بی جے پی اور اتحادیوں کی موجودہ حکومت کا نظریۂ وحدت مختلف ہے جو وحدت کی تعریف ہی میں نہیں آتا۔ ہماری وحدت وہ ہے جسے ہم کثرت میں وحدت کا نام دیتے ہیں اس لئے کہ ہم رنگا رنگی پر یقین رکھتے ہیں اور تکثیری سماج ہیں۔
EPAPER
Updated: October 02, 2023, 1:15 PM IST | P Chidambaram | Mumbai
بی جے پی اور اتحادیوں کی موجودہ حکومت کا نظریۂ وحدت مختلف ہے جو وحدت کی تعریف ہی میں نہیں آتا۔ ہماری وحدت وہ ہے جسے ہم کثرت میں وحدت کا نام دیتے ہیں اس لئے کہ ہم رنگا رنگی پر یقین رکھتے ہیں اور تکثیری سماج ہیں۔
مَیں نے کئی افراد سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کون سی چیز انہیں سب سے زیادہ پریشان کرتی ہے؟ تقریباً سبھی نے ایک سے زیادہ چیزوں کے نام بتائے۔ مثلاً ایک ماں کو مہنگائی پریشان کرتی ہے مگر اپنے بچے کی سلامتی نہیں ۔ ایک صنعتی ملازم اپنی ملازمت کے تحفظ کے سلسلے میں پریشان ہے مگر اپنے آس پاس کے پُرتشدد ماحول سے پریشان نہیں ہے۔ ایک نوجوان جوڑا اپنے والدین کی اجازت کیلئے فکرمند رہتا ہے لیکن اُسے اخلاق اور تہذیب سکھانے والے خود ساختہ گروہوں سے پریشان نہیں ۔ ان جوابات سے ہمیں ان متعدد مسائل کا علم ہوتا ہے جن سے ہندوستان کے عوام پریشان ہیں ۔ میں کوئی صفائی نہیں پیش کررہا ہوں کیونکہ یہ مسائل دہائیوں سے موجود ہیں ۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر یہ مسائل اب بھی موجود ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے تو پھر کیا وجہ تھی کہ ہمارے اسلاف نےملک کی آزادی اور خودمختاری کیلئے جدو جہد کی؟
پچھلےڈھائی سو برس سے’’عوام کی حکومت، عوام کے لئے اور عوام کے ذریعے‘‘ کا نعرہ (جو جمہوریت کی تعریف بیان کرنے کیلئے نقل کیا جاتا ہے) اس سوچ کے ساتھ قبول کیا جاتا رہا ہے کہ جمہوری حکومت بننے کے بعد ملک ترقی، معاشی خوشحالی، انسانی حقوق ، مذہبی آزادی، ثقافتی پیش رفت، مساوات اور اخوت کی راہ پر گامزن ہوگا۔ یہ چیلنجز جاپان جیسے یک نسلی سماج سے لے کر امریکہ اور ہندوستان جیسے کثیر نسلی سماج کے سامنے ہیں ۔ ہمارا طریق کارسب سے جدا اور سب کیلئے قابل تقلید ہونا چاہئے چنانچہ میرا ماننا ہے کہ اس مسئلہ کو `’’متحد عوام کی حکومت، بے غرض عوام کے ذریعے اور سبھی عوام کے لیے‘‘ کے فارمولے سے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں مختلف ممالک نے مختلف راستے اختیار کئے ہیں ۔ مثلاً چین یک جماعتی نظام اور یک رُخی یا استبدادی حکومت کا نظریہ پیش کرتا ہے۔ روس میں فوجی، توسیع پسند حکومت ہے۔ میانمار اور دیگر ممالک میں فوجی آمریت قائم ہے۔ ایران، افغانستان اور کچھ دیگر ممالک میں مذہبی حکومت ہے۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ ایک صدارتی طرز کی وفاقی حکومت کا نمونہ ہے۔ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کنیڈا اور یورپ کے کئی ممالک نے برطانوی پارلیمانی نظام حکومت کو اپنایا ہے جس میں انتظامیہ پارلیمنٹ کو جواب دہ ہوتا ہے۔ ہندوستان میں بھی برطانوی پارلیمانی نظام نافذ ہے جسے پارلیمانی جمہوریت کہا جاتا ہے۔ دُنیا میں سب سے زیادہ تکثیری مزاج ملک کی وجہ سے ہر نسل، ذات، مذہب، زبان، ثقافت کے ماننے والوں کو نمائندگی دینے کےلئے اس سے بہتر کوئی ماڈل نہیں ہوسکتا تھا جو ہم نے اپنایا۔
مگر، بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کی موجودہ حکومت وحدت کا الگ اور جدا ماڈل پیش کرتی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ سبھی ہندوستانیوں کو اپنے ایک ہونے کا مظاہرہ اس طرح کرنا چاہئے کہ وہ اپنی گوناگوں خصوصیات کو تج دیں ، بالائے طاق رکھ دیں ۔ بی جے پی اس بات کو نظر انداز کرتی ہے کہ کثرت میں وحدت ۷۵؍ سال سے ہماری تاریخ پر نقش ہے۔ بی جے پی نے اپنے پیش کردہ وحدت ماڈل کے دائرۂ کار کو زبان، کھان پان، لباس، سماجی رویے حتیٰ کہ پرسنل لاء اور ثقافت تک دراز کردیا ہے۔ مثلاً قدیم صرف و نحو اور ادبی ذخیرہ کی حامل زبانوں کے زندہ اور رائج ہونے کے باوجود ہندی کا مسلط کیا جانا اور اسکولوں اور ہاسٹل میں اکثریتی طبقہ کی پسند کے یونیفارم اور غذا کی سفارش کیا معنی رکھتی ہے؟
بی جے پی اور اس کے اتحادی چاہتے ہیں کہ شادی بیاہ میں اکثریتی طبقہ کے طور طریقے رائج ہونگے۔ اخلاق کی خودساختہ علمبردار چند تنظیموں کے ہاتھ میں نوجوانوں کے سماجی رویہ کو بدلنے کا لائسنس ہو۔ یونیفارم سول کوڈ کے ذریعے اقلیتوں اور قبائلیوں کی ثقافت اور پرسنل لاء ختم کردیا جائے۔ یاد رہے کہ سبھی منریگا مزدوروں کو آدھار کے ذریعے رقم ادائیگی کے سسٹم کو لازمی بنانے کے پیچھے بھی وحدت کا نظریہ کارفرما ہے۔ ’’دی وائر‘‘ کے مطابق ۲۸؍ اگست ۲۰۲۳ء کو حاصل کیا گیا منریگا ویب سائٹ کا ڈیٹا بتاتا ہے کہ۱۴؍ کروڑ ۳۴؍ لاکھ مزدوروں میں سے ۱۱؍ کروڑ، ۷۲؍ لاکھ مزدورہی اُجرت کے حقدار ہونگے یعنی تقریباً ۲۰؍ فی صد مزدوروں کو ان کی مزدوری نہیں ملے گی۔ یاد رہے کہ یہ طبقہ بہت غریب ہے کیونکہ انہیں اپنے گاؤں میں کام نہیں ملتا۔ ’’ایک ملک، ایک راشن کارڈ‘‘ اسکیم (یہ بھی ایک طرح کی وحدت ہے) کے تحت لاکھوں غریبوں کو راشن نہیں ملے گا۔ ملک میں تقریباً ۴۵؍ کروڑ مہاجر مزدور ہیں جن میں ساڑھے پانچ کروڑ بین ریاستی ہیں ۔ مذکورہ بالا اسکیم کے تحت آدھار سے منسلک راشن کارڈ کی بدولت کارڈ ہولڈر ملک میں کسی بھی راشن دکان سے مناسب داموں میں راشن خرید سکتا ہے۔ انڈیا اسپینڈ کے سروے کے مطابق ۲۰۱۹ء سے ۲۰۲۳ء کے درمیان سرکاری ڈاٹا کے مطابق غیر راستی افراد کو راشن دینے کے پندرہ لاکھ ٹرانزیکشن درج کئے گئے۔ اس طرح ایک ملک ایک راشن کارڈ اسکیم ۵؍ کروڑ سے زیادہ بین ریاستی مہاجر مزدوروں کو راشن مہیا کرانے میں ناکام رہی کیونکہ اس اسکیم میں ریاستی حکومتیں آزاد ہیں اور وہ کسی کو جوابدہ نہیں ہیں ۔ حکومت کی اس پالیسی کے تحت ہم ایک فیصلہ کن مرحلہ کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ جیسے ایک ملک، ایک الیکشن۔
لاء کمیشن اور دیگر کمیٹیوں نے ایک ملک ایک الیکشن کے سلسلے میں بتایا ہے کہ اس کے لئے دستور میں پانچ جگہوں پر ترامیم کرنی ہوگی اور یہ مسئلہ سیاسی اور انتظامی سطح پر تنقید کا موضوع بنے گا۔ بہرحال، ایک نام نہاد کمیٹی بنا کر سرکار نے اس جانب پیشقدمی کردی ہے۔ اس کا مقصد ایک الیکشن نہیں بلکہ یک قطبی یا ’’یک رُخی‘‘ سیاسی نظام کا قیام ہے جس کی باگ دوڑ بی جے پی کے ہاتھوں میں ہوگی۔ ملکی اور ریاستی انتخابات ایک ساتھ کروا کربی جے پی پارلیمنٹ میں دو تہائی سیٹیں اور بیشتر ریاستوں میں حکومت بنانا چاہتی ہے جس کے ذریعہ دستور میں متنازع ترامیم کرکے ہندوراشٹر کے قیام کا راستہ ہموار کیا جائیگا، خدانخواستہ۔ سوال یہ ہے کہ اس کوشش میں جیت کس کی ہوگی؟ مودی کی یا عوام کی؟ کیا اس سے عوام کو فیض پہنچے گا؟ اگر پہنچے گا تو وہ کس قسم کا فیض ہوگا، کوئی ہے جو اس کا جواب دے؟