Inquilab Logo Happiest Places to Work

نیا ’سنسد بھون‘ اور اس کا افتتاح

Updated: June 02, 2023, 12:17 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

محض یہ کہنا یا دہرانا کافی نہیں ہے کہ ہندوستان کے نئے ’سنسد بھون‘ کے افتتاح کے سلسلے میں حکمراں اور اپوزیشن پارٹیاں ایک دوسرے کیخلاف بولتی سنی گئیں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ نیا سنسد بھون کیوں تعمیر کیا گیا، اس کی ضرورت حکمراں پارٹی نے ہی محسوس کی یا ماضی کے حکمرانوں نے بھی اس کی ضرورت محسوس کی تھی۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

اختلافات زندگی کا حصہ ہیں۔ اختلافات کا مطلب دشمنی نہیں ہے البتہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اختلافات کی بنیادیں کیا ہیں اور ان کا اظہار کس طرح کیا جا رہا ہے۔ اس لئے محض یہ کہنا یا دہرانا کافی نہیں ہے کہ ہندوستان کے نئے ’سنسد بھون‘ کے افتتاح کے سلسلے میں حکمراں اور اپوزیشن پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف بولتی سنی گئیں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ نیا سنسد بھون کیوں تعمیر کیا گیا، اس کی ضرورت حکمراں پارٹی نے ہی محسوس کی یا ماضی کے حکمرانوں نے بھی اس کی ضرورت محسوس کی تھی اور نیا سنسد بھون پرانے سنسد بھون سے کتنا بہتر اور کشادہ ہے؟ ان سوالوں کے جواب میں پہلی بات تو یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ بھارت پہلا دیس نہیں ہے جس نے نیا سنسد بھون تعمیر کیا ہے۔ امریکہ میں اس کی کانگریس کے لئے ۱۷۹۳ء میں ایک عمارت (بھون) تعمیر کی گئی تھی لیکن بدلتے وقت کی ضرورتوں کے مطابق بعد کی دو صدیوں میں اس کو تجدید و توسیع کے ذریعہ بہتر بنایا جاتا رہا۔ آسٹریلیا میں ۶۰؍ سال تک ایک سنسد بھون استعمال کرنے کے بعد ۱۹۸۸ء میں نیا سنسد بھون تعمیر کیا گیا کہ پہلے والے سنسد بھون میں جگہ کی تنگی تھی۔
 ہندوستان میں ’سنسد بھون‘ کی تعمیر ۱۹۲۷ء میں ہوئی تھی لیکن تعمیر کے بعد اس میں تجدید و توسیع کی جا رہی تھی۔ بھارت آزاد ہوا تو ۱۹۵۶ء میں اس میں نئے منزلے تعمیر ہوئے۔ ۱۹۷۵ء میں ایک اور تعمیر ہوئی جس کو انیکسی کہا گیا۔ ۲۰۰۲ء اور ۲۰۱۶ء میں مزید تجدید و توسیع ہوئی، لائبریری کی عمارت بنائی گئی، کانفرنس کا کمرہ اور ہال بھی تعمیر ہوئے۔ اس کے باوجود اس کی مزید تجدید و توسیع کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ تمام اراکین موجود ہوتے تو ان کو اپنی جگہ پہنچنے میں بھی دشواری ہوتی تھی۔ دشواریاں اتنی زیادہ تھیں کہ ۲۰۱۲ء میں اس کی اسپیکر میرا کمار نے جن کا تعلق کانگریس سے تھا بیان دیا تھا کہ ’سنسد بھون‘ رو رہا ہے۔ انہوں نے ہی اس اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی کی تشکیل کی بھی منظوری دی تھی جس کا کام نیا سنسد بھون تعمیر کرانا تھا۔ ۲۰۱۴ء میں جب حکومت ہی نہیں بہت کچھ بدلا تو ۲۰۱۵ء میں نئی اسپیکر سمترا مہاجن نے شہری امور کے وزیر کو ایک نیا سنسد بھون تعمیر کرانے کی تجویز پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ نئے پارلیمانی حلقوں کے بنائے جانے کے بعد اراکین کی تعداد بڑھے گی یعنی آئندہ موجودہ سنسد بھون اراکین کے لئے کافی نہیں ہوگا۔
 مندرجہ بالا تفصیلات سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ سنسد یا پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا تعمیر کیا جانا یا پرانی عمارت کی توسیع و تجدید ہندوستان میں بھی ہوتی رہی ہےا ور دوسرے ملکوں میں بھی۔ ہندوستان میں اس کی مزید تجدید و توسیع کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی اور اس ضرورت کا احساس و اظہار کرنے والوں میں وہ بھی تھے جو ماضی میں حکمراں رہ چکے تھے اور وہ بھی جو اب اقتدار میں آئے ہیں۔ ایسی صورت میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ’نیا سنسد بھون‘ دس بیس سال پہلے ہی تعمیر کر لیا جاتا، مگر ایسا نہیں ہوا اس کے باوجود ’دیر آید درست آید‘ کے مصداق نئے سنسد بھون کی تعمیر کا استقبال کیا جانا ضروری ہے۔ اس لئے بھی اس کا استقبال ضروری ہے کہ یہ انتہائی جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ تعمیر کا نمونہ ہے۔ نئے سنسد بھون میں یہی نہیں کہ ای لائبریری تک پہنچنا آسان بنایا گیا ہے بلکہ ایسے انتظامات کئے گئے ہیں کہ اراکین کو ان کے مطلوبہ کاغذات، دستاویزات اور رپورٹس ان کی نشست پر کم سے کم وقت میں دستیاب ہوسکیں۔ یہاں جدید تر آڈیو ویزوول کمیونی کیشن سسٹم ہے جس کے تحت اراکین شیڈولڈ زبانوں میں اپنی بات رکھ سکتے ہیں۔ آج کی دنیا میں ٹیکنالوجی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں جو انقلاب برپا ہوا ہے یا آرٹی فیشیل (مصنوعی) ذہانت سے جس طرح کام لیا جا رہا ہے ان کو نظر انداز کرکے کوئی نظام چلایا ہی نہیں جاسکتا۔ لہٰذا نئے سنسد بھون کا بنایا جانا ناگزیر تھا۔
 نیا سنسد بھون اسی احاطے میں ہے جہاں سنسد یا پارلیمنٹ کی پرانی عمارت پہلے سے موجود ہے۔ یہ پرانی عمارت بھی کم اہم نہیں کہ اسی عمارت نے آدھی رات کو آزادی کا سورج طلوع ہوتے دیکھا تھا۔ اسی عمارت میں آئین ہند کی بالادستی اور اس کے نفاذ کا اعلان ہوا تھا۔ اسی عمارت میں ایمرجنسی کے نصف الہنار میں سورج ڈوبتے اور پھر ایمرجنسی کے خاتمے کی صورت میں آزادی کے سورج کو پوری آب و تاب کے ساتھ چمکتے دیکھا تھا۔ اب وہی عمارت دیکھ رہی ہے کہ اس کے پڑوس میں بنی نئی عمارت کے افتتاح میں صدرجمہوریہ کو نہ بلائے جانے پر اپوزیشن کی ۱۹؍ پارٹیاں احتجاج کر رہی ہیں مگر خود صدر جمہوریہ کہہ رہی ہیں کہ نئے سنسد بھون کا افتتاح ہندوستان کے جمہوری سفر کا سنگ میل ہے۔
 افتتاح کے موقع پر تمام مذاہب کے نمائندوں نے اپنی مذہبی کتابوں کے دعائیہ جملے یا دعائیں پڑھیں۔ قرآن حکیم کی سورہ رحمٰن کی بعض آیات کی بھی قرأت یا تلاوت کی گئی مگر دعائیہ تقریب میں مجموعی طور پر جو تاثر دیا گیا وہ یہ تھا کہ ہندوستان اپنی قدیم مذہبی وراثت کی بازیابی کی طرف پیش رفت کر رہا ہے۔ اس کی سب سے واضح مثال اشوک استمبھ کے نشان پر سینگول کو ترجیح دیا جانا ہے۔ اس کی بازیابی کا خواب ساورکر نے دیکھا تھا اور وہ اس کو تعبیر عطا کرنے کی کوشش بھی کر رہے تھے مگر پنڈت نہرو کے خواب کے مقابلے ساورکر کے خواب کو کامیابی نہیں ملی تھی کیونکہ پنڈت نہرو سائنسی اور عقلی بنیادوں پر ملک اور ملک والوں کو آگے لے جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ افتتاح کے موقع پر یہ دیکھا جانا چاہئے تھا کہ ملک کی قومی، مذہبی، تہذیبی وراثت کے تحفظ کے ساتھ سائنسی بنیادوں سے اپنے اجتماعی تعلق کو کس طرح استوار کیا جائے۔ ایک بات یہ حیرت کا باعث ہوئی کہ افتتاح کے موقع پر قرآن حکیم کی تلاوت کئے جانے کی جو کلپ راقم الحروف کی نظر سے گزری اس میں حافظ صاحب اعوذ باللہ پڑھتے ہوئے نہیں دکھائی دیئے۔ ممکن ہے کلپ ادھوری ہو۔
 بہرحال نیا سنسد بھون تمام ہندوستانیوں کے لئے فخر کا باعث ہے۔ خدا کرے یہ جمہوری قدروں کے تحفظ کا امین بھی بن جائے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK