Updated: May 06, 2025, 10:03 PM IST
| Gaza Strip
روزانہ نھوکے فلسطینی اپنے اور اپنے بچوں کیلئے غذاء حاصل کرنے کیلئے میلوں دور کا سفر طے کرتے ہیں۔ اسرائیل کے الرشید کوسٹل روڈ پر گاڑیوں کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کرنے کے بعد شمالی غزہ سے جنوبی غزہ جانے کیلئے کوسٹل روڈ ہی فلسطینیوں کیلئے واحد راستہ ہے جس کیلئے وہ مشکل سے دوچار سفر طے کرتے ہیں۔
اب تک تقریباً ۵۷؍ فلسطینی بھکمری کی وجہ سے اپنی جانیں گنواچکے ہیں۔ تصویر: ایکس
کڑی اسرائیلی ناکہ بندی کے دوران غزہ کے فلسطینی شہریوں کو روزانہ کی بنیاد اپنے اور اپنے بچوں کیلئے خوراک حاصل کرنے کیلئے میلو ں دور کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ ترکی کی خبر رساں ایجنسی انادولو کے ایک کرسپونڈینٹ نے غذاء حاصل کرنے کیلئے روزانہ کی بنیاد پر شمالی غزہ کے فلسطینی شہریوں کی تکلیفوں کواپنے کیمرے میں قید کیا ہے۔
اسرائیلی فوج کے الرشید کوسٹل روڈ پر گاڑیوں اور ٹرکوں کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کرنے کے بعد فلسطینی شہری اپنے مشکل سفر کیلئے روزانہ کی بنیاد پر غذاء حاصل کرنے کیلئے تین پہیوں پر مبنی گاڑی (آٹورکشا) یا دیگر گاڑیوں کا سہارا لیتے ہیں۔ صلاح الدین اسٹریٹ کے بند ہونے کے بعد الرشید کوسٹل روڈ فلسطینیوں کیلئے شمالی غزہ سے جنوبی غزہ جانے کیلئے واحد راستہ تھا۔
مجید دبور، جو ٹک ٹک ڈرائیور ہیں، روزانہ وسطی غزہ کے نصرت پناہ گزین خیمے میں رہائش پذیر اپنے رشتہ داروں سے آٹا حاصل کرنے کیلئے ۱۵؍ منٹ کے سفرکو ۲؍ گھنٹے میں طے کرتے ہیں۔‘‘ دبور نے انادولو ایجنسی کو بتایا کہ ’’یہ مشکلات سے بھرا اور خطرناک سفر ہے۔ ٹک ٹک میں سیٹیں نہیں ہیں اور اس میں ایندھن کی بو آتی رہتی ہے۔ ہم شدید دباؤ میں زندگی بسر کررہے ہیں۔‘‘ فلسطینی شہری نے کہا کہ ’’کوسٹل روڈ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے ہم جنوبی غزہ سے شمالی غزہ جاسکتے ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’’ تاہم، میری کار کو بھی اسرائیلی فوج نے نشانہ بنایا تھا اسی لئے ہمیں قدیم گاڑیوں کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ہمیں اپنے بچوں کو آٹا کھلانے کیلئے خطرہ مول لینا پڑتا ہے جو اسرائیلی فوج کی وجہ سے گزشتہ ۲؍ ماہ سے بھکمری کا سامنا کر رہے ہیں۔‘‘ حکومت، انسانی حقوق کے اداروں اور بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق ’’۲؍ مارچ ۲۰۲۵ء سے اسرائیلی فوج نے غزہ کی سرحد کو بند رکھا ہے جس کی وجہ سے فلسطینی خطے میں خوراک، پانی، اور دیگر بنیادی اشیاء کی رسائی مشکل ہوچکی ہے جو پہلے سے ہی انسانی بحران کا سامنا کررہا ہے۔‘‘ گزشتہ ماہ جوناتھن فاؤلر، جو یو این ایجنسی فار فلسطینی رفیوجی (یو این آر ڈبلیو اے) کے ترجمان ہیں، نے کہا تھا کہ ’’ ۲۳؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے غزہ میں انسانی حالات ’’بدترین‘‘ ہوچکے ہیں۔‘‘ ورلڈ بینک کے ڈیٹا کے مطابق ’’فلسطینی خطے کی ۴ء۲؍ ملین آبادی مکمل طور پر انسانی امداد پر انحصار کرتی ہے۔‘‘ اقوام متحدہ (یو این) کے ترجمان عدنان ابوحسنا نے منگل کو کہا تھا کہ ’’غزہ میں دسیوں ہزاروں فلسطینیوں کو ۲؍ سے ۳؍دنوں میں صرف ایک مرتبہ کھانامل رہا ہے۔‘‘
انہوں نے الغاد ٹی وی کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’ ۶۶؍ ہزار سےزائد فلسطینی شدید ناقص تغذیہ کا شکار ہیں۔‘‘ غزہ کے سرکاری میڈیا کے دفترکے اعداد و شمار کے مطابق ’’ اکتوبر ۲۰۲۳ءسے اب تک تقریباً ۵۷؍ فلسطینی بھکمری کی وجہ سے اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: امریکہ اور ایران کے درمیان مذاکرات کے ساتھ دھمکیوں کا دور بھی
بھکمری
دبور نے مزید کہا کہ ’’اسرائیل کی ناکہ بندی کے دوران غزہ کی آبادی بھکمری میں زندگی بسر کررہی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’’غزہ میں اب تک کوئی انسانی امداد داخل نہیں ہوسکی ہے۔ خوراک موجود نہیں ہے۔ لوگوں کو تنخواہ کیلئے کام کرنا پڑ رہا ہے اوران کے گھروں میں کھانے کیلئے کچھ بھی نہیں رہ گیا ہے۔‘‘ دبور نے کہا کہ ’’شمالی غزہ میں آٹا بھی خراب اور آلودہ ہے اور کھانے کے لائق نہیں ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: غزہ: اسرائیلی ناکہ بندی سے ۵؍سال سے کم عمر کے ۳۵۰۰؍ بچے موت کے قریب
خطرے سے دوچار سفر
فلسطینی شہری عبدالحمید ، جنہوں نے اپنا دوسرانام نہیں بتایا ہے، نے ’’خوراک‘‘ حاصل کرنے کیلئے اپنے روزمرہ کے سفر کو ’’خطرے سے دوچار‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم نکلنے سے پہلے کلمۂ شہادت پڑھتے ہیں کیونکہ سمندر میں اسرائیل کے گن بوٹس ہمارے پیچھے، اسرائیلی ٹینکس ہمارے سامنے اور جنگی جہاز ہمارے پیچھے ہوتے ہیں۔ کبھی بھی ہم پر بمباری کی جاسکتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اسرائیلی فوج کے گاڑیوں کی حرکت پر پابندی عائد کرنے کے بعد کوسٹل روڈ ہی ہمارے لئے ’’واحد خطرناک راستہ‘‘ رہ گیا ہے۔ ہم خدا سے مدد طلب کرتے ہیں اور نکل جاتے ہیں۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: یہ ایک حقیقت ہے کہ لاڈلی بہنوں کو ۲۱۰۰؍ روپے نہیں مل سکتے: سنجے شرساٹ
مشکل زندگی
ام ایاداللحا، جو ایک معمر فلسطینی خاتون ہیں، نے الرشید روڈ سے خان یونس، جنوبی غزہ تک کے اپنے پہلے سفر کو بیان کرتے ہوئے اسے ’’خوفناک اور معمر افراد کیلئے مشکل‘‘ قرار دیا۔ احمد البنا، جو ایک ٹک ٹک ڈرائیور ہیں، نے یہ قبول کیا کہ ’’یہ سفر ڈرائیوروں اور مسافروں دونوں کیلئے خطرناک ہے۔‘‘ انہوں نے انادولو ایجنسی کو بتایا کہ ’’عام طورپر ہمیں آرام کیلئے ایک سے زیادہ مرتبہ رکنا پڑتا ہے۔کچھ مسافر خوف کی وجہ سے بات بھی نہیں کرپاتے۔ لیکن ہمارے پاس کوئی انتخاب نہیں ہے۔ انہیں کسی بھی قیمت پر اپنی منزل تک پہنچا ہے۔‘‘