونکہ شرح نمو بیرونی عوامل کے ساتھ معیشت کے داخلی انتظام پر منحصر ہوتی ہے۔ تذبذب کو ایک طرف رکھ کر فرض کریں  کہ اگر مودی تیسری دفعہ حکومت بنانے میں  کامیاب ہو جاتے ہیں  اور ان کے تیسرے دورحکومت میں  جی ڈی پی۸؍  فیصد فی سال کی شرح سے ترقی کرے، تب بھی ہندوستان کی جی ڈی پی کا ۲۰۲۹ء تک ۵؍ کھرب ڈالر کے ہندسہ تک پہنچنا مشکل ہے۔ اس کے باوجود فرض کرتے ہیں  کہ ملک کی معیشت ۲۹۔۲۰۲۸ء میں  ۵؍ کھرب ڈالر کا ہدف حاصل کرلے گی لیکن کیا اس کی بدولت ہندوستان ’ترقی یافتہ‘ کہلائے گا؟ ۲۹۔۲۰۲۸ء میں  ۵؍ کھرب ڈالر کی معیشت میں  ۱۵۰؍ کروڑ کی آبادی کی فی کس آمدنی ۳؍ہزار ۳۳۳؍ ڈالر ہوگی جس سے ملک کو کم درمیانی آمدنی والی معیشتوں  کے زمرے میں  رکھا جائے گا۔ فی کس آمدنی کی بنا پر پوری دنیامیں  ہندوستان ۱۴۰؍ ویں  مقام پر ہے۔ ۲۹۔۲۰۲۸ء تک درجہ بندی میں  ۵؍ یا ۱۰؍ مقامات کی بہتری آ سکتی ہے۔ اتنی مثالیں  دے کر سمجھانے کا ایک ہی مقصد ہے کہ `تیزی سے بڑھتی معیشت، `دنیا کی پانچویں  بڑی معیشت یا ۵؍ کھرب ڈالر کی معیشت جیسے پرجوش نعروں  کو حقیقت کا آئینہ دکھایا جائے اور ان سے جڑے جنون کا علاج کیاجائے۔ یہ نعرے اتنے کھوکھلے ہیں  کہ ان میں  کوئی کشش نہیں  ہے اور وزیراعظم کو ان نعروں  سے جی نہیں  بہلانا چاہئے۔
 اس تناظر میں  کئی ایسے سوالات ہیں  جو آئندہ انتخابات میں  بحث کا موضوع بن سکتے ہیں ۔ کثیر جہتی غربت، ملک کی شناخت پر ایک دھبہ کی مانند ہے۔ ۲۲؍ کروڑ لوگ خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ۔ ان کی غربت کب دور ہوگی؟اقوام متحدہ کے ادارہ ڈیولپمنٹ پروگرام کے مطابق ۲۰۰۵ء سے ۲۰۱۵ء کے دوران ۲۷؍ کروڑ لوگوں  کو غربت سے نکالا گیا۔ دیگر ۲۲؍ کروڑ عوام کو غربت سے کب نکالا جائے گا؟ بے روزگاری کی موجودہ شرح ۸ء۷؍ فیصد ہے جس کی وجہ سے لاکھوں  زندگیاں  برباد ہورہی ہیں ، بہترین تعلیم یافتہ نوجوان اور نیم ہنر مند کارکن ہجرت کرنے پر مجبور ہیں  اور جرائم میں  اضافہ ہورہا ہے۔ ان پی جی اور پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈرز کو مناسب روزگار کب ملے گا جو روزگار کی عدم موجودگی میں  چوکیدار اور ریلوے میں  گینگ مین کے معمولی عہدوں  کیلئے درخواست دینے پر مجبور ہیں ؟ روزگار یافتہ افراد کی شرح ۵۰؍ یا ۶۰؍ فیصد سے کب بڑھے گی؟ ملازمتوں  میں  خواتین کی شراکت ۲۵؍ فیصد سے زیادہ کب ہوگی؟ بے قاعدہ مزدوروں  کی نجی کھپت کب بڑھے گی؟ ملک کے غریب عوام اپنے لئے اناج خریدنے کے کب قابل ہوں گے؟ مزدوروں  کی اجرتوں  میں  جمود کب ختم ہوگا اور ان کی اجرت میں  اضافہ کب ہوگا؟بے روزگاری اور مہنگائی عوام کے سب سے بڑے مسائل ہیں ۔لیکن مجھے یاد نہیں  آتا کہ وزیراعظم نے آخری دفعہ کب ان سلگتے موضوعات پر بات کی تھی۔ مجھے یاد نہیں  آتا کہ وزیراعظم نے چین کی سرحد پر دراندازی، منی پور تشدد، سیاسی لیڈروں  کی پارٹی بدلنے کے بڑھتے واقعات، سیاسی جماعتوں  میں  تقسیم، شہریوں  کے حق رازداری، جبری اخلاقی قانونیت اور بلڈوزر کے ذریعہ انصاف فراہمی کے موضوعات پر کبھی بات کی ہو۔ سیاسی جماعتوں  نے ان مسائل پر لگاتار آواز اٹھانا چاہئے اور وزیراعظم کو ان عوام مرکوز موضوعات پر اپنی ’سوچی سمجھی‘ خاموشی کو توڑنے پر مجبور کرنا چاہئے۔ وزیراعظم کو ان مسائل پر بات کرنی ہی ہوگی کیونکہ ہم جانتے ہیں  کہ پوری بی جے پی میں  وہی سب سے اہم چہرہ ہیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK