نئی نسل کو ابن صفی کی ضرورت ہے جن کے ناولوںمیں ایڈونچر، سائنس،منطق، معاشیات اور فلسفہ جیسے موضوعات کی قوس قزح ملتی ہے
EPAPER
Updated: July 26, 2025, 1:41 PM IST | Najiullah Khan Yousafzai | Mumbai
نئی نسل کو ابن صفی کی ضرورت ہے جن کے ناولوںمیں ایڈونچر، سائنس،منطق، معاشیات اور فلسفہ جیسے موضوعات کی قوس قزح ملتی ہے
اردو ادب میں جاسوسی ادب کا امام ابن صفی کو مانا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے صرف جاسوسی ادب تحریر کیا، وہ شاعر بھی تھے انشائیہ نگار بھی اور طنز و مزاح نگار بھی اس لئے انہیں آپ سنکی سولجر یا اسرار ناروی یا طغرل فرغان یا عقرب بہارستانی بھی کہہ سکتے ہیں۔ ابن صفی ایک ادیب نہیں بلکہ ایک تحریک کا نام ہے ایک ایسی تحریک جس نے نہ صرف اردو کی آبیاری کی بلکہ کئی دہائیوں سے ذوق مطالعہ کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ آج بھلے ابن صفی ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں مگر ان کی تحریروں نے آج بھی اسی تحریک کو زندہ رکھا ہے۔
ابن صفی کا پہلا ناول ’’دلیر مجرم‘‘ (۱۹۵۲) ہےجس میں پہلی بار ان کے شہرہ آفاق کردار کرنل فریدی اور کیپٹن حمید کو پیش کیا گیا ہے۔ ۱۹۵۶ ء ابن صفی نے عمران کا کردار پیش کیا جو کہ جاسوسی ناول نگاری کا سنگ میل ثابت ہوا۔ ابن صفی نے کل ۲۵۱؍ جاسوسی ناول لکھے جن میں سے ابتدائی ۸؍ناولوں کے مرکزی خیال مغربی ناولوں سے لئے گئے تھے اور اس بات کا اعتراف خود ابن صفی نے بارہا کیا ہے مگر ان ناولوں کے صرف مرکزی خیال مستعار لئے گئے تھے ان کے پلاٹ۔کردار اور طرز اسلوب ابن صفی کا اپنا کمال تھا جاسوسی دنیا کے تحت ابن صفی نے۲۱۴ /جبکہ نکہت پبلکشن کے لئے۳۴ /ناول تحریر کئے۔ " ڈاکٹر دعاگو روزنامہ حریت میں قسط وار شائع ہوا اس سلسلہ کے تین ناول داکٹر دعا گو، گھر کا بھیدی اور مہمان کی موت کو ملا کر ابن صفی کے ناولوں کی تعداد ۲۵۱ ؍ہو جاتی ہے ۔ ’’آخری آدمی‘‘(۱۹۸۰ء) ان کا آخری ناول ثابت ہوا۔
ابن صفی کی ناول نگاری میں زندگی اور معاشرہ کی کشمکش واضح طور پر نظر آتی ہے۔ انسانی زندگی کے انفرادی اور معاشرہ کے اجتماعی مسائل کی جھلک ان کے ناولوں کا بنیادی عنصر ہے۔ معاشرتی۔قومی۔ملکی اور بین الاقوامی مسائل کا ابن صفی نے اپنے ناولوں میں صرف ذکر ہی نہیں کیا بلکہ اس کے سدباب کے لئے ہمارے ذہنوں کی آبیاری کرتے ہوئے صالح معاشرہ کا تصور پیش کیا۔ ان کے ناولوں سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہر نسل کی ذہنی،اخلاقی اور روحانی تربیت کرنا چاہتے تھے۔ ابن صفی کے ناولوں کے پلاٹ بے حد مربوط ہوتے ہیں ۔ وہ اپنی کہانی کو واقعات اور کرداروں کے ذریعہ اس طرح آگے بڑھاتے ہیں کہ قاری اس میں گم ہو جاتا ہے اور اس وقت تک چین نہیں پاتا جب تک کے ناول یا سیریز مکمل طور پر ختم نہ ہو جائے۔ شائستگی، ظرافت۔ مزاح، چست جملے،منظر نگاری،انشا پردازی۔بر جستگی اور بے ساختگی کوان کا خاصہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ تشبیہات، استعارات اور اشارہ و کنایہ میں وہ اتنی بڑی باتیں کہہ جاتے ہیں کہ بڑے سے بڑا ناول نگار اسے کئی صفحات میں کہہ نہ پائے۔ ابن صفی کے پاس موضوعات کا تنوع بھی نظر آتا ہے۔ انہوں نے ہر موضوع پر طبع آزمائی کی۔ ایڈونچر، سائنس، جرم، منطق، معاشیات، فلسفہ جیسے موضوعات کا قوس قزح ان کے ناولوں کے افق پر نظر آتا ہے۔ اور خاص بات تو ہے کہ یہ داستان کی طرح کوئی طلسمی یا مافوق الفطرت عناصر کی کہانیاں نہیں ہیں بلکہ حقیقت پر مبنی حالات کی روشنی میں لکھی گئی سائنس کی پیش گوئی ہے جو مستقبل میں صحیح بھی ثابت ہوئی۔ منظر نگاری میں بھی ان کا شاید ہی کوئی ثانی ہو۔ ان کے ناول کو قاری صرف پڑھتا نہیں بلکہ اسے محسوس بھی کرتا ہے۔ قاری کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ سب اس کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہو۔ ان کے کرداروں کا ایک دھندلا سا خاکہ بھی قارئین کی آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ ان کے ناول کے عنوانات بھی اپنی مثال آپ ہیں جو ذہن پر بوجھ نہیں ڈالتے بلکہ ایک خوشگوار تاثر چھوڑتے ہوئے پلاٹ سے مربوط نظر آتے ہیں۔ ان کے ناولوں میں صنعت تضادکی حسین تصویر ابھر کر آتی ہے۔ مثلاًپیاسا سمندر، بزدل سورما، معصوم درندہ وغیرہ۔
ابن صفی نے د و غیر جاسوسی مزاحیہ ناول لکھے ہیں پرنس چلی اور تزک دو پیازی! جو کہ اصل میں نثری پیروڈی ہیں۔ ایسا نہیں کہ ابن صفی کا طنز و مزاح صرف یہاں تک ہی محدود ہے، انہوں نے کم و بیش سو سے بھی زیادہ انشایہ۔ افسانے اور مزاحیہ کالم تحریر کئے ہیں۔ کبھی طغرل فرغان بن کر تو کبھی سنکی سولجر اور کبھی عقرب بہارستانی کے نام سے ان کا قلم چلتا رہا۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے توابن صفی کی پہلی نثری تخلیق’’ فرار‘‘ ہے جو کہ ایک انشا ئیہ ہے جس میں انہوں نے گدھے اور کتے کو تمثیل بنا کرمعاشرہ پر گہری چوٹ کی ہے۔مثلاً:
’’ایک گدھا آج تک کبھی دوسرے گدھے کے لئے مہلک ثابت نہیں ہوا نہ ہی کسی گدھے نے یہ کوشش کی کہ دوسروں پر اپنی برتری کا رعب ڈالے۔ ‘‘
ابن صفی کا مزا ح انتہائی شائستہ اور طنز بلا کا کاٹ دار ہوتا ہے۔ ان کا ایک ایک لفظ نپاتلا، جملہ چست اوربامعنی ہوتا ہے۔ مزاح کے نام پر ان کے پاس بھونڈا پن نہیں پایا جاتا بلکہ وہ اپنے مزاح کو اشاروں اور کنایوں میں اتنے خوبصورت انداز میں پیش کرتے ہیں کہ انہیں طنز و مزاح میں شہ پارہ کی حیثیت دی جا سکتی ہے۔ ابن صفی کے طنز میں کہیں کہیں فلسفہ بھی جھلکنے لگتا ہے۔ مثلاً :
’’شہنشائیت میں تو صرف ایک نالائق سے دو چار ہونا پڑتا ہے لیکن جمہوریت میں نالائقوں کی پو ری ٹیم وبال جان بن جاتی ہے۔ ‘‘ یا
’’ایٹم بم اور ہائیڈروجن بموں کے تجربات ان کی سمجھ سے باہر تھے کہ ایک آدمی جب پاگل ہو جاتا ہے تو اسے پاگل خانے میں کیوں بند کرتے ہیں اور جب کوئی قوم پاگل ہو جاتی ہے تو طاقت ور کیوں کہلاتی ہے۔ ‘‘
ایسے مزید حوالے پیش کئے جاسکتے ہیں جس کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے ابن صفی نے جاسوسی ادب کے ساتھ طنز و مزاح کے بھی بہترین فن پارے تخلیق کئے ہیں۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب نے کہا تھا کہ ’’اس شخص کا اردو ادب پر بہت بڑا احسان ہے۔ ‘‘ آج ضرورت ہے ابن صفی کو صرف ابن صفی نہیں بلکہ سنکی سولجر یا اسرار ناروی یا طغرل فرغان یا عقرب بہارستانی کے طور پر دیکھنے کی!
ہم سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ جس مقصد کو روکنے کے لئے اسرار ناروی کو ابن صفی بننا پڑا آج وہ فحش لٹریچر ڈیجیٹل ہو کر گھر گھر میں پہنچ چکا ہے۔ انٹرٹینمنٹ کے نام پر انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر فحاشی اپنے عروج پر ہے اس لئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہمیں آج پھر ابن صفی کی ضرورت ہے۔ مشاہدہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حالیہ دنوں میں لٹریچر کو تو دفن ہی کر دیا گیا ہے اور مطالعہ نام کی چیز نئی نسل کے لئے اچھوتی ہے۔ دوسری طرف فلموں اور ویب سیریز کا دور عروج پر ہے۔ ان میں سے چنندہ ہی فلمیں اور ویب سیریز قابل ستائش ہوتی ہیں ۔ باقی تمام میں عریانیت اور ایکشن کے نام پر گالی گلوچ بھرا ہوا رہتا ہے۔ ماں اور بہن جیسے مقدس رشتوں کو تو ڈائیلاگ میں گالیوں کی شکل میں اتنی بار دہرایا جاتا ہے کہ رائٹر کی ماں اور بہن کو بھی خود شرم آتی ہوگی۔ سماج کی ایک الگ تصویر بتائی جارہی ہے یا ان فلموں اور ویب سیریز کی ضرورت بنتی جا رہی ہے۔
ایسے میں ضرورت ہے ان چیزوں کا سدباب کیا جائے اور اردو ادب میں اس کا توڑابن صفی کی شکل میں موجود ہے مگر ابن صفی کے ناولوں کو پکچرائز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے ہر کردار کا خاکہ ہر قاری کے ذہن میں الگ ہی معیار کا ہوتا ہے اس لئے کوئی ایک ہیرو یا ویلن اس سے انصاف نہیں کر سکتا۔اس لئے نئی نسل کو مطالعہ کی جانب ہی راغب کرنا ہوگا۔ یونیورسٹی کے نصاب میں ابن صفی کو شامل کیا گیا ہے اب ضرورت ہے کہ اسکولی سطح پر بھی ابن صفی کو نصاب میں شامل کیا جائے۔ ابن صفی کے ناولوں کو اسکول کی لائبریری کی زینت بنایا جائے۔ اورطلبہ کو ابن صفی کے ناول پڑھنے کے لئے دئے جائیں۔ ورنہ موبائیل کی دنیا میں تخلیقی صلاحیتیں کبھی پنپ ہی نہیں پا ئے گی!( مضمون نگار انجمن اسلام جنجیرہ ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج شریوردھن کے پرنسپل ہیں )