Inquilab Logo

مودی حکومت کے نو (۹) سال، دس (۱۰) سوال

Updated: June 05, 2023, 2:18 PM IST | Parakala Prabhakar | Mumbai

ہم ’’امرت کال‘‘ میں ہیں مگر ہر محاذ سے حکومت کی ناکامی کی صدا آرہی ہے۔ معیشت کا بُرا حال ہے، سماجی اطمینان کے بجائے انتشار پایا جارہا ہے اور جمہوری ادارے کمزور ہورہے ہیں۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

 بھارتیہ جتنا پارٹی کو قومی سطح پر دو مرتبہ غیر معمولی انتخابی کامیابی ملی۔ پہلی مرتبہ ۲۰۱۴ء میں اور دوسری مرتبہ ۲۰۱۹ء میں۔ اس غیر معمولی مینڈیٹ کے باوجود اس نے عوام کو فیض پہنچانے اور ملک کو معاشی اعتبار سے مستحکم کرنے کیلئے کچھ نہیں کیا۔اس میں شک نہیں کہ کئی اہم اور پُرکشش اسکیمیں اس نے جاری کیں مثلاً سوچھ بھارت (جس میں کانگریس کے دور کی نرمل بھارت یوجنا کو نئے انداز میں پیش کیا گیا)، میک اِن انڈیا، اِسکل انڈیا، جن دھن یوجنا وغیرہ مگر اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ آج حکومت کے وزراء اِن اسکیموں کی بات تک نہیں کرتے۔ متعلقہ وزارتوں کی ویب سائٹ پر ان اسکیموں کی کوئی تازہ تفصیل نہیں ہے اور ان (اسکیموں) کی پیش رفتوںکے بارے میں پارلیمنٹ کو کچھ بتایا نہیں جاتا۔ اس کے برخلاف بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ کے نام سے مشہور اسکیم کو عملاً نافذ کرنے کے بجائے اس کا ۷۹؍ فیصد بجٹ تشہیری مہم اور انتظامی اُمور پر خرچ کردیا گیا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت سنجیدہ نہیں ہے۔
 (۲) حکومت نے اپنی تشہیر اور سیاسی جوڑ توڑ میں تو کافی مہارت دکھائی لیکن سماج کو کیا دیا یہ اہم سوال ہے۔ سماج میں مذہبی بنیادوں پر، طبقاتی بنیادوں پر، معاشی اور صنفی بنیادوں پر کافی انتشار پیدا ہوگیا ہے۔ حکومت کا کام انتشار کو دور کرنا تھا نہ کہ انتشار کو بڑھانا۔ آزادی سے پہلے جب یہا ںحکومت برطانیہ کا طوطی بولتا تھا تب ہندوستانی لیڈروں نے انگریزوں کے خلاف کبھی نفرت نہیں بھڑکائی حالانکہ یہ کام آسان تھا مگر تب نہیں ہوا اور اب ہورہا ہے۔
 (۳) امریکہ میں جارج ایچ ڈبلیو بش (سینئر بش) نے رونالڈ ریگن کی معاشی پالیسیوں کی تحقیر کے مقصد سے ایک اصطلاح  ’’ووڈو اکنامکس‘‘ (Voodoo Economics)۔ استعمال کی تھی۔ موجودہ حکومت بھی سابقہ حکومت کی پالیسیوں کی تحقیر کرکے ’’ووڈو اکنامکس‘‘ پر انحصار کررہی ہے۔ اسی اکنامکس کے ماہرین نے حکومت کو کالے دھن کے خاتمے کیلئے نوٹ بندی کا مشورہ دیا ہوگا۔ اس اقدام نے غیر منظم زمرے کی کمر توڑ دی جس کا نتیجہ ہے کہ آج غربت کی سطح ۱۹۹۰ء کی سطح سے بھی ابتر ہے۔ اس پر تعجب نہیں کیونکہ بی جے پی کے پاس کبھی کوئی جامع معاشی پالیسی نہیں رہی ۔ اس نے ۱۹۹۰ء میں آزاد معیشت کی مخالفت کی تھی۔ اس کے بعد خردہ بازار میں غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کو بھی ہدف تنقید بنایا تھا۔ معاشی سوجھ بوجھ نہ ہونے ہی کا نتیجہ ہے کہ اس نے نئے طرز کی سرمایہ داری کو راستہ دے دیا جسے کرونی کیپٹلیزم کا نام دیا جاتا ہے۔ اس سرمایہ داری میں صنعت کاروں اور سیاستدانوں کی ملی بھگت ہوتی ہے۔ اس نئے طرز کی سرمایہ داری کو راہ دینے کے علاوہ اس نے معاشی نابرابری کو روکنے کیلئے مؤثر قدم نہیں اُٹھایا، دولت کے ارتکاز کو نہیں روکا اور دیہی معاشی کو تباہی کے دہانے پر چھوڑ دیا۔ 
 (۴) حکومت کی اس بات پر نظر نہیں ہے کہ بے روزگاری حد سے سوا ہے، مہنگائی قابو میں نہیں ہے، مقننہ اور عدلیہ پر سوالات اُٹھ رہے ہیں، اشیائے صرف کی خریداری کم ہورہی ہے اور مینوفیکچرنگ کی حالت دگرگوں ہے۔ اس کے باوجود کئی اعلیٰ تعلیم یافتہ پروفیشنل ہیں، سائنسداں ہیں اور ’’ماہر ِبیان بازی‘‘ اس کی کامیابی کا تاثر دینے اور تشہیر کے مقصد سے ہمہ وقت ڈھول تاشہ بجاتے  ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ان میں بیان بازی کی قوت اور صلاحیت ہے مگر یہ بیان بازی کس بنیاد پر ہورہی ہے؟ کبھی سائنس کے نام پر قدیم خیالات کو پیش کیا جاتا ہے تو کبھی ایسے آئیڈیاز پر روشنی ڈالی جاتی ہے جوقدامت پسندی کے مظاہر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب وزیر اعظم دعویٰ کرتے ہیں کہ عہد قدیم میں پلاسٹک سرجری رائج تھی تو یہ لوگ ڈھول تاشہ بجانے کیلئے نکل پڑتے ہیں۔ انہی لوگوں نے عوام کو تردد میں مبتلا کیا اور اس کشمکش میں مبتلا کیا کہ جو کہا جارہا ہے شاید وہی سچ ہے۔
 (۵) اس حکومت نے جمہوریت کو کھوکھلا کردیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کیا یہ ممکن تھا تین زرعی بل جن کی کسانوں نے بھرپور مخالفت کی، صرف پندرہ منٹ میں پارلیمنٹ میں منظور ہوجاتے؟ وہ بھی بحث و مباحثہ کے بغیر؟ گزشتہ نو سال میں قانون سازی کے عمل سے بامعنی بحث و مباحثہ ختم ہوگیا۔ پارلیمنٹ میں جمہوریت کا مندر کہنا الگ بات ہے مگر اسے حقیقتاً ویسا کرکے  دکھانا بالکل دوسری بات۔
 (۶) اگر بی جے پی اور مودی کو ہندو راشٹر کی طرف بڑھنا تھا تو انہوں نے ۲۰۱۴ء کا الیکشن وکاس، بدعنوانی کے خاتمے اور شفاف حکمرانی کے نام پر کیوں لڑا۔ 
 (۷) دیکھا جائے تو یہ حکومت بھی مائناریٹی گورنمنٹ ہے کیونکہ سیٹیں بھلے ہی زیادہ ملی ہوں مگر ووٹوں کا فیصد صرف ۳۸؍ ہے۔ آزادی کے بعد کوئی حکومت ایسی نہیں آئی جسے ۵۰؍ فیصد یا اس سے زیادہ ووٹ ملے ہوں۔ صرف ۱۹۸۴ء میں کانگریس ۵۰؍ فیصد کے قریب پہنچی تھی ورنہ جب بھی اور جو بھی حکومت بنی وہ مائناریٹی گورنمنٹ ہی تھی۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ انتخابی اصلاحات پر توجہ دیں تاکہ زیادہ سے زیادہ عوام کی پسندیدہ حکومت اقتدار میں آئے۔
 (۸) وہ پارٹیاں جو اس وقت اپوزیشن میں ہیں، اُنہیں بہت سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ اُنہوں نے کیا کیا۔ اُنہوں نے جمہوریت اور سیکولرازم پر محنت نہیں کی اور جب بی جے پی کا زور بڑھنے لگا تو یہ سمجھا کہ جمہوریت اور سیکولرازم کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ تھی کہ کئی اپوزیشن پارٹیوں نے بی جے پی کے ساتھ تال میل اور انتخابی سمجھوتہ کیا بلکہ یہ سمجھا کہ الیکشن جیتنا اہم ہے ۔ ۲۰۲۴ء کیلئے بھی اگر ان کا یہی خیال ہے کہ الیکشن جیتنا اہم ہے اور (فی الحال) بی جے پی کو ہرانا اول مقصد ہے تو وہ اب بھی غلطی پر ہیں۔ سوال ہندوستان کی روح کا ہے۔ اُنہیں اس کی حفاظت کی پروا کرنی چاہئے۔
 (۹) اکثریت پرستی اور مقبولیت میں فرق ہے۔ شدید معاشی بدحالی اور حکومت کی بدانتظامی کے باوجود اگر بی جے پی آبادی کے بڑے حصے میں مقبول ہے تو اس کا سبب اکثریت پرستی اور یہ احساس ہے کہ یہ ’’ہندوؤں کی حکومت ہے۔‘‘ اس احساس اور تاثر کو ختم کیا جاسکتا ہے جو مشکل نہیں ہے کیونکہ اکثریت پرستی کے پنپنے کے غیر معمولی امکانات تقسیم ہند کے بعد تھے مگر تب اس رجحان کو تقویت نہیں ملی تو اب کیسے مل سکتی ہے۔
 (۱۰) حکومت چاہے جتنے معاشی دعوے کرے، زمینی حقائق مختلف ہیں ۔ اس کیلئے کسی سروے یا رپورٹ کی ضرو رت نہیں، ہر خاص و عام کا مشاہدہ ہے کہ غریب زیادہ غریب ہوا اور سماجی نابرابری بڑھی ہے۔ کیا حکومت اس نابرابری کا کریڈٹ بھی لے گی؟  
(مضمون نگار ماہر معاشیات ہیں جو ۲۰۱۴ء تا ۲۰۱۸ء آندھرا حکومت کے صلاح کار رہے۔ مضمون بشکریہ نیشنل ہیرالڈ)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK