Inquilab Logo

حکومت کے ۹؍ سال اور ملک کے نوجوان

Updated: May 30, 2023, 9:14 AM IST | Mumbai

مودی حکومت نے ۹؍ سال پورے کرلئے۔ اِسے اتفاق نہیں سمجھا جاسکتا کہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے افتتاح کیلئے حکومت کی سالگرہ کے آس پاس ہی کی تاریخ (۲۸؍ مئی) مقرر کی گئی۔ ۲۰۱۴ء میں مودی حکومت نے ۲۶؍ مئی کو حلف لیا تھا۔

narender modi
نریندر مودی

مودی حکومت نے ۹؍ سال پورے کرلئے۔ اِسے اتفاق نہیں سمجھا جاسکتا کہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے افتتاح کیلئے حکومت کی سالگرہ کے آس پاس ہی کی تاریخ (۲۸؍ مئی) مقرر کی گئی۔ ۲۰۱۴ء میں مودی حکومت نے ۲۶؍ مئی کو حلف لیا تھا۔ ہم ایسا سمجھتے ہیں کہ اس سال چونکہ ۲۶؍ مئی جمعہ کو آرہا تھا اور کسی بڑی تقریب کیلئے اتوار کا دن مناسب تصور کیا جاتا ہے اسلئے اس تقریب کو دو دِن بعد یعنی ۲۸؍ مئی کو منعقد کیا گیا، یہ الگ بات کہ اسے سالگرہ سے نہیں جوڑا گیا۔ کیوں نہیں جوڑا گیا اس کی بھی وجہ ہے۔ حکمراں جماعت کے تشہیری مزاج اور تشہیری ترجیحات ہر خاص و عام پر واضح ہیں مگر تشہیر میں  جان تب پڑتی ہے جب کہنے کیلئے بہت کچھ ہو۔ بد قسمتی سے موجودہ حکومت کے پاس کہنے کیلئے بہت کچھ نہیں ہے۔ لابھارتھی اسکیم ضرور اس کے بلند بانگ دعوؤں میں شامل ہے مگر اس پر اتنی تنقید ہوچکی ہے کہ حکومت شاید ہی اسے طرۂ امتیاز کے طور پر پیش کرسکے۔ اس لئے سالگرہ کے آس پاس ہی نئی پارلیمنٹ کا افتتاح رکھا گیا تاکہ نیوز چینلوں کے کیمروں کے سامنے  حکومت ہی حکومت رہے، کوئی دوسرا واقعہ افتتاح پر سبقت نہ لے جاسکے۔
 سوال یہ ہے کہ مودی حکومت کے پاس کہنے کیلئے بہت کچھ کیوں نہیں ہے؟ اس کا جواب سب کے پاس ہے۔ مودی حکومت نے عوام سے جتنے وعدے کئے تھے اُن میں سے بیشتر پورے نہیں ہوئے۔ نہ تو کسانوں کی آمدنی دوگنا ہوئی نہ ہی روزگار کے سالانہ ۲؍ کروڑ مواقع پیدا ہوئے۔ ہر شہری کے کھاتے میں پندرہ لاکھ روپوں کی بات ہم نہیں کررہے ہیں کیونکہ وزیر داخلہ اَمیت شاہ اسے انتخابی جملہ قرار دے چکے ہیں اور اس دعوے پر فل اسٹاپ لگ چکا ہے۔ سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور بعد ازاں سب کا وشواس کا نعرہ اَب نہ تو دُہرایا جاتا ہے نہ ہی حکومت اس کی متحمل ہوسکی ہے۔ نوجوانوں میں اضطراب کسی دور میں اتنا نہیں تھا جتنا کہ اِن نو برسوں میں دیکھنے کو ملا ۔ ابتداء ہی میں پونے کی فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا (ایف ٹی آئی آئی) کے طلبہ نے حکومت کے اُس فیصلے کیخلاف مزاحمت کی جس کے ذریعہ اداکار سے سیاستداں بننے والے گجندر چوہان کو انسٹی ٹیوٹ کا چیئرمین مقرر کیا گیا تھا۔ تب (ایف ٹی آئی آئی) سے لے کر اب (خاتون پہلوانوں کا احتجاج) تک ملک کے طلبہ اور نوجوانوں میں  بے چینی کی کیفیت برقرار ہے۔ جے این یو، جامعہ، یونیورسٹی آف حیدرآباد، جادَو پور یونیورسٹی،  دیگر جامعات او رکرناٹک کی درس گاہیں (حجاب تنازع) اس کی مثالیں ہیں جہاں طلبہ کو پڑھائی لکھائی چھوڑ کر احتجاج اور مزاحمت کی راہ اختیار کرنی پڑی۔
  مسائل اور بھی کئی ہیں مگر ہم نے طلبہ اور نوجوانوں ہی کو موضوع بحث بنایا کیونکہ کل ملک کی باگ ڈور آج کے انہی نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہوگی جنہیں اعلیٰ معیاری تعلیم کچھ اس طرح ملنی چاہئے کہ اُن کی صلاحیتوں کو جِلا ملے، وہ اپنے لئے بہتر مستقبل تراش سکیں، اُن میں بہترین انجینئر، ڈاکٹر، اساتذہ،  سیاستداں، سائنٹسٹ،  ٹیکنوکریٹ، بیوروکریٹ، صنعتکار اور کھلاڑی پیدا ہوں جو ملک کو قابل ِ رشک  بلندیوں تک لے جائیں اور وطن عزیز  خود کو وشو گرو کہنے میں حق بجانب ہو مگر اِن نو برسوں میں ملک کا سیاسی ماحول بالخصوص درس گاہوں کا ماحول اتنا منتشر ہوا کہ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ کیا نوجوانوں کی زیادہ آبادی کا فائدہ (ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ) اس طرح اُٹھایا جاسکتا ہے کہ نوجوان اور طلبہ بے چین اور مضطرب رہیں؟   n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK