اس ہفتے ہندی، مراٹھی اور انگریزی اخبارات میں چھگن بھجبل کی کابینہ میں واپسی، پروفیسر علی خان محمود آباد، پاکستانی جاسوس جیوتی ملہوترا اور ممتاز ماہر فلکیات ڈاکٹر جینت وشنو نارلیکر کی موت جیسے موضوعات پر اداریئے اور مضامین لکھے گئے ہیں۔
EPAPER
Updated: May 25, 2025, 1:19 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai
اس ہفتے ہندی، مراٹھی اور انگریزی اخبارات میں چھگن بھجبل کی کابینہ میں واپسی، پروفیسر علی خان محمود آباد، پاکستانی جاسوس جیوتی ملہوترا اور ممتاز ماہر فلکیات ڈاکٹر جینت وشنو نارلیکر کی موت جیسے موضوعات پر اداریئے اور مضامین لکھے گئے ہیں۔
اس ہفتے’غیراُردو اخبارات ‘ میں ایک موضوع پر اداریوں کا ترجمہ کرنے کے بجائے مختلف موضوعات کا جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔ اس ہفتے ہندی، مراٹھی اور انگریزی اخبارات میں چھگن بھجبل کی کابینہ میں واپسی، پروفیسر علی خان محمود آباد، پاکستانی جاسوس جیوتی ملہوترا اور ممتاز ماہر فلکیات ڈاکٹر جینت وشنو نارلیکر کی موت جیسے موضوعات پر اداریئے اور مضامین لکھے گئے ہیں۔ زیر نظرکالموں میں ہم نے چند اخبارات کی نگارشات کا جائزہ لیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کس اخبار نے کس موضوع پر کیا کچھ لکھا ہے؟
شندے کو اب بھجبل کے بازو میں بیٹھنا پڑے گا
سامنا (مراٹھی، ۲۱؍ مئی)
’’نائب وزیر اعلیٰ مندھے(شندے)انتہائی سخت آزمائشی لمحات سے گزر رہے ہیں۔ اسلئےانہیں ’پارٹی سربراہ‘ امیت شاہ کے دروازے پر جا کر احتجاج کرنا چاہئے۔ دیویندر فرنویس نے چھگن بھجبل کو کابینہ میں لے لیا۔ اب ایکناتھ مندھے کو چھگن بھجبل کے بازو بیٹھنا پڑے گا۔ ہندوؤں کے شہنشاہ بالا صاحب ٹھاکرے کو گرفتار کرنے والے چھگن بھجبل کے بازو بیٹھنے والوں کو درد کیوں نہیں ہوتا؟شرم کیوں نہیں آتی؟ اُس وقت ایکناتھ مندھے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے سے سوال پوچھا کرتے تھے۔ شیوسینا چھوڑ کر امیت شاہ کی قیادت قبول کرنے والوں نے جو وجہ بتائی تھی، ان میں سے ایک یہ تھی کہ وہ چھگن بھجبل کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے۔ بالا صاحب ٹھاکرے کو گرفتار کرنے والے کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔ اب امیت شاہ نے مندھے اور ان کے ساتھیوں کو اس مخمصے میں ڈال دیا ہے کہ اگر شیو سینا سربراہ سے سچی محبت ہے تو فوری طور پر استعفیٰ دے دیں ورنہ کابینہ میں دن بھربھجبل کے بازو میں بیٹھ کر ان کی ران کے بال کھینچ کر گزار دیں۔ او بی سی کے مسیحا چھگن بھجبل اپنی سہولت کے اعتبار سے احتجاج کرتے ہیں۔ اسمبلی انتخابات سے قبل فرنویس کے اشارے پر ہی انہوں نے منوج جرنگے کے خلاف جارحانہ رخ اختیار کیا تھا، لیکن جب حکومت بنی تو اجیت پوار نےانہیں کابینہ میں جگہ نہیں دی۔ ایک وقت فرنویس نے چھگن بھجبل کے گھوٹالوں کے خلاف زور دار آواز اٹھائی تھی۔ اجیت پوار کو جیل میں بھجبل کے پڑوس میں چکی پیسنے کیلئے بھیجنے والے تھے۔ بھجبل کو عدالت نے بے قصور قرار نہیں دیا ہے وہ ضمانت پر باہر ہیں، لیکن افسوس اجیت پوار اور چھگن بھجبل دونوں دیویندر فرنویس کی کابینہ میں شامل ہیں۔ ‘‘
ملک میں یہ ایک نئی طرز کی سنسرشپ ہے
نوبھارت ٹائمز (ہندی، ۲۱؍ مئی)
معروف کالم نگار انل سنہا نے لکھا ہے کہ’’ اشوکا یونیورسٹی میں شعبہ سیاسیات کے اسوسی ایٹ پروفیسر علی خان محمود آباد کی گرفتاری سے جمہوری حقوق اور اظہار خیال کی آزادی سے متعلق پرانے سوالات ایک بار پھر اٹھ گئے ہیں۔ ہم اس حقیقت سے منہ نہیں پھیر سکتے کہ ملک میں نظریات کی شدید لڑائی جاری ہے اور ادارے اس کا شکار ہورہے ہیں۔ پروفیسر محمود آباد کی شکایت میں دم ہے کہ یہ ایک نئی طرز کی سنسرشپ ہے جس میں ایسے مسائل ایجاد کئے جاتےہیں جن کا کوئی وجود نہیں۔ انہوں نے یہ بات ہریانہ ویمن کمیشن کی طرف سے نوٹس ملنے کے بعد اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر کہی۔ پروفیسر محمود آباد کا کہنا ہے کہ ان کی پوسٹ کی اس قدر غلط تشریح کی گئی کہ پورے معنی ہی بدل گئے۔ ۱۲؍ مئی کو جاری کردہ نوٹس میں ویمن کمیشن نے الزام لگایا کہ پروفیسر نے اپنی پوسٹ کے ذریعے فوجی کارروائی اور سرحد پار دہشت گردی کے خلاف کارروائی میں خواتین کے کردار کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔ محمود آباد نے کہا کہ کمیشن اپنے دائرہ اختیار سے باہر نکل کر کام کررہا ہے۔ ان کی فیس بک پوسٹ کو غور سے پڑھیں تو یہ فوج کی کارروائیوں کی حمایت میں لکھی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کو وہاں کی حکومت سے الگ تھلگ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے فوجی کارروائی کو دہشت گردوں کے ٹھکانوں تک محدود کرنے پر فوج کی تعریف کی تھی۔ انہوں نے کرنل صوفیہ قریشی کی تعریف کرنے والے دائیں بازو کے لوگوں چیلنج کیا کہ وہ ان ہندوستانیوں کی حفاظت کیلئے بھی آگے آئیں جو ہجومی تشدد اور بلڈوزر کارروائیوں کے شکار ہیں۔ اس طرح سوال کرنا جمہوریت کی بقا کیلئے ضروری ہے تاہم سرکار کو یہ پسند نہیں۔ ‘‘
پروفیسر کو فوری ریلیف دے کر عدالت نے اچھا کیا
ہندوستان ٹائمز (انگریزی، ۲۲؍ مئی)
’’ہریانہ کی اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمود آباد کی گرفتاری نے آزادی اظہار رائے اور سماجی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے میں حکومتی اداروں کے کردار کے بارے میں سوالات کا نیا پٹارا کھول دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے بدھ کو پروفیسر علی خان کو عبوری ضمانت دے دی۔ عدالت نے پروفیسر کو فوری ریلیف دے کر ایک اچھا کام کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ قانونی عمل کسی ایسے جرم کی سزا کی طویل شکل نہ بن جائے جو پولیس کے ذریعے مبہم طور پر بیان کیا گیا ہوں۔ اگرچہ سپریم کورٹ اس بات کی نشاندہی کرنے میں حق بجانب ہے کہ تقریر اور اظہار رائے کا بنیادی حق ہے لیکن آزادی اظہار پر کچھ حد تک پابندیاں بھی ضروری ہیں تاکہ قومی مفاد کا تحفظ کیا جاسکے۔ سپریم کورٹ نے بجا طور پر افسوس کا اظہار کیا کہ استغاثہ ایجنسیوں کو گرفتاری کے اپنے اختیارات کے استعمال میں زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
اس کی بھنک ہماری خفیہ ایجنسیوں کو کیوں نہیں لگی؟
جن ستہ (ہندی، ۲۱؍ مئی)
’’پاکستان کیلئے جاسوسی کرنے کے الزام ایک خاتون سمیت متعدد افراد کی گرفتاری کے بعد وہاں کی خفیہ ایجنسی کے نیٹ ورک کے حوالے سے بحث تیز ہوگئی ہے۔ پاکستان سرحد پر کشیدگی بڑھا کر یکے بعد دیگرے سازش کررہا ہے۔ اس میں وہ ہندوستانی شہریوں کو لالچ دے کر انٹیلی جنس کی معلومات اکٹھا کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ آپریشن سیندور کے بعد شروع کی گئی خصوصی مہم کے تحت جس طرح پاکستان کیلئے جاسوسی کرنے والے افراد کو گرفتار کیا جارہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا نیٹ ورک کافی پھیلا ہوا ہے لیکن سوال ہے کہ جو بیداری ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں میں اب نظر آرہی ہے وہ پہلے کیوں نہیں آئی تھی؟ہریانہ کی یوٹیوبر جیوتی ملہوترا کو دشمن دیش کی ایجنسی اپنے رابطے کے طور پر استعمال کررہی تھی، اس کی بھنک ہماری ایجنسیوں کو کیوں نہیں لگی۔ اس کے علاوہ ہندوستانیوں کا آئی ایس آئی کے رابطے میں آنا، سنگین خطرہ کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ ‘‘