Inquilab Logo

بہار میں این ڈی اے اور ’’انڈیا‘‘ میں سیدھی جنگ

Updated: April 04, 2024, 10:49 AM IST | Dr Mushtaq Ahmed

بہار میں پارلیمانی انتخابات کی سرگرمیاں شباب پر ہیں، ہر ایک اتحاد اپنے اپنے امیدواروں کیلئے جمہوری طریقہ کار سے انتخابی مہم چلا رہا ہے۔

Bihar Chief Minister Nitish Kumar. Photo: INN
بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار۔ تصویر: آئی این این

بہار میں پارلیمانی انتخابات کی سیٹوں کی تقسیم کو لیکر گزشتہ کئی مہینوں سے سیاسی گلیوں میں تذبذب کا ماحول تھا لیکن اب جبکہ قومی جمہوری اتحاد اور ’’انڈیا‘‘ اتحاد کے درمیان سیٹوں کی تقسیم کا حتمی فیصلہ ہوچکا ہے اور اس تقسیم کے مطابق ریاست کی ۴۰؍ سیٹوں پر کون سی سیاسی جماعت کے امیدوار ہوں گے اس کے نام کا بھی اعلامیہ ہو چکا ہے تو اب یہ بات بالکل صاف ہوگئی ہے کہ اس بار کے پارلیمانی انتخاب میں قومی جمہوری اتحاد اور انڈیا اتحاد کے درمیان سیدھی سیاسی جنگ کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ واضح ہو کہ قومی جمہوری اتحاد بہار میں جنتا دل متحدہ جس کی قیادت نتیش کمار کر رہے ہیں، لوک جن شکتی پارٹی رام ولاس جس کے سپریمو چراغ پاسوان ہیں اور ہندوستانی عوام مورچہ جس کی قیادت سابق وزیر اعلیٰ جیتن رام مانجھی کے ہاتھوں میں ہے، ان کے ساتھ ساتھ اوپندر کشواہا کی پارٹی کے درمیان سیٹوں کی تقسیم پہلے ہی ہوچکی ہے کہ ریاست میں ۱۷؍ سیٹوں پر بی جے پی انتخاب لڑے گی اور ۱۶؍ سیٹوں پر جنتا دل متحدہ کے امیدوار ہوں گے۔ جبکہ چراغ پاسوان کو ۵؍ سیٹیں دی گئی ہیں اور جیتن رام مانجھی اور اوپندر کشواہا کو ایک ایک سیٹ دی گئی ہے۔ انڈیا اتحاد میں لالو پرساد یادو کی قیادت والی راشٹریہ جنتا دل کو ۲۶؍ سیٹیں ملی ہیں اور کانگریس کے حصے میں ۹؍ سیٹیں آئی ہیں جبکہ ۵؍ سیٹیں بایاں محاذ کو دی گئی ہیں۔ غرض کہ ان دونوں بڑے اتحاد نے اپنی سیٹوں کی تقسیم کے ساتھ ساتھ امیدواروں کے ناموں کا بھی اعلان کردیا ہے۔ بی جے پی اور جنتا دل متحدہ نے تو ایک ہفتہ پہلے ہی اپنے امیدواروں کے نام کی فہرست جاری کردی تھی دریں اثناء چراغ پاسوان نے بھی اپنے ۵؍ امیدوارو ں کے نام جاری کردیئے ہیں۔ چراغ پاسوان خود اپنے والد آنجہانی رام ولاس پاسوان کی سیٹ حاجی پور سے انتخاب لڑیں گے جبکہ جموئی ریزرو سیٹ سے انہوں نے اپنے بہنوئی کو امیدوار بنایا ہے۔ لوک جن شکتی کے واحد مسلم ممبر پارلیمنٹ چودھری محبوب علی قیصر جو کھگڑیا سے ممبر پارلیمنٹ تھے ان کا ٹکٹ کاٹ دیا گیا ہے۔ غرض کہ اب تک کے اعلانیہ کے مطابق قومی جمہوری اتحاد میں صرف ایک مسلم امیدوار جنتا دل متحدہ کے ٹکٹ پر کشن گنج سے انتخابی میدان میں ہوں گے۔ جہاں تک انڈیا اتحاد کا سوال ہے تو کانگریس کو جو ۹ ؍ سیٹیں ملی ہیں ان میں کشن گنج سے محمد جاوید اور کٹیہار سے طارق انور مسلم امیدوار کھڑے کئے گئے ہیں۔ راشٹریہ جنتا دل چونکہ مرحلہ وار اپنے امیدواروں کے نام جاری کر رہی ہے اس لئے اب تک جن ناموں کا اعلان ہوا ہے ان میں مدھوبنی پارلیامانی حلقہ سے ریاست بہار کے ایک قد آور مسلم لیڈر سابق مرکزی وزیر علی اشرف فاطمی کو امیدوار بنایا گیاہے۔ واضح ہو کہ فاطمی حال ہی میں جنتا دل متحدہ سے استعفیٰ دے کر پھر راشٹریہ جنتا دل میں شامل ہوئے ہیں۔ اگرچہ فاطمی راشٹریہ جنتا دل کے پرانے لیڈر ہیں لیکن گزشتہ پارلیامانی انتخاب میں راشٹریہ جنتا دل کے ذریعہ ٹکٹ نہ دیئے جانے کی وجہ سے وہ ناراض ہو کر جنتا دل متحدہ میں شامل ہوئے تھے۔ 
بہار میں ۷؍ مرحلوں میں پارلیمانی انتخابات مکمل ہوں گے اس لئے راشٹریہ جنتا دل مرحلہ وار امیدواروں کے نام کا اعلان کر رہی ہے البتہ ریاست کی دو سیٹوں کو لے کر راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس کے درمیان اب بھی گفت و شنید جاری ہے۔ حال ہی میں سابق ممبر پارلیمنٹ راجیش رنجن عرف پپو یادو نے اپنی پارٹی جن ادھیکار پارٹی کا کانگریس میں انضمام کیا تھا اور وہ پورنیہ پارلیمانی حلقہ سے انتخاب لڑنا چاہتے تھے مگر پورنیہ سیٹ کانگریس کو نہیں دی گئی ہے بلکہ یہاں سے راشٹریہ جنتا دل نے اپنے امیدوار کا نام جاری کردیا ہے ایسی صورت میں پپو یادو نے اس سیٹ سے بطور آزاد امیدوار دوستانہ طورپر میدان میں اترنے کا اعلان کردیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو انڈیا اتحاد کے ووٹوں میں انتشار لازمی ہے۔ اسی طرح کانگریس بہار کے اورنگ آباد سیٹ پر اپنے ایک قد آور لیڈر نکھل کمار سنگھ جو سابق آئی پی ایس آفیسر رہے ہیں اور ممبر پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ یو پی اے حکومت میں کیرالہ کے گورنر بھی تھے اور سابق وزیر اعلیٰ بہار ستندر نرائن سنگھ کے صاحبزادے ہیں، کو امیدوار بنانا چاہتی تھی لیکن یہ سیٹ بھی راشٹریہ جنتا دل نے اپنے حصے میں لے لیا ہے جس کی وجہ سے اب بھی کانگریس کے سامنے ایک بڑا مسئلہ ہے کہ پورنیہ اور اورنگ آباد میں وہ کس طرح اپنی پوزیشن کو مستحکم رکھے۔ ریاست بہار میں سیمانچل کی چھ پارلیمانی سیٹیں یعنی کشن گنج، کٹیہار، پورنیہ، سپول، ارریہ اور مدھے پورہ بایں معنی غیر معمولی سیاسی اہمیت کی حامل ہیں کہ ان سیٹوں کا فیصلہ مسلم اقلیتوں کے ہاتھوں میں ہے کہ یہ علاقہ مسلم اکثریت کا ہے۔ مگر افسوسناک صورت یہ ہے کہ گزشتہ پارلیمانی انتخاب میں ان حلقوں میں مسلم اقلیت کے ووٹوں کے انتشا ر کی وجہ سے صرف کشن گنج سیٹ سے ہی مسلم امیدوار کانگریس کی ٹکٹ پر کامیاب ہو سکے تھے۔ ظاہر ہے کہ مسلم اقلیت حلقے کی وجہ سے بیشتر سیاسی پارٹیاں مسلم امیدواروں کو ہی کھڑا کرتی ہیں۔ اس بار بھی اب تک کے اعلانیہ کے مطابق کانگریس اور جنتا دل متحدہ دونوں نے مسلم امیدوار کھڑے کئے ہیں۔ کٹیہار میں بھی کانگریس نے مسلم امیدوار کو ٹکٹ دیا ہے۔ جبکہ راشٹریہ جنتا دل ارریہ میں بھی مسلم امیدوار کھڑا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ واضح ہو کہ سیمانچل میں گزشتہ پارلیمانی انتخاب میں اسدالدین اویسی کی پارٹی بھی فعال ہے اور اس پارلیمانی انتخاب میں بھی انہو ں نے اپنے امیدوار کھڑا کرنے کا اعلان کیاہے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ سیمانچل میں قومی جمہوری اتحاد اورانڈیا اتحاد کے درمیان سیدھی جنگ نہیں ہوگی کہ یہاں سہ رخی مقابلہ کے امکانات روشن ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سیمانچل جس پر پورے ملک کی نگاہ ٹکی رہتی ہے کہ ملک میں تقریباً ۸۰؍ مسلم اکثریت والے پارلیمانی سیٹوں میں ۶؍ سیٹیں سیمانچل کی بھی شامل ہیں۔ مختصر یہ کہ ریاست بہار میں جہاں پہلے مرحلہ میں پولنگ ہونی ہے ان کے امیدواروں نے پرچۂ نامزدگی داخل کردیا ہے اور دوسرے مرحلے کی پرچہ نامزدگی کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس لئے پارلیمانی انتخابات کی سرگرمیاں شباب پر ہیں، ہر ایک اتحاد اپنے اپنے امیدواروں کیلئے جمہوری طریقہ کار سے انتخابی مہم چلا رہا ہے۔ ۴؍ اپریل سے بی جے پی، کانگریس اور راشٹریہ جنتا دل کے سیاسی جلسوں کا پروگرام جاری کیا جا چکا ہے اور ہر ایک سیاسی جماعت اپنے بڑے لیڈروں کے سیاسی اجلاس میں زیادہ سے زیادہ بھیڑ دکھا کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں اس لئے گاؤں دیہات سے لے کر ریاست کی راجدھانی تک سیاسی پارہ اپنے شباب پر ہے۔ البتہ اس بار کا پارلیمانی انتخابات گزشتہ انتخابات سے قدرے مختلف ضرور ہے کہ انڈیا اتحاد اور قومی جمہوری اتحاد دونوں کے درمیان سیدھی سیاسی جنگ کی وجہ سے نہ صرف دلچسپ ہوگئی ہے بلکہ بہار کی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ کہنا نہ صرف قبل از وقت ہوگا بلکہ بہت مشکل بھی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK