• Tue, 15 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

نئے آئی ٹی رو‘لس اور ہماری جمہوری صحت

Updated: April 10, 2023, 1:06 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

قومی ذرائع ابلاغ کا بڑا حصہ سوال کرتا ہے نہ ہی مسائل اُٹھاتا ہے۔ یہ سلسلہ سوشل میڈیا پر شروع ہوا، اور شاید اسی لئے یہ نئے ضابطے متعارف کرائے جارہے ہیں تاکہ حکومت خود ہی فیصلہ کرلے کہ کون سی خبر یا مواد مبنی بر حقیقت ہے اور کون سا جعلی۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

مرکزی حکومت نے ۶؍ اپریل کو چند نئے ضابطے منظور کئے ہیں تاکہ اس بات کی شناخت کی جائے کہ آن لائن ایسا کون سا مواد ہے جو جعلی، بے بنیاد اور گمراہ کن ہے۔ تفتیش و تحقیق ’’فیکٹ چیک یونٹ‘‘ کرے گا جس کی تشکیل حکومت ہی کرے گی۔ اگر اس یونٹ نے محسوس کیا کہ فلاں مواد جعلی اور بےبنیاد ہے تو وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمس سے رابطہ کرکے اُنہیں ہٹانے کی ہدایت دے گی۔ یہ فیصلہ کہ کون سی خبر یا مواد جعلی یا فیک ہے، حکومت ہی کے اختیار میں ہوگا۔ اِن ضابطوں کے ذریعہ حکومت کو یہ اختیار بھی حاصل ہوگا کہ سوشل میڈیا کے اداروں کو مجبور کرے کہ اس کے ذریعہ نشان زد کیا ہوا مواد یا خبر ہٹائی جائے ورنہ وہ کارروائی کی مجاز ہوگی۔ 
 انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن کا، جو کہ ہندوستان کی ڈجیٹل لبرٹیز آرگنائزیشن ہے، کہنا ہے کہ ’’سماجی ذرائع ابلاغ پر پوسٹ کئے گئے  مواد کے سلسلے میں حکومت کو حاصل ہونے والے ایسے غیر معمولی اختیارات فطری انصاف کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں۔ یہ اقدام غیر آئینی ہے جس سے تقریر و تحریر کی آزادی کا بنیادی حق مجروح ہوتا ہے بالخصوص صحافیوں اور خبروں کی نشر و اشاعت سے متعلق لوگوں کا۔‘‘ ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا نے کہا ہے کہ وہ اس اقدام سے فکرمند  ہے، مزید پریشانی کا باعث یہ امر ہے کہ حکومت نے یہ نہیں بتایا کہ کسی خبر یا مواد کو جانچنے پرکھنے کیلئے قائم کیا جانے والے فیکٹ چیکنگ یونٹ کا طریق کار کیا ہوگا۔ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ کس چیز کو سہو سمجھا جائیگا اور اگر کچھ متنازع معاملات ہوں تو اُن میں اپیل کا حق ہوگا یا نہیں۔ گلڈ کے بقول جو کچھ بھی ہے وہ فطری انصاف کے خلاف ہے جسے ایک طرح کی سینسرشپ کہا جاسکتا ہے۔
 حکومت کا ہدف سوشل میڈیا ہے بالخصوص چھوٹے پیمانے پر جاری وہ ویب سائٹس ہیں جنہوں نے بہت کم وقت میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا لیا ہے۔ ان کی مقبولیت کا دائرہ کافی وسیع ہوچکا ہے۔ ان ویب سائٹس نے خود کو منوانے میں اس لئے بھی کامیابی حاصل کی کہ ملک کے شہریوں کا بڑا طبقہ مین اسٹریم میڈیا کو حکومت کا ہمنوا سمجھتا ہے۔ حکومت اُن کے خلاف سوچے سمجھے انداز میں یعنی تیر بہدف کارروائی کرنے کی خواہشمند ہے جس سے بھی یہ ثبوت ملتا ہے کہ یہ  ویب سائٹس وسائل کی شدید قلت کے باوجود عوام میں مقبول ہیں۔ ان کا حلقۂ اثر محدود ہوتا تو حکومت ہرگز اُن کا تعاقب نہ کرتی۔ 
 نئے ــضوابط کے خاص پس منظر کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ گزشتہ چند برسوں میں انٹرنیٹ بند کرنے کے واقعات سب سے زیادہ ہندوستان میں ہوئے۔ یہ سرکاری فیصلے کے تحت ہوتا ہے۔ ملک میں ۲۰۱۴ء میں انٹرنیٹ بند کئے جانے کے ۶؍واقعات ہوئے تھے۔ ۲۰۱۵ء میں ۱۴؍ مرتبہ ، ۲۰۱۶ءمیں ۳۲۱؍ مرتبہ اور ۲۰۱۷ءمیں ۷۹؍ مرتبہ انٹرنیٹ بند کیا گیا (میرے سامنے ۲۰۲۲ء تک کے اعدادوشمار ہیں مگر اتنے پر اکتفاکرتا ہوں)۔ قارئین کیلئے اتنا جان لینا کافی ہوگا کہ ۲۰۱۹ء میں عالمی سطح پر انٹرنیٹ بندی کے  جو ۲۱۳؍ واقعات ہوئے اُن میں سے ۵۶؍ فیصد ہمارے یہاں ہوئے۔ وینی زوئیلا کا نمبر ہمارے بعد آتا ہے مگر ہم اُس سے ۱۲؍ گنا زیادہ آگے ہیں۔ صرف اتنا نہیں کہ حکومت نے اپنی صوابدید پر فیصلہ کیا کہ انٹرنیٹ بند کرنا ہے اور بند کردیا، حکومت نے اس کے نتائج پر دھیان نہ دے کر عوامی زندگی کو پریشانی میں ڈالا چنانچہ ہم صرف اتنا کہہ کر آگے نہیں بڑھ سکتے کہ انٹرنیٹ بند کیا گیا بلکہ اس کی تفصیل میں جاکر یہ کہنا ہوگا کہ اس کی وجہ سے وبائی دور میں ملک کے شہریوں کو ٹیلی میڈیسن کی سہولت سے جبکہ طلبہ کو آن لائن پڑھائی سے محروم ہونا پڑا ۔ کشمیر میں ۱۷؍ماہ تک انٹرنیٹ کا ’’بلاکیڈ‘‘ جاری رہا، اسی طرح سال بھر جاری رہنے والے کسانوں کے احتجاج کے دوران بھی انٹرنیٹ بند کیا گیا۔ یہی چند واقعات اور معاملات نہیں بلکہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی حکومت نے یہ کارروائی کی۔ پنجاب میں حالیہ دنوں میں بہت سے لوگوں کا سوشل میڈیا ہینڈل معطل کیا گیا جبکہ بی بی سی کی پنجابی سروس کو کچھ وقت کیلئے روکا گیا۔
 جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ جمہوریت میں غیر فطری ہے جہاں آزادیٔ اظہار رائے بنیادی حق ہوتا ہے۔ 
 اسے دوسرے الفاظ میں اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ جمہوریت میں آزادیٔ اظہار رائے اتنا اہم ہے کہ حکومت کے ذریعہ سلب کئے جانے کی چھوٹی سے چھوٹی کوشش سے بھی محفوظ رہتا ہے مگر ہمارے یہاں مخالف آواز وں کو دبانے کیلئے نت نئی تدابیر اختیار کی جارہی ہیں، فوجداری قوانین کا غیر مناسب استعمال کیا جارہا ہے اور بھیڑ کا ڈر یا ہجوم کے ذریعہ برپا کئے جانے والے تشدد کے خوف نے کہنے سننے کی آزادی کو بڑی حد تک متاثر کررکھا ہے۔ 
 جہاں تک مین اسٹریم میڈیا کا تعلق ہے اُس کا ان ضابطوں  سے کوئی علاقہ نہیں کیونکہ یہ میڈیا خود کو حکومت کے مفاد میں استعمال ہونے کی رضامندی بہت پہلے دے چکا ہے۔ مگر سوشل میڈیا کے استعمال کنندگان ایسی کسی بات کیلئے رضامند نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ حکومت نئے آئی ٹی رولس یا ضابطوں کے ذریعہ ان کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتی ہے۔ ان آئی ٹی رولس سے قبل بھی حکومت کی روک ٹوک جاری ہی تھی۔ ۲۰۱۴ء سے پہلے ٹویٹر سے چند ایک پیغام ہٹانے کا فیصلہ کیا جاتا تھا اب اس کی تعداد ہزارو ںمیں ہے۔ جب حقائق کا پتہ لگانے والے (فیکٹ چیکرس) کسی نفرتی بھاشن کی نشاندہی کرتے ہیں تو فیکٹ چیکر کی پوسٹ ہٹوا دی جاتی ہے۔ اس کے بعد جب ہم عالمی جدوَلوں میں اپنا مقام کھونے لگتے ہیں تو جدوَل تیار کرنے والے اداروں ہی کو جانبدار، متعصب اور نہ جانے کیا کیا کہہ دیا جاتا ہے۔ یہ تک کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ کسی ایجنڈا کے تحت کام کررہے ہیں۔اگر ان اداروں سے سنجیدہ رابطہ رکھا جائے اور اُن کی نشاندہی کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو شاید ہم اپنا طرز عمل بدل پائیں۔نئے آئی ٹی رولس کے ذریعہ حکومت حالات سنوارنے کے بجائے اپنے پرانے طرز عمل ہی کو آگے بڑھانے جارہی ہے۔ کسی بھی جمہوریت میں ایسا نہیں ہوتا کہ حکومت خود کو یہ اختیار دلائے اور فیصلہ کرے کہ کون سی خبر مبنی بر حقیقت ہے اور کون سی گمراہ کن۔ مگر ہم ایسا فیصلہ کرکے جمہوریت کو مزید متاثر کرنے کے درپے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK