Inquilab Logo

نکاح: ایک آسان عمل جسے ہم نے مشکل بنا دیا ہے

Updated: August 12, 2022, 1:59 PM IST | Maulana Naseem Akhtar Shah Qaiser | Mumbai

اپنی اولاد کی شادی کرنا کس قدر کٹھن کام ہے اس کے بارے میں جانکاری ان والدین سے حاصل کی جاسکتی ہے جو غریب ، پریشان حال اور زندگی کی سختیوں سے دوچار ہیں

Islam has given us clear instructions for every corner of life, they must be followed.Picture:INN
اسلام نے ہر گوشہ زندگی کے لئے واضح ہدایات ہمیں عطا کی ہیں ان پر عمل کیاجائے تو شادی بیاہ کے معاملات آسان بھی ہوں گے اور خیر و برکت کا موجب بھی۔ تصویر:آئی این این

اسلام فطرت ِ انسانی سے جتنا واقف ہے اُتناکوئی اور مذہب نہیں، چوں کہ اسلام خداوند قدوس کی عطا کردہ نعمت ہے اور تمام انسانوں کے خالق رب العالمین ہیں اس لئے وہ اپنی مخلوق کی ضروریات ، طبعی تقاضوں اور فطری جذبوں کو جتنے بہتر انداز میں جان سکتے اور ان کا  تیر بہدف نسخہ تجویز فرما سکتے ہیں کوئی دوسرا اس کو انجام نہیں دے سکتا۔ رب کائنات کے سامنے تمام حقائق ہیں اور ہر شئے اپنے جزوکل کے ساتھ اس پر عیاں اور ظاہر ہے اس لئے اس کا فیصلہ فطرت ِانسانی کے خلاف ہو ہی نہیںسکتا۔  اس کو معلوم ہے کہ ایک ضرورت آدمی کی کھانے کی ہے ، دن میں کئی بار اسے بھوک  ستاتی ہے ، اس لئے اللہ رب العزت نے رزق اتارا  ،پھر رزق کی بھی مختلف اقسام ہیں،یعنی کھانے پینے کی اتنی چیزیں پیدا فرمائیں کہ ان کا شمار بھی ناممکن ہے، ایک چیز سے ہزار طرح کی چیزیں بنتی ہیں، ہزار اقسام کے درختوں سے ہزار طرح کے پھل حاصل ہوتے ہیں، اناج، سبزیاں، میوہ جات سب آدمی کے پیٹ بھرنے اور بھوک مٹانے کیلئے ہیں، ضرورت تھی کہ آدمی رہنے کیلئے گھر بنائے تواس نے پہاڑوں کو تراش کر اپنے ٹھکانے بنالئے، ترقی کی تو اینٹ اور گارے سے اپنے مکانات کی تعمیر کی، نئے دور میں داخل ہوا تو عالی شان عمارتیں، فلک بوس قلعے اور شاندار حویلیاں بنا ڈالیں، ذوقِ تعمیر اور ضرورت تعمیر نے تبدیلیوں کی راہ دکھائی تو اللہ رب العزت نے اس کا بھی سامان پیدا فرمادیا۔ مشینی دور آیا تو انسانی فہم اور عقل نے نئی نئی ایجادات کی طرف قدم بڑھائے اور فطرت نے اس کی بھرپور رہنمائی کی۔
 غرض اللہ رب العزت اپنے بندوں کے مسائل اورحقیقی ضرورتوں سے مکمل طورپر آگاہ ہے۔  انسان کی ایک ضرورت اس کی فطری خواہش ہے جس کو پورا کرنے کے لئے اللہ نے اس کا جوڑا پیدا فرمایا۔ مرد اور عورت سے  اس دنیا کی رونقیں قائم ہیں اوراس کائنات کو اللہ رب العزت نے دونوں کیلئے جولان گاہ  بنایاہے۔ دونوں کی ذمہ داریاں الگ ہیں، دونوں کے فرائض کی تشریح کردی گئی، تفصیل سے دونوں کی حیثیت اور حقوق  کو بیان کردیاگیا اور نسل ِ انسانی  کے آگے بڑھنے اور دنیا کے آباد رہنے کے لئے نکاح تجویز فرما دیا۔  جائز طریقہ پر اور حدود شریعت میں رہ کر خواہش نفسانی کو پورا کرنے کی راہ بھی اسلام نے دکھائی اور چونکہ یہ عمل بھی اسلام کی نظر میں اپنی جزئیات کے ساتھ تھا اس لئے یہاں بھی رہبری میں اس نے کوئی کمی بیشی نہیں کی جیسا کہ دنیا کے تمام مسائل میں انسان کی  ہدایت کے لئے واضح احکام  پیش کئے اور مکمل تعلیمات سے آگاہی بخشی۔ نکاح کی فضیلت، اس کے مقاصد اور اس کے نتائج پر   رہنمائی فرماتے ہوئے قرآن کریم نے  فرمایا ہے:
  ’’اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری قسم سے جوڑا پیدا کیا تاکہ تم ان کے پاس چین حاصل کرو اوراس نے تمہارے درمیان پیار اور مہربانی رکھی۔‘‘ (سورئہ روم)
 دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے:
   ’’وہی ذات ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ وہ اس سے چین حاصل کرے۔‘‘ (سورہ الاعراف)
 معلوم ہوا کہ سکون شادی شدہ زندگی میں ہے شادی کرنے میں نہیں، گھر کھولنے اور بسانے میں ہے گھر بند رکھنے میں نہیں، بیوی نفسانی خواہشات کی تسکین کے لئے ہی نہیں ہے بلکہ شوہر کی زندگی کو پرُسکون اور گھر کو آباد رکھنے کے لئے ہے، نکاح سے گھر آباد ہوتے ہیں، اجڑتے نہیں، خوشیوں سے گھر بھر جاتا اور سکون واطمینان کا ماحول بن جاتا ہے، اگر کوئی تنگ دستی، فقر اور غربت کی وجہ سے نکاح نہیں کرتا تو اس کو تاکید ہے کہ نکاح کرے۔ اس لئے کہ اللہ کا فرمان ہے:
 ’’اگر وہ مفلس ہوںگے تو خدا تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے غنی کردے گا اور اللہ تعالیٰ وسعت والا خوب جاننے والا ہے۔‘‘
 خداوند عالم  فقر وفاقہ کو فراخی وخوشحالی سے بدلنے کا وعدہ فرمارہے ہیں۔ وہ تنگ دستی کو سہولت ، غریبوں کو مال، پریشان حال لوگوں کو آسانی اور ازدواجی زندگی اختیار کرنے والوں کو راحت عطا فرمائیں گے۔ نکاح سے آدمی بے حیائی سے بچے گا، پاک دامن رہے گا، آنکھ اور شرم گاہ کی  پہرہ داری کا راستہ اختیار کرے گا، نبی کریمؐ کا ارشاد گرامی ہے:
 ’’اے نوجوانوں کی جماعت تم میں سے جواسباب مقاربت پر استطاعت رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ نکاح کرے۔ نکاح آنکھ اور شرم گاہ کی ناجائز تجاوز کیلئے پہرہ دار ہوگا۔‘‘(بخاری ومشکوٰۃ)
 جس نکاح کی اسلام نے تاکید کی، گھر بسانے کا حکم دیا، جس کو نگاہ اور شرم گاہ کی پہرہ داری کا سبب  بنایا اور جس سے فراخی  کے دروازے کھولنے کا وعدہ فرمایا اس نکاح کو اسلام نے بہت آسان اور سہل بنایا ہے۔
 جس نکاح کو اسلام نے آسانی کے ساتھ منعقد کرنے کی تاکید کی تھی آج ہمارے معاشرے میں اس کا انعقاد کس قدر مشکل اور دشوار ہوگیا ہے۔ اپنی اولاد کی شادی کرنا کس قدر کٹھن کام ہے اس کے بارے میں جانکاری ان والدین سے حاصل کی جاسکتی ہے جو غریب ، پریشان حال اور زندگی کی سختیوں سے دوچار ہیں، چلئے ان کو چھوڑ دیجئے جو لاچاری کی زندگی گزاررہے ہیں ان کے سخت احوال پر گفتگو دوسرے وقت کریں گے، فی الحال،  ان سے پوچھ لیجئے جو متوسط زندگی جی رہے ہیں، کہ انہیں بھی اپنی اولاد خاص طور پر لڑکیوں کی شادی کے لئے کس سنگین صورت کا سامنا ہے۔  معاشرہ کا رخ اتنا تباہ کن اور چھوٹے لوگوں کے لئے اتنا ہلاکت خیز بن چکا ہے کہ والدین اپنے گھروں میں بیٹھے یاس بھری نظروں سے اپنی جوان ہوتی اولاد اور ان کی ڈھلتی ہوئی عمر کو دیکھتے رہتے ہیں۔ پھر معاشرہ کا وہ طبقہ ہے جو اعلیٰ طبقہ کہلاتا ہے اس کے پاس دولت ہے، مال کی فراوانی ہے، کھربوں کا بینک بیلنس ہے وہ کروڑوں روپے بھی شادی پر خرچ کرنے میں کوئی تنگی محسوس نہیں کرتے۔ پانی کی طرح پیسہ بہاتے ہیں، مہمانوں کی آئو بھگت، باراتیوں کی ناز برداریاں، دولہا  کے مطالبات، سسرال والوں کی ہر چھوٹی بڑی خواہش اور دیگر ’تقاضے‘  لاکھوں روپے خرچ کرکے پورا کرتے ہیں۔ طرح طرح کے کھانے، قسم قسم کے مشروبات، تکلفات اور سجاوٹ کے نام پر دولت کا ضیاع۔ بے چارہ غریب دیکھتا رہ جاتا ہے کہ وہ اپنی بچیوں کو لے کر کہاں جائے اور کس کے پلے باندھے، اسلئے کہ دولت نے معاشرے کی آنکھیں خیرہ کردی ہیں، ہر لڑکے والا مطالبات کی لسٹ لئے پھر رہا ہے، کبھی غریب کا دروازہ کھٹکھٹاتا بھی ہے تو مطالبات پورے نہ ہوتے دیکھ کر منہ پھیر کر چلا جاتا ہے۔
 جس شہر میں مَیں رہتا ہوں یا جس بستی میں آپ کا قیام ہے دولت مندوںکی تعیش بھری زندگی کا مشاہدہ ہم دونوں کو بخوبی ہوتا ہے، ان دولت مندوں کی زندگی کے ہر رخ سے ان کی تن آسانیوں اور سنگ دلی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے سے چھوٹوں کو کس حقارت کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ وہ کیڑے مکوڑوں سے زیادہ ان کو اہمیت نہیں دیتے، نکاح  جیسے عمل کو اسلام نے جتنا سہل  کیا تھا دولت مندوں نے اسے اُتنا ہی مشکل بنادیا ہے۔  نبی کریم ﷺکا ارشاد گرامی ہے:
 ’’بلاشبہ سب سے زیادہ برکت والا نکاح وہ ہے جس میں زیادہ سہولت اور آسانی ہو۔‘‘
 مسلمانوںکو یہ پیغام پورے عالم تک پہنچانا تھا، اپنے معاشرے میں اس کو باقی رکھنا تھا، اس کی برکات اور سہولتوں پر آگاہ کرنا تھا مگر افسوس خود مسلمان اس لعنت میں گرفتار ہوگئے اوراسلام نے جس نکاح کو آسان سے آسان بنایا تھا ، آج اس کو اپنے لئے انتہائی دشوار بنالیا۔ یہ میرا مشاہدہ ہے یقیناً آپ کا بھی مشاہدہ ہوگا کہ ہمارے معاشرے میں ان لوگوں کی قدر ہے ، ان کی عزت ہے، ان کی تکریم ہے، ان کی پزیرائی ہے جن کے پا س دولت ہے۔ دولت مند کو ہی پوچھا جاتا ہے اور اس کے بارے میں یہ جاننے کی کبھی کوشش نہیں کی جاتی نہ ضرورت سمجھی جاتی ہے کہ کن ذرائع سے اس نے دولت کمائی۔ ایماندار، سچے، معاملات کے کھرے، ہمدرد، بلند اخلاق،صاحب ِ علم،  صاحب ِتقویٰ اور صاحب ِ کمال انسان کی کوئی پوچھ نہیں، انتہائی قابل، اچھی صلاحیت کے مالک اور اعلیٰ استعداد رکھنے والے لوگ بے چارگی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کو اگر اپنی زندگی کے لئے راہنما بنایا جائے اور ہر گوشہ زندگی میں اسلام کی ہدایات پر عمل کیاجائے تو اسلامی معاشرہ سکون اور اطمینان کا معاشرہ بن سکتا ہے اور جوافراتفری ہمارے معاشرے میں پھیلی ہوئی ہے اس سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ علماء کرام معاشرے میں توازن قائم رکھنے میں بنیادی کردار ادا  کرسکتے ہیں، ضرورت ہے کہ وہ آگے آئیں اور وہ ماحول تیار کریں جس میں نکاح آسان ہو، آسان تر۔n
(مضمون نگار  دارالعلوم وقف دیوبند کے استاذہیں)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK