Inquilab Logo

نائن الیون: بیس سال بعد

Updated: September 15, 2021, 6:03 PM IST | Pravez Hafeez

گیارہ ستمبردو ہزار ایک کے دن دہشت گردوں نے امریکی امارت کی علامت نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو زمین بوس کردیا اور واشنگٹن میں واقع امریکہ کی فوجی طاقت کی علامت پنٹاگون کو بھی نشانہ بنایا۔ امریکہ کی سر زمین پر ہوئے تاریخ کے ان بدترین دہشت گردانہ حملوں نے نہ صرف سپر پاوربلکہ سارے عالم کو ہلا کر رکھ دیا۔

9/11 : Twenty years later ..Picture:INN
نائن الیون: بیس سال بعد۔ تصویر: آئی این این

ہفتے کے دن امریکہ بھر میں نائن الیون کی بیسویں برسی منائی گئی۔بیس سال قبل یعنی گیارہ ستمبردو ہزار ایک کے دن دہشت گردوں نے امریکی امارت کی علامت نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو زمین بوس کردیا اور واشنگٹن میں واقع امریکہ کی فوجی طاقت کی علامت پنٹاگون کو بھی نشانہ بنایا۔ امریکہ کی سر زمین پر ہوئے تاریخ کے ان بدترین دہشت گردانہ حملوں نے نہ صرف سپر پاوربلکہ سارے عالم کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان میں مرنے والے امریکی شہریوں کی تعداد تین ہزار تھی لیکن غصے اور انتقام کے جذبات سے مغلوب امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ (global war on terror)کے نام پر قتل و غارت گری اور تباہی کا جو سلسلہ شروع کیااس میں دس لاکھ سے زیادہ لوگ مارے جاچکے ہیں جن میں عام شہریوں کی تعداد چار لاکھ ہے اور گھر سے بے گھر ہوئے لوگوں کی تعداد چار کروڑ۔ یہ اعداد و شمارامریکہ کی معروف براؤن یونیورسٹی کے Costs of War Project کے فراہم کردہ ہیں۔ امریکہ اس لاحاصل جنگ پر آٹھ کھرب (ٹریلین)ڈالر خرچ کرچکا ہے۔جس وقت القاعدہ کے انیس دہشت گردوں نے امریکہ پر یہ حملے کئے اس وقت واشنگٹن میں ایک تنگ نظر اور انتہاپسندانہ سیاسی نظریے Neoconservatismکا حامل ٹولہ اقتدار میں تھا جس کی سربراہی جارج ڈبلیو بش کررہے تھے۔سوویت یونین کے انتشار کے بعد بش کو نیو ورلڈ آرڈر کے نفاذکیلئے ایک نئے عالمی دشمن کی ضرورت تھی۔ نائن الیون کے بعد انہوں نے اسلامی دہشت گردی کو سب سے بڑا عالمی خطرہ بنا کر پیش کیا اور دنیابھر میں دادا گیری کرنے کا لائسنس حاصل کرلیا۔ بارہ ستمبر کو بش نے دنیا کو یہ وارننگ دی کہ’’ہر ملک کو آج یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ ہمارے ساتھ ہے یا دہشت گردوں کے۔‘‘ بش نے دعویٰ کیا تھا کہ اس جنگ میں کافی وقت لگے لیکن جیت امریکہ کی ہوگی۔ان کے وہم و گمان میں نہ ہوگا کہ بیس سال گزر جائیں گے اور امریکہ پھر بھی یہ جنگ نہیں جیت پائے گا۔نائن الیون میں ملوث ۱۹؍  دہشت گردوں میں سے ایک بھی افغان نہیں تھا لیکن اس کے باوجود افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی کیونکہ القاعدہ کے سربراہ اوسامہ بن لادن نے وہاں پناہ لے رکھی تھی۔ امریکی اور نیٹو فوجی کارروائی کے نتیجے میں تین ماہ کے اندر القاعدہ کا انفراسٹرکچر تباہ ہوگیا اور طالبان کو پسپا اور اوسامہ کو روپوش ہونا پڑا۔ امریکہ اگر چاہتا تو ان مقاصد کی حصولیابی کے  بعد ۲۰۰۲ء  میں ہی افغانستان سے فوج واپس بلالیتا لیکن بش کے نیو کان ٹولے کی عراق کی تباہی کی دلی تمنا ابھی پوری نہیں ہوئی تھی۔ عراق کا نائن الیون سے کچھ لینا دینا نہیں تھا اس کے باوجود ۲۰۰۳ء  میں عراق پر یہ جعلی الزام لگاکر چڑھائی کردی گئی کہ صدام حسین کے پاس اجتماعی تباہی والے ہتھیار (WMD) ہیں۔ باپ (جارج بش)نے نوے کے اوائل میں عراق کو تباہ کیا اور رہی سہی کسر بیس سال بعد بیٹے(بش جونیئر) نے پوری کردی۔ امریکہ نے وار آن ٹیرر کے بہانے افغانستان، عراق، لیبیا، شام، صومالیہ، یمن،لبنان، پاکستان اور نہ جانے کن کن ملکوں میں کتنے بے گناہوں کا قتل عام کیا۔اگر امریکہ نے واقعی دہشت گردی مٹانے اور جمہوریت اور آزادی کا پرچم لہرانے کے نیک ارادے سے افغانستان میں فوج کشی کی ہوتی تو اسے بیس سال بعد اقتدار طشت میں سجاکر طالبان کے ہاتھوں میں سونپ کر اورمنہ چھپاکر بھاگنا نہیں پڑتا۔ بش نے کہا تھا کہ وار آن ٹیرر کا آغاز القاعدہ سے ہوا ہے لیکن یہ اس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب تک دنیا کی تمام دہشت گرد تنظیموں کا خاتمہ نہیں ہوجاتا ہے۔سچائی یہ ہے کہ افغانستان سے القاعدہ کے پاؤں ضرور اکھڑ گئے لیکن اس نے عراق میں اور دنیا کے مختلف حصوں میں قدم جمالئے۔ علاوہ ازیں اس سے بھی زیادہ خطرناک تنظیم داعش معرض وجود میں آگئی۔ لندن، پیرس،میڈرڈ، میونخ، برسلز، بلغاریہ، اوسلو،مانچسٹر جیسے یورپ کے بڑے شہروں میں دہشت گردانہ حملے تواتر سے ہوتے رہے۔ جنگ سے نہیں انصاف، اخلاق اور انسانیت سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا۔صرف امریکہ ہی نہیں دہشت گرد تنظیمیں بھی یہ جنگ ہار چکی ہیں۔ ۱۹۹۶ء  میں اوسامہ بن لادن نے اعلان کیا تھا کہ القاعدہ اس وقت تک لڑتی رہے گی جب تک امریکہ کو جسے انہوں نے امت مسلمہ کا دشمن قرار دیا سعودی عرب کی پاک سر زمین سے بھگا نہ دے اور اسے مکمل طور پر تباہ نہ کردے۔ ۲۰۰۳ء  میں امریکی فوج سعودی عرب سے خود واپس چلی گئی۔ لیکن امریکہ تباہ نہیں ہوا۔ آج بھی وہ دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی اور فوجی طاقت والا ملک ہے۔ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی بالا دستی بدستور برقرار ہے اور وہ آج بھی سارے عالم عرب کا چہیتا ہے۔ جبکہ امریکہ نے بیس برسوں میں دہشت گردی مخالف جنگ کی آڑ میں متعددمسلم ممالک  کو تباہ کردیا ۔ دہشت گردانہ وارداتوں کی وجہ سے نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر میں اسلامو فوبیا میں اضافہ ہوا۔ خود اوسامہ کو دس سال قبل امریکی فوج نے قتل کر دیا۔ 
  اس لئے صرف امریکی قیادت کو ہی نہیں ان عسکریت پسند اور جنگجو مسلم تنظیموں کے سربراہوں کو بھی اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر تخریب اور تشدد کے ذریعہ انہوں نے کیا حاصل کر لیا اور مسلمانوں کا کتنا اجتماعی نقصان کروادیا۔ انہیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ اسلام کے نام پر خود کش بمباری کے ذریعہ بے گناہوں اور غیر متحاربین کا قتل کیا کسی حالت میں بھی جائز ہے۔ شکر ہے ڈونالڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن کو یہ ادراک ہوگیا کہ فوجی آپریشن دہشت گردی کا حل نہیں ہے اور نہ ہی دہشت گردی کو جنگ کے ذریعہ مات دی جاسکتی ہے کیونکہ یہ ایک نظریہ ہے کوئی ملک یا خطہ نہیں۔   گیارہ ستمبر کے حملوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے تھی لیکن ذمہ دار تنظیم کے چند سو افراد کو سزا دینےکے بجائے لاکھوں بے گناہوں کی زندگیاں اجاڑدینا کہاں کا انصاف تھا؟دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ نے جنگ کے تمام اصول و ضوابط کی دھجیاں اڑاکر رکھ دیں، ظلم و استبداد کی تمام حدیں پار کر دیں،ہولناک جنگی جرائم کا ارتکاب کیا،گونتا ناموبے کے عقوبت خانوں میں مقدمہ چلائے بغیر لوگوں کو غیر معینہ مدت تک قید میں رکھ کر ٹارچر کیاا لغرض یہ کہ تمام قانونی اور اخلاقی اقدار کو پامال کیا۔ ’ دی انڈی پینڈنٹ‘ کی ایک رپورٹ میں یہ ا نکشاف کیا گیا  کہ ۲۰۱۷ء  میں عراق کے شہر موصل کو داعش سے آزاد کرانے کیلئے کی گئیں امریکی بمباریوں  میں ۴۰؍  ہزار نہتے شہری مارے گئے تھے۔ لیکن دنیا بھر میں خون کی ندیاں بہا دینے کے باوجود امریکہ دہشت گردی کو ختم کرنےمیں ناکام رہا ہے۔ ٹرمپ اور بائیڈن نے افغانستان کی کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ بند اور امریکی فوج واپس بلا کراچھا کیا۔ اب بائیڈن کو چاہئے کہ دہشت گردی کے خلاف بیس برسوںسے جاری لاحاصل جنگ کے خاتمے کا بھی اعلان کردیں۔

new york Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK