قومی انتخابی کمیشن نےگزشتہ دنوں پریس کانفرنس کی جس میں چیف الیکشن کمشنر گیانیشور کمار نے یہ دعویٰ کیا کہ ریاست میں صاف وشفاف ماحول میں انتخاب کرانے کی پوری تیاری کرلی گئی ہے۔
EPAPER
Updated: October 09, 2025, 12:42 PM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai
قومی انتخابی کمیشن نےگزشتہ دنوں پریس کانفرنس کی جس میں چیف الیکشن کمشنر گیانیشور کمار نے یہ دعویٰ کیا کہ ریاست میں صاف وشفاف ماحول میں انتخاب کرانے کی پوری تیاری کرلی گئی ہے۔
بہار اسمبلی کے انتخابی عمل کی تاریخ کا اعلامیہ جاری ہو گیا ہے اور اس بار دو مرحلوں میں پولنگ ہوگی۔ ۶؍ نومبر اور ۱۱؍ نومبر کو اور ووٹوں کی گنتی۱۴؍ کو ہوگی۔ قومی انتخابی کمیشن نے اس انتخاب کی مکمل تیاری کا جائزہ لینے کیلئے گزشتہ دنوں ریاست کے اعلیٰ حکام اور مختلف سیاسی جماعتوں سے گفت وشنید کی اور حسبِ روایت پریس کانفرنس بھی کی جس میں چیف الیکشن کمشنر گیانیشور کمار نے یہ دعویٰ کیا کہ ریاست میں صاف وشفاف ماحول میں انتخاب کرانے کی پوری تیاری کرلی گئی ہے۔ انہوں نے متنازع خصوصی ووٹر نظر ثانی مہم یعنی ایس آئی آر عمل کی کامیابی پر اظہار اطمینان ظاہر کیا اور انہوں نے اس کیلئے بوتھ لیول آفیسر (بی ایل او)کا شکریہ بھی ادا کیا۔ جب کہ تلخ سچائی یہ ہے کہ ریاست میں ایس آئی آر کے آغاز سے لے کر ووٹر لسٹ کی آخری سطر جاری کرنے تک کے عمل پر طرح طرح کے مبینہ الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔ بالخصوص دلت، غریب اور مسلم اقلیت طبقے کے ووٹوں کی تخفیف پر سوالیہ نشان لگتا رہاہے اور اب جب کہ فائنل ووٹر لسٹ جاری کردیا گیاہے تب بھی لاکھوں ایسے ووٹر ہیں جن کے نام وپتہ میں غلطیاں ہیں اور ہزاروں ایسے ہیں جن کے نام شامل نہیں ہیں۔ البتہ انتخابی کمشنر نے یہ اطلاع ضرور دی کہ پرچہ نامزدگی کے دس دنوں پہلے تک اگر کسی کا نام ووٹر لسٹ میں شامل نہیں ہے تو اس کیلئے وہ درخواست دے سکتے ہیں اور ضلع انتخابی آفیسر اس کو شامل کریں گے۔ واضح رہے کہ ریاست میں ۲۴۳؍ سیٹوں والی اسمبلی کا انتخاب ہونا ہے اور اس کیلئے ۹۰؍ ؍ ہزار سے زائد پولنگ بوتھ بنائے گئے ہیں۔ یوں تو الیکشن کمشنر نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انتخابی عمل سے متعلقہ سترہ ایسے نئے تجربے کئے جا رہے ہیں جو اب پورے ملک میں نافذ ہوگا۔ مثلاً اب کسی بھی بوتھ ر ۱۲۰۰؍ سے زائد ووٹر نہیں ہوں گے جب کہ پہلے ۱۵۰۰؍ سے ۱۷۰۰؍ و وٹر ہوتے تھے۔ اسی طرح اب سبھی بوتھوں پر ویب کاسٹنگ ہوگی جب کہ پہلے ۵۰؍ سے ۶۰؍ فیصد تک ہوتی تھی۔ انتخابی کمیشن کے فیصلے کے مطابق اب ووٹر اپنے ساتھ پولنگ بوتھ کی قطار میں بھی اپنا موبائل فون لے جا سکیں گے اور ہر بوتھ پر ووٹر ڈالنے کی مشین پر جانے سے پہلے ووٹر اپنے موبائل کو باہر رکھ کر جائیں گے اور واپسی میں وہ اپنا موبائل لیں گے۔ غرض کہ ووٹروں کی سہولت کیلئے کئی طرح کے نئے تجربے کئے جا رہے ہیں ۔ پریس کانفرنس میں کئی صحافیوں کے ذریعہ انتخابی کمشنر سے یہ پوچھا گیا کہ بہار میں غیر ملکی ووٹروں کے نام پر بہت سیاست ہو رہی ہے تو اب جب کہ فائنل ووٹر لسٹ جاری ہوگئی تو کمیشن یہ وضاحت کیوں نہیں کر رہی ہے کہ آخر کتنے غیر ملکی ووٹر وں کی شناخت ہو سکی۔ لیکن انتخابی کمشنر نے نہ صرف ان سوالوں کا جواب نہیں دیا بلکہ ایہام گوئی سے کام لیا اور انتخابی کمشنر نے صحافیوں کے بارہا اصرار پر بھی خاموشی اختیار کرکے یہ ثابت کردیا کہ وہ کہیں نہ کہیں کسی سیاسی ایجنڈے کا حصہ ہیں ۔ کیونکہ ریاست میں ان دنوں ایک مخصوص سیاسی جماعت کے ذریعہ ’’گھُس پیٹھئے ووٹر‘‘ کی سیاست کو پروان چڑھایا جا رہاہے اور گمرہی پھیلائی جا رہی ہے۔ ایسے حالات میں الیکشن کمشنر کی یہ آئینی ذمہ داری تھی کہ وہ اعداد وشمار پیش کرکے اس کی وضاحت کرتے کہ ریاست میں آخر کتنے باہری ووٹر کی شناخت ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ بہار اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور آر جے ڈی کی طرف سے وزیر اعلیٰ کے عہدہ کے دعوے دار تیجسوی یادو نے بھی انتخابی کمیشن سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ یہ وضاحت کرے کہ آخر کتنے غیر ملکی ووٹروں کے نام کاٹے گئے ہیں۔ اس سے قبل انڈیا اتحاد کی طرف سے ریاست گیر دورہ کے درمیان کانگریس لیڈر اور لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے بھی عوام کو آگاہ کیا تھا کہ ریاست میں ایس آئی آر کے نام پر ایک خاص طبقے کے ووٹروں کے نام حذف کئے جا رہے ہیں ساتھ ہی ساتھ غیر ملکی ووٹر کا خوف پیدا کیا جا رہاہے۔ اس لئے ان کا بھی مطالبہ تھا کہ انتخابی کمیشن اس کی وضاحت کرے کہ ریاست میں کتنے غیر ملکی ووٹر ہیں۔ لیکن انتخابی کمشنر نے پریس کانفریس میں اس سوال پر خاموشی اختیار کرکے یہ ثابت کردیا کہ وہ غیر ملکی ووٹر کو کسی خاص سیاسی جماعت کیلئے انتخابی حربہ بنانے کی اجازت دے رہے ہیں۔ یہ حسنِ اتفاق ہے کہ جس دن الیکشن کمیشن بہار میں ریاستی انتظامیہ کے ساتھ اعلیٰ سطحی میٹنگ کر رہے تھے اور پھر پریس کانفرنس کے ذریعہ ووٹر نظر ثانی مہم کی کامیابی کا سہرا اپنے سر لے رہے تھے ٹھیک اسی وقت نامور سیاسی مبصر یوگیندر یادوپٹنہ میں مرحومہ پروین امان اللہ میموریل لیکچر دے رہے تھے جس میں ریاست کے مختلف حصوں سے بڑی تعداد میں ذی علم افرادنے شرکت کی تھی اس جلسہ میں یوگیندر یادو نے تمام حاضرین کو اس حقیقت سے آگاہ کیا کہ ریاست میں جس طرح انتخابی کمیشن نے ایس آئی آر کے نام پر دلت، غریب اور اقلیت طبقے کے لاکھوں افراد کو حقِ جمہوریت سے محروم کیا ہے وہ ہندوستان کی تاریخ کا یہ پہلا اندوہناک واقعہ ہے۔ اس لئے بہار کے عوام کو اپنے آئینی حقوق کے تحفظ کی جنگ جاری رکھنی ہوگی کہ جس طرح دوسری ریاستوں میں انتخابی کمیشن نے اپنے آمرانہ فیصلے اور ایک خاص سیاسی جماعت کے تئیں یکطرفہ فیصلہ کرکے جمہوریت کی جڑیں کمزور کی ہیں وہ جگ ظاہر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اب پوری ریاست کے گلی کوچے میں یہ چہ می گوئیاں ہو رہی ہیں کہ ای وی ایم کے ذریعہ ووٹ چوری ہو رہی ہے اور جس کی وجہ سے کسی خاص جماعت کو یقین سے زیادہ سیٹیں مل رہی ہیں۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ جب کسی جمہوری ملک میں حق رائے دہندگی کے طریقہ کار پر ہی شک وشبہ پیدا ہو جائے تو پھر جمہوریت کے استحکام کے تئیں فکر مندی لازمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری ریاست میں ایک طرف تمام اپوزیشن جماعتیں اب بھی الیکشن کمیشن کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں تودوسری طرف عوام میں بھی ایک وسوسہ کا ماحول ہے جس کے مضر اثرات بھی نمایاں ہوں گے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ انتخابی کمیشن بہار کے عوام کے ذہن ودل میں جو وسوسے ہیں اسے انتخابی عمل کے دوران اپنے صاف وشفاف اور جمہوری عمل سے ختم کرنے کی کوشش کرے، اگر دیگر ریاستوں کی طرح بہار میں بھی ووٹ چوری جیسا معاملہ طول پکڑا تو وہ ایک جمہوری ملک کیلئے ایک بڑا خطرہ ہے۔