Inquilab Logo

کسی کو پروا نہیں کہ کتنا خلاء ہے بچوں کی تربیت میں

Updated: November 12, 2022, 1:08 PM IST | Shahid Lateef | Mumbai

دو روز بعد یوم اطفال ہے۔ یہ دن ہر سال آتا ہے اور آکر چلا جاتا ہے۔ لوگ اس سے کچھ نہیں سیکھتے جبکہ بچوں کے اس دِن بڑوں کو یہ سوچنا چاہئے کہ وہ اُن کی تربیت کا کتنا حق ادا کررہے ہیں۔

Picture .Picture:INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

اس  کالم میں آپ کہانیوں کا خلاصہ پڑھتے رہے ہیں۔ آج بھی ایک کہانی کا تذکرہ یا یاددہانی اس معذرت کے ساتھ کروائی جارہی ہے کہ یہ بچوں کی کہانی ہے مگر بچوں کی کون سی ایسی کہانی ہے جسے بڑے نہیں پڑھ سکتے؟ افسر میرٹھی کی اس کہانی کا عنوان تھا ’’چڑیا کا خزانہ‘‘۔ افسر مرحوم نے اس کہانی میں ایک معمر جوڑے کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ روزانہ ایک چڑے کا انتظار کرتے تھے، جب وہ آتا تو اُس کیلئے ’’دسترخوان سجایا جاتا تھا‘‘۔ جس دن وہ نہ آتا معمر جوڑا پریشان ہوجاتا۔ چڑا انتظار تو کروا سکتا تھا مگر ناغہ نہیں کرتا تھا۔ چڑے کے ساتھ معمر جوڑے کی دوستی سے ان کی پڑوسن حسد میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ ایک دن مارے حسدکے، پڑوسن اُس کی چونچ توڑ دیتی ہے۔ معمر جوڑے کو اس کا علم ہوتا ہے تو وہ ازحد رنجیدہ ہوتا ہے۔ میاں بیوی کھانا پینا ترک کردیتے ہیں۔ پھر اُنہیں خیال آتا ہے کہ کیوں نہ جنگل میں جاکر چڑے کو تلاش کیا جائے اور اس کی ٹوٹی ہوئی چونچ کی مرہم پٹی جائے۔ تلاش بسیار کے بعد وہ چڑے کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ملاقات ہوتی ہے۔ چڑا اُنہیں دیکھ کر خوشی سے جھوم اُٹھتا ہے، جی جان سے اُن کی مہمان نوازی کرنے کے بعدبا دل ِناخواستہ رخصت کرتے وقت دو ٹوکریاں اُن کی خدمت میں تحفتاً پیش کرتا ہے کہ ان میں سے ایک ہلکی ہے دوسری بھاری، جو چاہیں قبول کرلیں۔ معمر جوڑا ہلکی ٹوکری قبول کرلیتا ہے۔ گھر پہنچنے کے بعد میاں بیوی پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں کہ ٹوکری کا حجم اور وزن خودبخود بڑھ گیا ہے اور اس میں سے ہیرے جواہرات برآمد ہوئے ہیں۔ پڑوسن کو اس کی خبر ہوتی ہے تو ہیرے جواہرات کے لالچ میں وہ بھی جنگل پہنچ کر چڑے کو تلاش کرنے لگتی ہے۔ حسد کرنے والی پڑوسن کا کیا حال ہوا ہوگا اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں اس لئے کہانی کو یہیں چھوڑ دینا بہترہے۔ اب اس کہانی کے ایک ایک منظر کو بچوں کے ذہن سے سوچئے۔ چڑے کا کھڑکی پر آنا۔ اس سے ہر ایک کے ذہن میں ایک کھڑکی یا جھروکہ اُبھرتا ہے۔ غور کیجئے ہر ایک کھڑکی یا جھروکہ مختلف ہے۔ کوئی چھوٹا ہے کوئی بڑا، کوئی روشن ہے کوئی تاریک، کوئی رنگین ہے کوئی بے رنگ۔ اب چڑے کو آتا ہوا دیکھئے اور محسوس کیجئے کہ بچوں کے ذہن میں اس کی تصویر کیسے اُبھر رہی ہے۔ اگر ہزار بچے ہوں اور اُن سے کہا جائے کہ آپ کے ذہن میں جو تصویر اُبھر رہی ہے اُسے کاغذ پر بنائیے تو یقین جانئے ہزار چڑے آپ کے پیش نظر ہوں گے اورہرچڑا دوسرے سے مختلف ہوگا۔ اب معمر جوڑے کو دیکھئے اور بچوں کے ذہنوں پر اُبھرنے والی تصویر کا جائزہ لیجئے۔ پھر مہمان چڑے کی میزبانی کا منظر دیکھئے۔ بچوں کے تصور میں اُبھرنے والے یہ تمام عدسے (سلائڈس) ہزار تصورات کا ایسا خزانہ (کولاج) ہوگا جس کے بارے میں آپ نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا۔
  یہ تھا بچوں پر کہانیوں کی اثر پزیری کا سب سے نمایاں پہلو۔ ایک کردار ہزار تصورات اُبھارتا تھا اور بچوں کے تخیل کو تقویت بخشتا تھا۔ اس سے طلبہ کا ذہن یکسو ہونا سیکھتا تھا جو بہت بڑی چیز ہے بالخصو ص آج کے دور میں جب ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کا ذہن  مرکوز یا یکسو‘ ہونے کا دورانیہ بہت کم ہوگیا ہے۔  اس کے علاوہ بھی کئی فائدے اُنہیں حاصل ہوتے تھے جن میں بہت اہم یہ ہوتے تھے: کہانیوں کا نشوونما پاتے ذہن اور تشکیل پاتی شخصیت پر اثرانداز ہونا، عبرت آموز کہانی سے عبرت حاصل کرنا  اور سبق آموز کہانی سے سبق سیکھنا۔ انہی کہانیوں سے اُن میں اعلیٰ اخلاقی اور تہذیبی قدریں جلا پاتی تھیں، اُن میں یہ احساس جاگزیں ہوتا تھا کہ جھوٹ نہیں بولنا چاہئے، حسد بُری چیز ہے، انتقام منفی جذبہ ہے، لالچ بُری بلا ہے، خاموشی ہزار بلاؤں کو ٹالتی ہے، بڑوں کی عزت کرنی چاہئے، انسان کو نیک ہونا چاہئے، اُسے دوسروں کی مدد کرنی چاہئے وغیرہ۔ ایسی ڈھیر ساری اچھی اچھی باتیں اُن کی گھٹی میں پڑ چکی ہوتی تھیں۔ وہ درس گاہ جانے سے پہلے یہ ساری باتیں سیکھ چکے ہوتے تھے۔ اس کی وجہ سے درس گاہ کی تعلیم اُن پر سہل ہوجاتی تھی۔ معلم یا معلمہ کو سائنس، ریاضی، تاریخ، جغرافیہ، شہریت یا کسی اور مضمون کی تدریس کے دوران بار بار اُنہیں الگ سے نصیحت کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی۔ وہ شائستگی سیکھ چکے ہوتے تھے۔ اُن میں ادب و احترام کا جذبہ پیدا ہوچکا ہوتا تھا۔   کہانیوں کا اپنا اثر تو ہوتا ہی تھا، کہانی سنانے والے کے تبصرے کی بھی اہمیت ہوتی تھی۔ کہانی سنانا فن ہے۔ یہ ہر ایک کو نہیں آتا مگر سیکھا جاسکتا ہے۔ بہت سے لوگوں کو ڈرامائی انداز میں کہانی سنانے کا ملکہ حاصل ہوتا ہے جس سے کہانی کی معنویت اور اثر پزیری میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ کہانی سنانے کے فن کا ایک پہلو یہ فیصلہ کرنا بھی ہوتا ہے کہ ایک قسط میں کہانی کہاں تک سنانی چاہئے  تاکہ بچوں کا تجسس برقرار رہے اور وہ دوسرے دن کی قسط کیلئے بے چین ہوجائیں اور انتظار کریں۔ اگلے وقتوں کے لوگوں کیلئے یہ فیصلہ کرنا کچھ مشکل نہیں ہوتا تھا۔ وہ بڑی آسانی سے ایک کہانی کئی کئی دن سناتے اور بچے انتظار کے سبب اُکتاتے نہیں تھے بلکہ دوسرے دِن زیادہ جوش و خروش کے ساتھ حاضر ہوتے تھے۔مقام حیرت و افسوس ہے کہ موجودہ معاشرہ بچو ںکو نہ تو تخیل فراہم کررہا ہے نہ تجسس۔ نہ ادب سکھارہا ہے نہ تہذیبی قدریں، نہ زبان بولنے کا سلیقہ فراہم کررہا ہے نہ زبان کے ہزاروں الفاظ، محاورے، ضرب الامثال، کہاوتیں وغیرہ اُن تک پہنچا رہا ہے۔ مجھے یاد ہے بچپن میںحالیؔ کی ’’بڑھیا کا دیا‘‘ سمیت درجنوں نظمیں ہم جماعتو ںکو زبانی یاد تھیں۔ ہم جماعتو ںمیں ہر طالب علم کسی تعلیم یافتہ اور مہذب گھرانے کا چشم و چراغ نہیں تھا مگر اس قابل ہوتا تھا کہ تعلیم یافتہ اور مہذب گھرانے کے بچوں کے ساتھ بیٹھ سکے اور کسی بھی مقام یا موقع پر خجل نہ ہو۔ اس سے ظاہر تھا کہ جو خاندان پڑھے لکھے نہیں تھے، وہ بھی مہذب ہوا کرتے تھے اور بچوں کو تہذیب سکھانے کے اپنے فرض سے غافل نہیں تھے۔  دو روز بعد یوم اطفال منایا جائیگا۔ ہر سال کی طرح، اس سال بھی یہ دن آئیگا اور چلا جائیگا اور بڑے یہ احساس نہیں کرپائینگے کہ وہ بچوں یعنی لخت ہائے جگر کے ساتھ انصاف نہیں کررہے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK