Inquilab Logo

نیتن یاہو مظاہرین سے پریشان

Updated: February 17, 2023, 11:17 AM IST | Mumbai

ایسا ملک جو فلسطین کے محض چند شہریوں کے احتجاج کو برداشت نہیں کرپاتا اور اس خوف سے اپنا آپا کھو دیتا ہے

photo;INN
تصویر :آئی این این

ایسا ملک جو فلسطین کے محض چند شہریوں کے احتجاج کو برداشت نہیں کرپاتا اور اس خوف سے اپنا آپا کھو دیتا ہے کہ کہیں یہ حکومت ِاسرائیل کیلئے خطرہ نہ بن جائیں، اب اپنے ہی شہریوں سے پریشان بلکہ خوفزدہ ہے۔ نیتن یاہو کی حکومت فیصلہ نہیں کر پا رہی ہے کہ ان ہزاروں اسرائیلی مظاہرین سے کیسے نمٹے جو اسرائیل کے نام نہاد نظامِ انصاف میں نام نہاد اصلاحات کے خلاف سڑکوں پر اُتر آئے ہیں۔ نظام ِ انصاف میں تبدیلی کے مجوزہ اقدام کے خلاف مظاہرین سخت برہمی کے عالم میں اسرائیلی پارلیمنٹ کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ کس وقت کیا ہو۔ گزشتہ کئی ہفتوں کا یہی معمول رہا کہ پارلیمنٹ کے باہر ہزاروں مظاہرین نے نیتن یاہو کی کمزور حکومت کو للکارا۔ صورت حال ویسی ہی ہے جیسی اب سے چند ماہ پہلے سری لنکا کی تھی مگر وہاں جو غم و غصہ تھا اس کے اسباب معاشی تھے۔ اسرائیلی مظاہروں کا سبب دوسرا ہے۔ یہ معاشی نہیں ہے، ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ تل ابیب کے پاس معاشی مدد خود چل کر آتی ہے۔ امریکہ اس کا سب سے بڑا پشت پناہ ہے۔ مظاہروں کا سبب موجودہ حکومت ِ اسرائیل کے وزیر ِ انصاف یاریو لیو ِن کا پیش کردہ مسودۂ قانون ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے اختیارات کو محدود کیا جائے اور اسے یہ اختیار نہ ہو کہ پارلیمنٹ کے کسی فیصلے کو باطل قرار دے۔ اِس کے ججوں کی تقرری کے سلسلے میں بھی موجودہ حکومت تبدیلیاں چاہتی ہے۔ اسے یہ گوارا نہیں ہے کہ ججوں کی تقرری اب تک جس طرح ہوتی آئی ہے آئندہ بھی ویسے ہی ہو۔ یہ حکومت ججوں کی تقرری کے سلسلے میں اپنا عمل دخل چاہتی ہے لہٰذا مسودۂ قانون میں کہا گیا ہے کہ ججوں کی تقرری کرنے والی کمیٹی میں قانون سازوں یعنی حکومت کے لوگوں کی کثرت ہو۔ 
 ظاہر ہے کہ یہ اسرائیل کے عدالتی نظام کو حکومت کے کنٹرول میں لانے جیسا ہے اس لئے جو مظاہرین سڑکوں پر آئے اُن کی تعداد کم نہیں ہے۔ بعض خبروں میں ۸۰؍ ہزار اور بعض میں ایک لاکھ بتائی گئی ہے۔ مظاہرین کو تشویش ہے کہ اگر عدلیہ کی غیر جانبداری اور آزادی متاثر ہوئی تو قوانین کا من چاہا نفاذ ہوگا اور ملک میں دستور کی بالادستی ختم ہوجائیگی۔ اُن کی یہ تشویش عمومی ہے۔ اس میں خصوصیت کا عنصر بھی ہے کیونکہ نیتن یاہو کی قیادت میں حکمراں محاذ کئی پارٹیوں کا اتحاد ہے۔ اس میں ایسی پارٹیوں کے نمائندے ہیں جو شدت پسندانہ نظریات کے حامل ہیں۔ یہ لوگ نظریاتی اعتبار سے کتنے شدید ہوں گے اس کا اندازہ لگانے کیلئے یہ سمجھ لینا ہی کافی ہے کہ اب سے پہلے ، ہر دور میں، جو لوگ حکومت میں رہے وہ نظریات کے شدید ہی تھے مگر مظاہرین انہیں یعنی موجودہ ارکان کو شدید کہہ رہے ہیں یعنی ان کی شدت پسندی بھی انتہا درجے کی ہے۔ نیتن یاہو خود اسی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وزیر انصاف لیو ِ ن کا دعویٰ ہے کہ عدلیہ میں اصلاحات عوام کی خواہش اور اصرار پر کی جارہی ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو پارلیمنٹ کے باہر اتنی بھیڑ کیوں اُمڈتی اور بار بار کیوں اُمڈتی جو مسلسل احتجاج کررہی ہے؟
 نیتن یاہو کے ساتھ ایک اور مسئلہ ہے۔ وہ خود بدعنوانی کے شدید الزامات کے نرغے میں ہیں۔ اُنہیں ڈر ہے کہ اگر کوئی راستہ نہیں نکالا گیا تو وہ دن بھی آسکتا ہے جب ایک بار پھر اُن کی حیثیت مجرم کی ہو۔ اِس ڈر کی اُس وقت توثیق ہوئی تھی جب الیکشن کے دوران نیتن یاہو کے اتحادیوں نے کہا تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ نتین یاہو کے جرائم کا قانونی جواز تلاش کرلیں گے۔ یہ وہی کھیل ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK