Inquilab Logo

’’زندگی میں کچھ حاصل کرنا ہے توکمفرٹ زون سے باہر نکلئے، اپنے وقت اور اپنی نیند کی قربانی دیجئے‘‘

Updated: February 25, 2024, 5:29 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

سرفراز خان اور مشیر خان کے والد نوشاد خان سےخصوصی گفتگو ،انہوں نے کہا کہ سخت محنت ، مستقل مزاجی، خود پر یقین اور پہاڑ جیسا صبر و حوصلہ رکھنے سے ہی محنت کا بہترین پھل ملتا ہے اور چیزیں خود بخود آپ کے حق میں ہوجاتی ہیں۔

Nowshad Khan and Sarfaraz Khan share not only a father and son relationship but also a coach and a disciple. Photo: INN
نوشاد خان اور سرفراز خان میں صرف باپ اور بیٹے ہی کا نہیں بلکہ ایک کوچ اور ایک شاگرد کا بھی رشتہ ہے۔ تصویر : آئی این این

صرف ۶؍ سال کی عمر میں کرکٹ کا سفر شروع کرنے والے سرفراز خان نے گزشتہ دنوں جب راجکوٹ میں ٹیم انڈیا کی ٹیسٹ کیپ پہنی تو نہ صرف انہوں نے اپنا خواب پورا کیا  اس  سے کہیں زیادہ ان کے والد اور کوچ نوشاد خان کا اپنے بیٹے کو ہندوستان کی نمائندگی کرتے ہوئے دیکھنے کا خواب پورا ہوا۔ ملکوں اور اور زمانوں کی تاریخ میں بہت کم باپ بیٹے ایسے رہے ہیںجو ایک دوسرے کے خوابوں کو پورا کرنے کیلئے جی جان لگادیتے ہیں اور تاریخ میں اپنا نام ہمیشہ کیلئے سنہری حرفوں میں لکھوالیتے ہیں۔ سرفراز اور ان کے والد نوشاد خان کی جوڑی بھی ایسی ہی ایک جوڑی ہے۔ جہاں سرفراز نے سخت محنت کو اپنا شعار بنایا، مستقل مزاجی کو اپنا اوڑھنا بچھونا قرار دیا اورہمیشہ اپنے ’کمفرٹ زون‘ سے باہر نکل کر مظاہرہ کرنے کواپنی عادت بنالیا وہیں سرفراز میں یہ تمام عادات کوٹ کوٹ کر بھرنے کا کریڈٹ ہم ان کے والد نوشاد خان کو دے سکتے ہیں جو خود بھی بائیں ہاتھ کے بلے باز رہے ہیں لیکن ان کا رنجی کھیلنے اور پھریہاں سے ٹیم انڈیا کے دروازے پر دستک دینے کا خواب پورا نہیں ہو سکا مگر انہوں نے اپنے بیٹے سے یہ کام کروایا۔ نوشاد خودبھی کوچنگ کرتےہیں۔ انہوںنے تیز گیند باز کامران خان (جنہوں نے آئی پی ایل کی تاریخ کا پہلا سپر اوور پھینکا تھا ) اور اسپنر اقبال عبداللہ کو بھی ٹریننگ دی ہے۔ نوشاد خود کرلا میں مقیم ہیں جبکہ نوجوان کرکٹرس کی کوچنگ کیلئے وہ روزانہ آزاد میدان جاتے ہیں۔ 
 راجکوٹ میں جب سرفراز خان کو ٹیسٹ کیپ ملی تو وہ سب سے پہلے دوڑ کر اپنے والد کے گلے ملے اور ان کا شکریہ اداکیا۔ہمارے نوجوان ، سرفراز کو کرکٹ میں اپنا آئیڈیل قرار دے رہے ہیں اور ان کے جیسی محنت کرنے کیلئے بھی تیار ہیں لیکن سرفراز خود اپنے والد کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہیں۔ ہم نے  اس تعلق سے سرفراز کے والد نوشاد خان سے گفتگو کی۔  
سب سے پہلے تو سرفراز کے  ڈیبیو اور شاندار مظاہرہ پر  مبارکباد، پہلا سوال یہی ہو گا کہ اب تک کا سفر کیسا رہا ؟
بہت شکریہ ! میرے لئے یہ تو خواب کے پورے ہونے جیسا ہے۔ سرفرازصرف ۶؍ سال کا تھا جب میں نے اس کی کرکٹ ٹریننگ شروع کی تھی۔ اس عمر میں بچوں کو درست طریقے سے بیٹ پکڑنا بھی نہیں آتا لیکن سرفراز نے تبھی یہ ظاہر کردیا تھا کہ وہ  چھوٹی اننگز کھیلنے کے لئے پیدا نہیں ہوا ہے۔ اس کے بعد ٹریننگ مسلسل جاری رہی  اور ہر گزرتے دن کے ساتھ سرفراز نےاپنے بہتر سے بہتر ہونے کا ثبوت پیش کیا۔کچھ برس میں ہی اس نے گھریلو میچوں میں رنوں کا انبار لگانا شروع کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھئے: الیکٹورل بونڈس رَد کرنے کا فیصلہ مودی حکومت کی اخلاقی شکست ہے

 لیکن جب سرفراز کو گھریلو کرکٹ میں رن بنانے کے باوجود نظر انداز کیا جاتا تھا تو کیسا لگتا تھا ؟
تھوڑی بہت مایوسی ضرور ہوتی تھی لیکن وہ وقتی اثر تھا کیوں کہ مجھے معلوم تھا کہ سرفراز پر کتنی محنت ہوئی ہے اور وہ خود کس جذبہ کے تحت کھیلتا ہے ایسے میں اسے بہت دنوں تک نظر انداز کرنا مشکل تھا ۔ یہی ہوا بھی جب اسے ٹیم میں شامل کیا گیا اور پھر راجکوٹ ٹیسٹ میں کھیلنے کا موقع دیا گیا تو میرے تمام خوابوں کی تعبیر کچھ ہی لمحوں میں زمین پر اترتی ہوئی محسوس ہوئی ۔ سرفراز پر کی گئی محنت کا  صلہ  مجھے ملتا ہوا نظر آیا تو لگا کہ ابھی کل ہی میں نے اس بچے کو اس اسٹیج کیلئے  تیار کرنا شروع کیا تھا اور آج یہ اپنے عروج کی طرف  رواں دواں ہے۔میچ میں آکاش چوپڑہ کی دعوت پر جب میں کمنٹری باکس میں پہنچا تو انہوں نے بھی یہی سوال کیا تھا کہ  آپ کے بیٹے کو کافی وقت لگ گیا موقع ملنے میں ۔ اس وقت میرا جواب تھا کہ ’’رات کو وقت چاہئے گزرنے کے لئے ، سورج میری مرضی سے نہیں نکلے گا۔ ‘‘
اس کا یہی مطلب ہوا کہ کبھی امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے  اور مایوس بھی نہیں ہونا چاہئے
 جی بالکل ،  سرفراز کا معاملہ ثابت کرتا ہے کہ امید ہمیشہ  قائم رہنا چاہئے ۔ `پہلے جب میں سرفراز کے  لئے سخت محنت کر رہا تھا تو سوچتا تھا کہ میرا خواب پورا کیوں نہیں ہوتا، کیا میرے بچے ٹیم انڈیا کے لئے کبھی کھیل سکیں گے؟ لیکن جب اسے ٹیسٹ کیپ ملی تو وہ تمام اندیشے دور ہو گئے اور یہ احساس مجھے سرشار کرگیا کہ سخت محنت اورمستقل مزاجی  کے ساتھ ساتھ مثبت امید ہمیشہ آپ کا شعار ہونا چاہئے۔
آپ کو سخت محنت کا صلہ مل رہا ہے، صرف سرفراز ہی نہیں بلکہ مشیر بھی ٹیم انڈیا کیلئے تیار ہو  رہےہیں؟
 خدائے واحد و برتر کا شکر ہے کہ اس نے اتنے برسوں کی محنت کا صلہ مجھے عطا کرنا شروع کیا ہے۔سرفرازتو ٹیم انڈیا تک پہنچ گیا ہے اور امید ہے کہ وہ اپنا بہترین مظاہرہ یہاں بھی جاری رکھے گا جبکہ مشیر نے تو گزشتہ کچھ ہفتوں سے کرکٹ کے حلقوں میں ہلچل مچارکھی ہےکیوں کہ جہاں اس نے انڈر ۱۹؍ ورلڈ کپ میں بہترین مظاہرہ کیا اور کئی ریکارڈ قائم کئے وہیں اب اس نے رنجی ٹرافی میں ڈیبیو کرتے ہوئے سنچری  سے شروعات کردی ہے۔امید ہےکہ وہ بھی ٹیم انڈیا کے دروازے تک پہنچے گا۔
سرفرازکیلئے کرکٹ کی تیاری کا آپ کا شیڈول کیا تھا ؟
 سرفرا ز ہی نہیں اس کے ساتھ مشیرکے لئے بھی  میرا شیڈول یہی تھا کہ دونوں صبح ۵؍ بجے اٹھ کر میدان پر پریکٹس کے لئے پہنچ جائیں ۔ چاہے وہ کوئی بھی موسم ہو ، کیسے بھی حالات ہوں صبح ۵؍ بجے گرائونڈ پر پہنچنا ہی ہے۔ ان دونوں کو گرائونڈ پر پہنچانے کے لئے میں ۴؍ بجے سے اٹھ جایا کرتا ہوں۔ ہمارا یہ شیڈول گزشتہ  ۱۸؍ سے ۲۰؍ سال سے  ایسا ہی  چل رہا ہے اور جس پر قائم رہنے کے لئے ہم نے بہت قربانیاں دیں، دوستوں اور یاروں کی محفل سے دور ہو گئے، رشتہ داروں کی شادی بیاہ میں شرکت بھی بہت کم کردی  اور دیگر تقریبات سے بھی دور ہی  رہے ۔ دھیان صرف کرکٹ پر لگایا۔ بہتر سے بہتر ٹریننگ کی کوشش کی ۔ ممبئی میں ہر مانسون سیزن میں تقریباً ۴؍ مہینے تک کرکٹ نہیں ہوتا ہے۔ کھلاڑی اس وقت ’پری سیزن فٹنس‘ ٹریننگ کر تے ہیں لیکن میں اس دوران اپنے بیٹوں کو لے کر  اتر پردیش میں اپنے آبائی وطن چلاجاتا تھا جہاں ہم   اپنی ٹریننگ  جاری رکھتے تھے۔ اسی طرح  ایک دن میں ۱۲؍ سے ۱۵؍ گھنٹے  پریکٹس کی جس کا صلہ ہمیں اب مل رہا ہے۔
 اتنے سخت شیڈول میں جہاں آپ اور آپ کے بیٹے ہیں، آپ کی اہلیہ کا کیا رول رہا ؟
 جس طرح سے میں اپنے بچوں کیلئے تن من دھن سے پوری طرح وقف ہوں اسی طرح سے میری اہلیہ کا بھی رول ہے۔ وہ جہاں ہمارے کھانے پینے اور دیگر چیزوں کا دھیان رکھنے کی ذمہ دار ہیں وہیں سرفراز اور مشیر کو نفسیاتی اور جذباتی  طور پر مضبوط بنانے میں بھی ان کو سب سے زیادہ کریڈٹ دیا جانا چاہئے۔جس طرح سے میں صبح ۴؍ بجے اٹھ جاتا ہوں اسی طرح وہ بھی میرے ساتھ ہی اٹھتی ہیں اور بچوں کا ڈبہ تیار کرنے سے لے کر ان کی دیگر تمام تیاریاں کرنے کا کام وہی کرتی ہیں۔ میں تو میدان پر ان کا کوچ ہوں لیکن گھر میں سرفراز اور مشیر کیلئے ان کی والدہ ہی کوچ ہیں۔
نئے کھلاڑیوں کیلئے کوئی مشورہ ؟
 یہی کہنا چاہوں گا کہ وہ سخت محنت کریں، خود پر یقین رکھیں اور سلیکٹرس کی جانب سے بار بار نظر انداز  کئے جانے کے باوجود پُرسکون رہیں۔ `جب وقت آئے گاچیزیں اپنے آپ درست ہونے لگیں گی  ۔آپ کا کام صرف محنت کرنا، صبر کرنا اور امیدکا دامن نہ چھوڑنا ہے باقی سب اوپر والے پر چھوڑ دیں ۔  میرا یہ مشورہ بھی ہے کہ کبھی اپنے کمفرٹ زون میں رہ کر کچھ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو مایوسی ہی ہاتھ لگے گی۔ کمفرٹ زون سے باہر نکلئے،  اپنے وقت ، اپنے آرام ، اپنی نیند، سہل پسندی  اور اپنے سرمائے کی قربانی دیجئے تب کہیں جاکر کچھ حاصل ہو گا۔ 
آخری سوال ، کیا آپ نے آنند مہندرا کا تحفہ قبول کرلیا ؟
  جی ، ان کے پرسنل اسسٹنٹ نے مجھے فون کیا تھا اور مہندرا ’تھار ‘ گاڑی قبول کرنے کی درخواست کی تھی۔ ساتھ ہی پوچھا تھا کہ اگر آپ کو اور کچھ بھی چاہئے تو بلاجھجک آپ کہہ سکتے ہیں۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا  اور کہا کہ خدا نے مجھے بہت کچھ نواز دیا ہے۔ آنند مہندرا صاحب کی پیشکش کا شکریہ کہ انہوں نے ہمیں یاد رکھا۔میں ان کی جانب سے دی گئی یہ گاڑی قبول کررہا ہوں اور یہی میرے لئے بہت ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK