Inquilab Logo Happiest Places to Work

نجیب کی والدہ سی بی آئی کی کلوزر رپورٹ کو چیلنج کرسکتی ہیں

Updated: July 03, 2025, 8:23 AM IST | New Delhi

فاطمہ نفیس نے اپنے بیٹے کی گمشدگی کے معاملے میںسی بی آئی اور دہلی پولیس پر لا پروائی کا الزام لگایا،انصاف کیلئے آخری سانس تک لڑنے کا عزم

Fatima Nafees has been fighting for her son for 8 years.
فاطمہ نفیس ۸؍ سال سے اپنے بیٹےکیلئے لڑرہی ہیں

۲۰۱۶ء میں لاپتہ ہونے والے جے این یو کے طالب علم نجیب احمد کی والدہ فاطمہ نفیس نے  اپنے بیٹے کی گمشدگی کے معاملے میں کلوزر رپورٹ  کے حوالے سے سی بی آئی اور دہلی پولیس پر  ’لاپروائی ‘کا الزام لگایا ہے اور کہا ہے کہ اگر انہیں انصاف کے لیے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑے تو  وہ وہ بھی کریں گی۔ایک فیس بک پوسٹ میں، انہوں نے کہا کہ وہ اپنی آخری سانس تک لڑیں گی۔ دہلی کی ایک عدالت نے پیر کو سی بی آئی کو نجیب احمد کے کیس کو بند کرنے کی اجازت  دی تھی۔۲۷؍ سالہ نجیب نئی دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ایم ایس سی بائیوٹیکنالوجی سال اول میں زیر تعلیم تھے جب وہ اکتوبر ۲۰۱۶ء  میں اپنے ہاسٹل سے لاپتہ ہوئے۔
  ای ٹی وی بھارت کی ایک رپورٹ کے مطابق فاطمہ نفیس نے کہا کہ ان کی لڑائی صرف اپنے بیٹے کیلئے نہیں ہے بلکہ ہر اس ماں کیلئے ہے جو اپنے بچے کیلئے انصاف کی تلاش میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سب سے بڑی تفتیشی ایجنسی اور پورا عدالتی نظام بھی یہ نہیں بتا سکا کہ میرا بیٹا کہاں ہے۔ انہوں نے مزید کہا’’برسوں تک، میرے بیٹے کے بارے میں جھوٹ پھیلایا گیا۔ دہلی ہائی کورٹ نے بعد میں اس طرح کے تمام مواد کو ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے ہٹانے کا حکم دیا۔‘‘ فاطمہ نفیس  نےجو اپنے بیٹے کے معاملے میں منصفانہ جانچ کا مطالبہ کرنے کیلئے جے این یو کے طلبہ کے ساتھ احتجاج میں سب سے آگے تھیں، ان لوگوں کی تعریف کی جو ان کے ساتھ کھڑے تھے۔
 سپریم کورٹ کے وکیل ڈاکٹر اے پی سنگھ کے مطابق، نجیب کی والدہ کلوزر رپورٹ کو چیلنج کرنے کیلئے قانونی راستے تلاش کر سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا’’فاطمہ نفیس ایک احتجاجی پٹیشن کے ذریعے ڈسٹرکٹ سیشن کورٹ سے رجوع کر سکتی ہیں۔ وہ دہلی ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن بھی دائر کر سکتی ہے اور سپریم کورٹ سے بھی رجوع کر سکتی  ہیں۔‘‘ ڈاکٹر اے پی سنگھ نے مزید کہا کہ سی بی آئی ۸؍ سال میں نجیب کا کوئی سراغ نہیں لگاسکی۔ نہ ہی اس کے زندہ یا مردہ ہونے کا کوئی ثبوت  تلاش کرسکی ۔ سب کو حق ہے کہ وہ سپریم کورٹ تک انصاف کے لیے اپنی جنگ لڑے۔
  واضح رہےکہ نجیب احمد۱۵؍اکتوبر ۲۰۱۶ء کی رات یونیورسٹی کے ماہی مانڈوی ہاسٹل سے مبینہ طور پر اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد سے وابستہ کچھ طلبا کے ساتھ جھگڑے کے بعد لاپتہ ہو گئے تھے۔ اس کیس کی ابتدائی تحقیقات دہلی پولیس نے کی اور بعد میں اسے سی بی آئی کو منتقل کیا گیا۔ سی بی آئی نے اکتوبر۲۰۱۸ء میں اس معاملے کی تحقیقات بند کردی تھیں کیونکہ نجیب احمد کا سراغ لگانے کی کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

new delhi Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK