یورپی محقق ’مائیکل او سُلی وَن‘ نے اپنی کتاب’نو برڈس آف پیسیج: اے ہسٹری آف گجراتی مسلم بزنس کمیونٹیز ‘ میں بوہرہ، خوجہ اور میمن برادری کا جائزہ لیا ہے، اس میں تینوں برادریوں کی ۱۸۰۰ء سے ۱۹۷۵ء تک کے معاشی، تاریخی اور تہذیبی سفر کی روداد پیش کی گئی ہے۔
بوہری، خوجہ اور میمن برادریاں مغربی ہند کی متحرک تجارتی روح کی جیتی جاگتی علامت رہی ہیں۔ ان گجراتی مسلم گروہوں کو انیسویں صدی کے دوران کافی فروغ حاصل ہوا۔ یہ لوگ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کا ایک فیصد سے زیادہ نہیں تھے، لیکن ان کی تنظیمی صلاحیت، بحری تجارت میں مہارت اور بین الاقوامی روابط نے انہیں غیر معمولی طاقت و ترقی بخشی۔ اپنی منظم جماعتوں کے ذریعے انہوں نے صنعت و تجارت پر زبردست رسوخ حاصل کیا۔ اس طرح وجود میں آنے والی اقتصادی نمو کا اثرآج بھی نظر آتا ہے۔ اقلیتوں میں اقلیت ہوتے ہوئے بھی ان برادریوں نے بے مثال معاشی ترقی کی۔
’’نو برڈس آف پیسیج: اے ہسٹری آف گجراتی مسلم بزنس کمیونٹیز(۱۹۷۵ء۔ ۱۸۰۰ء)‘‘ نامی کتاب ایک یورپی محقق مائیکل او سُلی وَن کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ او سُلی وَن، اٹلی میں واقع یورپین یونیورسٹی سے منسلک ہیں۔ وہ اس کتاب میں بوہرہ، خوجہ اور میمن برادریوں کے طرز زندگی، اجتماعی نظام اور کاروباری طور طریقوں پرروشنی ڈالتے ہیں۔ سیاست کی آندھیوں، معیشت کے مدو جزر اور و قت کی کروٹوں سے گزارتے ہوئے ان کی روداد سفر کا تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
کتاب کا عنوان، نو برڈس آف پیسیج سمجھنے میں ذرا دشوار ہے۔ نوآبادیاتی مؤرخین نے ان برادریوں کو نقل مکانی کرنے والے پرندے قرار دیا تھا جو ایسٹ انڈیا کمپنی اور یورپی قابضین کی طرح صرف منافع کے بھوکے تھے۔ مصنف کے مطابق ان برادریوں کو غلط سمجھا اور پیش کیا گیا۔ او سُلی وَن بتاتے ہیں کہ یہ پرندے محض گزرجانے والے نہ تھے؛ یہ جہاں جا بسے، وہاں جڑوں کی طرح پیوست ہوگئے اور معیشت کی ترقی میں معاون بنے۔
یہ کتاب تین بنیادی سوالات اٹھاتی ہے؛ تجارت کے میدان میں ان تین برادریوں کی بے پناہ ترقی و کامیابی کی کیا وجوہات تھیں ؟ ان کے کمیونٹی ادارے، جماعت سسٹم نے اس ترقی میں کیا کردار ادا کیا؟ اور ان کی دولت کس طرح مسلمانوں اور غیر مسلم دونوں کیلئے باعثِ حسد و رقابت بنی؟
بمبئی کے عروج سے قبل سورت بڑا تجارتی اور مالیاتی مرکز تھا۔ اگرچہ اٹھارویں صدی کے آغاز میں مسلم تاجروں کے سمندری کاروبار پر ضرب لگی، تاہم سورت علاقائی اور عالمی تجارتی نیٹ ورک کا ایک کلیدی مرکز بن کر باقی رہا۔ گجراتی مسلمانوں کی تجارتی سرگرمیاں انہیں افریقہ تا ایشیا مختلف منڈیوں سے ہم آہنگ رکھتی تھیں۔ انیسویں صدی کی نوآبادیاتی پالیسیوں نے ہندوستانی صنعت کو مجروح کیا۔ اس کے باوجود یہ برادریاں تادیر اپنا اثر قائم رکھ سکیں۔
سندھ سے کاٹھیاواڑ کی طرف میمن برادری کی نقل مکانی ان کی کاروباری ذہانت اور موافقت کی عمدہ مثال ہے۔ اٹھارہویں صدی کے اواخر تک انہوں نے اپنے ’جماعت خانوں ‘ کے ذریعے نہ صرف تجارتی روابط کو مربوط کیا بلکہ مقامی حکمرانوں کے ساتھ شکایات کے ازالے کی راہیں بھی نکالیں۔ دھوراجی کی میمن جماعت کی تاریخ اس کا عمدہ مظہر ہے۔ وہ جب ریاستی محصولات اور ہندو ساہو کاروں کی ملی بھگت سے تنگ آ گئے تو انہوں نے اجتماعی ہجرت کا راستہ اپنایا، جوناگڑھ جا کر نئی زمین تلاش کی، اور بالآخر واپسی پر اپنے اقتصادی وزن کے بل بوتے پر مراعات حاصل کیں۔
گجراتی مسلمانوں کی تجارتی سرگرمیاں برصغیر کی حدود سے کہیں آگے تک پھیلی ہوئی تھیں۔ اٹھارہویں صدی تک وہ جدہ سے زنجبار تک کے بحری راستوں پر متحرک تھے۔ بحری راستوں سے نقل وحمل میں ان کی یہ مہارت انہیں نہ صرف عالمی منڈیوں سے جوڑتی تھی بلکہ ہندوستان کی زراعتی کساد بازاری کے اثرات سے بھی محفوظ رکھتی تھی۔
مغلوں اور مراٹھوں کے بعد مغربی ہند پر انگریز قابض ہوئے۔ او سُلی وَن کے مطابق، سرکارِ انگلشیہ اورمتعلقہ `جماعتوں نے مل کر تال میل کے ساتھ اپنے لوگوں کی مدد کی۔ قدرتی آفات، قحط، نقلِ مکانی، جنگی حالات، اور معاشی اتار چڑھاو سے نبرد آزما ہونے میں ان کی مدد کی گئی۔ قانونی معاملات میں، نوآبادیاتی عدالتوں نے دیگر ہندوستانیوں کے مقابل ان برادریوں سے بہتر سلوک روا رکھا۔
مصنف، تاجروں اور ان کی جماعتوں کے باہمی تعلقات کو واضح کرتا ہے۔ جماعتیں آزاد کارپوریشنز کی طرح کام کرتی تھیں جو کمیونٹی کے سرمائے کو مذہبی اوقاف کی شکل میں محفوظ رکھتی تھیں۔ ان کے قائدین کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ سرمایہ مختص کریں اور تنازعات حل کریں۔ جماعت سے بے دخلی کا ڈر نظم و ضبط برقرار رکھتا ہے۔ جماعتیں جہاں ایک طرف تاجروں کی دولت سے فیض یاب ہوئیں تو دوسری جانب اسی دولت کے سبب جھگڑوں اور کشمکش کا میدان بھی بنیں۔ ارکان کی زندگیوں میں مذہبی سربراہ کے دائرہ اختیار کو لے کر آپسی اختلافات بھی پیدا ہوتے رہے۔ ۱۸۶۶ء کا وہ تنازع یادگار ہے جب بڑے خوجہ تاجروں نے آغا خان اوّل کو چیلنج کیا اور اس کے نتیجے میں برطانوی عدالتوں نے ایک ایسا استثناء وضع کیا جس سے آغا خان کو جماعتی جائیداد پر مکمل قابو حاصل ہوگیا۔ اسلامی قانون اور نوآبادیاتی اتھاریٹی کے درمیان ہونے والی ان بحثوں کے نتیجے میں ان تینوں برادریوں میں نئے مسلم مذہبی حقائق نمودار ہوئے۔
۱۸۸۰ء سے ۱۹۱۲ء کے درمیان ان تاجر قومیتوں میں مذہبی تبدیلیوں کے بڑے رجحانات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ بوہرہ اور خوجہ برادریوں میں ایک ایسا ماڈل پروان چڑھا جہاں ایک واحد پیشوا مذہبی تعبیر کا مختار تھا۔ مذہبی رہنما ہی مکمل مقتدر اتھاریٹی تسلیم کیا گیا البتہ میمنوں نے مشاورتی طرز قائم رکھا۔ ان کیلئے علماء ہی مینارِ روشنی تھے جنہیں مقامی جماعتوں کی سرپرستی حاصل تھی۔ یہاں مصنف یہ بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ وقت اور حالات کے مطابق مذہبی تصورات اور سماجی نظم میں تبدیلیاں واقع ہوتی رہیں۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد کا سیاسی منظرنامہ قابل ذکر ہے۔ تحریکِ خلافت، ہندوستانی قوم پرستی اور سامراجی وفاداری سب مل کر ان جماعتوں کو گھیر لیتے ہیں۔ جنگ عظیم کے دوران اگرچہ ان کی وفاداری نے انہیں ریاستی جبر سے بچایا لیکن تاجروں کی وفاداری پر شک بھی کیا جانے لگا۔ بدلتے حالات کے ساتھ کچھ تاجر اور جماعتیں سیاسی سرگرمیوں اور ابھرتی ہوئی ہندوستانی قومی تحریک میں بھی شامل ہوئے۔ رنگون کی میمن جماعت کا ذکر ہے جس نے سنگاپور کی سب سے بڑی بغاوت کو مالی مدد فراہم کی۔
۱۹۲۳ء تا ۱۹۳۵ء کے دوران جماعتی اوقاف پر کنڑول کی کشمکش کی روداد تحریر کی گئی ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب برادریوں کی وقف جائیدادوں کا نظم، جو کبھی ناقابلِ چیلنج سمجھا جاتا تھا، اندرونی و بیرونی تنقید کا نشانہ بنا۔ نئے تنازعات جنم لینے لگے۔ مسلم فلاحِ عامہ کیلئے ان اوقاف کے استعمال ہوسکنے یا نہ ہونے پر سوالات اُٹھے۔
او سُلی وَن ۱۹۳۳ء سے ۱۹۴۷ء کے درمیان ان تین برادریوں کو پیش آنے والی قانونی، سیاسی اور اقتصادی مشکلات کو بیان کرتے ہیں۔ برطانوی راج زوال پزیر تھا۔ برادریاں اب اس سہولت اور راحت سے محروم ہوچکی تھیں کہ سرکار مذہبی معاملات میں دخل نہ دیتی۔ اس دور میں، اسلامی شریعت اور مقامی رسوم و رواج کے درمیان توازن ڈھونڈنا اب ان جماعتوں کیلئے ایک روزمرہ کا مسئلہ بن گیا تھا۔ آزادی کے بعد ان برادریوں کو نئے چیلنج درپیش ہوئے۔ پاکستان میں یہ ۱۹۷۱ء کے بعد کی معاشی ناکامیوں کا تختۂ مشق بنیں اور ہندوستان میں بھی ان کی وفاداریاں کو کچھ شک سے دیکھا گیا البتہ دونوں ریاستوں نے کوشش کی کہ ان برادریوں کا سرمایہ مخالف ملک کی جھولی میں نہ جا گرے۔
کتاب میں جماعتوں کو بطور ادارہ، ان کی ارتقائی صورتوں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ خوبی یہ ہے کہ کتاب جماعتوں کو محض ادارے نہیں بلکہ انسانوں کے مجموعے کی شکل میں دکھاتی ہے۔ ایسے انسان جو رشتہ داری، اعتماد، چھوٹی چھوٹی رقابتوں اور اندرونی اختلافات کے جال میں بندھے ہوئے ہیں۔ اسلام اور جدید سرمایہ داری کی کشمکش کے پس منظر میں ان برادریوں کا اس انداز سے مطالعہ بڑا معلوماتی ہے۔ کارپوریٹ اسلام اور مسلم کیپٹل ازم جیسے الفاظ دماغ میں ویسا مزیدار ارتعاش پیدا کرتے ہیں، جیسا پہلی دفعہ تمباکو آمیز پان کھانے والے کسی شریف انسان کو محسوس ہوتا ہے۔
یہ کتاب ایک معاشی مورخ کی تھیسس ضرور ہے۔ لیکن بوجھل نہیں دلچسپ ہے۔ اوسُلی وَن نے تاریخ کی کڑیاں جوڑنے کیلئے صرف روایتی ذرائع پر انحصار نہیں کیا بلکہ مذہبی رسائل، سوانحی ادب، سفرنامے، قانونی ریکارڈ اور قدیم تصویروں سے بھی حقائق کشید کئے ہیں۔ وہ خواتین کے سرگرم کردار کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔ کتاب آئندہ تحقیق کیلئے نئے دروازے کھولتی ہے۔
کتاب مذکورہ مسلم برادریوں کی ۱۹۷۵ء تک کی تاریخ کا احاطہ کرتی ہے۔ بعد کے ان۵۰؍ برسوں میں اب تک کیا صورتحال رہی؟ یہ مبصر صاف محسوس کرتا ہے کہ بوہرہ اور خواجہ کمیونٹی کے افراد اب بھی معاشی ترقی کی راہ پر گامزن نظر آتے ہیں۔ ان میں اجتماعیت بھی بڑی حد تک محفوظ ہے لیکن میمن برادریوں میں دونوں پہلوؤں سے انحطاط نظر آتا ہے۔ اس کی وجوہات پر غور کرنا ضروری ہے۔ مسلمانوں کی دیگر جماعتوں کو ان برادریوں سے، اقتصادی ترقی کیلئے اجتماعیت کی طاقت کا استعمال سیکھنے کی فوری اور شدید ضرورت ہے۔