پُلٹزر انعام یافتہ امریکی صحافی اینی جیکب سن کی مقبول کتاب ’ نیو کلیئر وار: اے سیناریو‘ کا جائزہ، اس کتاب میں مصنفہ نے نہایت مہارت کے ساتھ امریکہ کی دفاعی تنصیبات، اس کے نظام، احکامات دینے کے اختیاراتی سسٹم کی منظر کشی کی ہے
EPAPER
Updated: June 29, 2025, 12:11 PM IST | Ghulam Arif | Mumbai
پُلٹزر انعام یافتہ امریکی صحافی اینی جیکب سن کی مقبول کتاب ’ نیو کلیئر وار: اے سیناریو‘ کا جائزہ، اس کتاب میں مصنفہ نے نہایت مہارت کے ساتھ امریکہ کی دفاعی تنصیبات، اس کے نظام، احکامات دینے کے اختیاراتی سسٹم کی منظر کشی کی ہے
اِس وقت مشرقِ وسطیٰ میں جنگ بندی جاری ہے۔ ایران پر اسرائیل کا حملہ، ایران کا دندان شکن جواب اور بعد میں ایرانی جوہری ٹھکانوں پر امریکہ کی بمباری دیکھ کر دنیا مخمصے میں ہے۔ آجکل نیوکلیئر بم جیسے خطرناک الفاظ بچے بچے کی زبان پر ہیں لیکن ان الفاظ کے درست معنی، ان کی ہولناکی کا ٹھیک ٹھیک اِدراک کم ہی لوگوں کو ہے۔
۲۰۲۴ء میں، اینی جیکب سن کی کتاب’نیو کلیئر وار: اے سیناریو‘ منظر عام پر آئی۔ کتاب ایک جوہری حملے کے فوراً بعد منٹ در منٹ پیش آنے والے ممکنہ واقعات کو ترتیب وار بیان کرتے ہوئے قاری کے ہوش اُڑادیتی ہے۔ کتاب میں بیان کردہ خیالی منظرنامے میں شمالی کوریا کا امریکہ پر ایک میزائل حملہ اور اس کے نتیجے میں روس کے ساتھ مکمل جوہری جنگ کا اندیشہ پیش کیا گیا ہے جو ہیبت ناک حد تک حقیقی کہا جاسکتا ہے۔ کمزور دل والے یہ کتاب نہ پڑھیں تو بہتر ہوگا۔
اینی جیکب سن ایک امریکی تحقیقاتی صحافی اور مصنفہ ہیں۔ امریکی خفیہ ایجنسیوں کا نظام، ان کی عسکری اور نیم فوجی مہمات جیسے حساس موضوعات پر اُن کی تحقیق بےمثال ہے۔ جوہری سلامتی جیسے نازک امور پر مسلمہ مہارت رکھنے والی تجزیہ نگار ہیں۔ ریسرچ کی گہرائی اور باریک بینی نے انکی غیر افسانوی کتابوں کو عالمی سطح پر بحث کا موضوع بنایا ہے۔ ۲۰۱۶ء میں وہ پُلٹزر انعام کیلئے نامزد ہوئیں۔ ان کی تحریریں نظریات کے عام خانوں میں فِٹ نہیں بیٹھتیں کیونکہ وہ سیاسی تبصرے کے بجائے تحقیق اور حقائق پر مبنی رپورٹنگ کو ترجیح دیتی ہیں۔ طاقت کے گھمنڈ، خفیہ ایجنسیوں کی اندھیر نگری اور اختیارات کے غلط استعمال کو اینی، اپنے قلم کے ذریعے طشت از بام کرتی ہیں۔
لمحہ بہ لمحہ سنسنی
کتاب کا بیشترحصہ ثانیہ در ثانیہ رونما ہونے والے واقعات کو بیان کرتا ہے۔ اس چکرا دینے والے عمل کا ہر مرحلہ ایک دوسرے سے متصل ہے۔ شمالی کوریا سے ایک طاقتور ایٹمی ہتھیار امریکہ کی جانب داغا جاتا ہے۔ یہ براعظموں کو پار کرسکنے والی بیسلسٹک میزائل ہے۔ ایک سیکنڈ سے کم وقت میں امریکی سیٹیلائٹ اس کی اطلاع اپنے مرکز کو فراہم کردیتا ہے۔ ۶۰؍ سیکنڈ پر اسٹریٹیجک کمانڈ میں الارم بجنے لگتا ہے۔ تجزیے اور اندازے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ محض ۳؍ منٹ اور ۱۵؍سیکنڈ بعد، امریکی صدر تک اطلاع پہنچا دی جاتی ہے۔ اس سے قبل ہی، طے شدہ پالیسی کے مطابق، نیو کلیئر حملے کی محض وارننگ پر جوابی میزائل داغے جانے کیلئےتیار ہیں۔ ۲۳؍منٹ پر کیلیفورنیا میں پہلے دھماکے کے بعد، امریکی صدر، پیانگ یانگ کیخلاف حملے کا حکم دیتا ہے۔ امریکہ اپنی جوابی کارروائی کی اطلاع روسی صدر کو دینے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔ ۳۳؍ منٹ پر روس ایک بڑے ایٹمی حملے کا سراغ لگالیتا ہے اور اسے خود پر حملہ تصور کرتا ہے۔ ۴۱؍ منٹ پر، واشنگٹن میں قیامت کی تباہی برپا ہوتی ہے۔ اس دوران بڑی مہارت سے مصنفہ امریکہ کی دفاعی تنصیبات، اسکے نظام، احکامات دینے کے اختیاراتی سسٹم کا خاکہ پیش کرتی ہیں۔
مکمل تباہی
مصنفہ نے ایک میگاٹن کے تھرمو نیوکلیئر ہتھیار کے اثرات کی کہانی لکھی ہے۔ تھرمو نیوکلیئر بم روایتی ایٹم بم کا نسبتاً نیا ڈیزائن ہے۔ تباہی پھیلانے میں کئی سو گنا زیادہ طاقتور ہے۔ عام زبان میں اسے ہائیڈروجن بم کہتے ہیں۔ ہم ڈر کے مارے سارے مضمون میں سادہ الفاظ ایٹم بم یا نیو کلیئر اسلحہ ہی استعمال کر رہے ہیں۔ ایٹمی دھماکے میں پہلے بصارت چھین لینے والی روشنی پیدا ہوتی ہے اور پھر ایک زبردست فلک شگاف آواز۔ تھوڑی دیر کیلئے سورج کی سطح سے بھی زیادہ حرارت پیدا ہوتی ہے۔ انتہائی درجے کی یہ گرمی، یکایک بھاری دباؤ کا ایک ہوائی طوفان پیدا کردیتی ہے۔ میلوں تک عمارتیں فوری طور پر منہدم ہوجاتی ہیں۔ یہ طوفانِ باد لوگوں کو اُٹھا کر پٹخ دیتا ہے۔ کان کے پردے اور پھیپھڑے پھٹ پڑتے ہیں۔ جِلد جلنے لگتی ہے۔ پہلے دوسرے منٹ میں ایک ملین سے زیادہ لوگوں کی موت ہو سکتی ہے۔ زندہ بچ جانے والے صدمے، ہارٹ اٹیک اور خون کی کمی سے مر جاتے ہیں۔ پھر جگہ جگہ آگ لگنی شروع ہوتی ہے۔ گیس کی پائپ لائنیں پھٹنے لگتی ہیں۔ شدید حرارت سے سڑکوں کا تارکول پگھل کر بہنے لگتا ہے۔ چاروں طرف تابکاری کے اثرات ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ محکمہ صحت کا نظام کیا، پورا انتظامی ڈھانچہ ہی چرمرا کر ڈھیر ہوجاتا ہے۔
معروف سائنسداں کارل ساگان کے مطابق کسی بھی نیو کلیئر تصادم میں ایک بلین لوگ فوری طور پر مارے جائیں گے لیکن دور رس نتائج اوربھی ہولناک ہوں گے۔ زمین کا ماحول شدت سے متاثر ہوگا۔ غبار کی جو تہ زمین کے گرد جمع ہوگی وہ سورج کی شعاعوں کو ۷۰؍ فیصد تک روک دے گی۔ اندھیرا اور سردی! توانائی کی کوئی گنجائش نہیں۔ پھر مہینوں بعد جب اس تاریکی اور یخ بستگی کا اثر کم ہوگا تو زمین آفتاب کی کرنوں سے منور ہوگی لیکن اطرافِ زمین کی حفاظتی اوزون پرت بڑی حد تک پھٹ چکی ہوگی۔ سورج کی ماورائے بنفشی UV شعاعیں نئی مصیبت کی شکل میں نمودار ہوں گی۔ اب جو بچے ہونگے وہ بعد کے دور میں بیماریوں سے مر جائینگے۔
خرد مندوں کا عالمِ جنون
امریکہ نے جب ۱۹۴۵ء میں جاپان پر ایٹم بم گرایا تو آن کی آن میں ۸۰؍ ہزار لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔ سابقہ سویت یونین نے ۱۹۴۹ء میں نیوکلیئر اسلحے کی طاقت حاصل کرلی۔ اس دوران دیگر ممالک بھی تگ و دو میں لگے رہے۔ آج ۹؍ ممالک ( امریکہ، روس، چین، فرانس، برطانیہ، اسرائیل، ہندوستان، پاکستان اور شمالی کوریا) نیو کلیئر ہتھیاروں کے مالک ہیں۔ امریکہ کے پاس ہمہ وقت کتنا نیوکلیئر سازو سامان، ایک منٹ میں استعمال کیلئے تیار حالت میں موجود ہوتا ہے ؟ ۱۴؍ بین البر اعظمی میزائیل، ۴؍ آبدوزیں، ۶۶؍ بمبارطیارے اور۱۷۷۰؍ بم۔ باقی نیو کلیئر اسلحہ کا بھنڈار الگ۔ روس اور دیگر ممالک کے پاس بھی بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ راقم خود سے پوچھتا ہے کہ جب چند ہی کافی تھے تو اتنے بموں کی کیا ضرورت ؟ کہیں سے صدا آتی ہے ڈیٹیرنس، ڈیٹیرنس!
کوئی جیتے گا نہیں
ڈیٹیرنس یعنی باز رکھنا۔ اس اصطلاح کے معنی ہیں کہ ایٹمی ہتھیاراستعمال کیلئے نہیں، مخالف ملک کو ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے باز رکھنے کیلئے ہیں۔ ہم یہ لفظ بار بار سنتے ہیں۔ عوام کو یہ تصوربیچا گیا ہے تاکہ انھیں باور کرایا جاسکے کہ نیوکلیئر اسلحے کا اسٹاک بنانے اور جمع کرتے رہنا کیوں ضروری ہے۔ یہی تصور، ایٹمی اسلحوں پر اربوں ڈالر خرچ کرنے کا جواز پیدا کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ’ باز رکھنے‘ کے اس تصور نے دنیا کو کسی نیوکلیئر جنگ سے اب تک محفوظ رکھا ہے لیکن اگر کسی وجہ سے ڈیٹیرنس ناکام ہو جائے تب کیا ہوگا؟ ڈیٹیرنس ایک نفسیاتی کیفیت کا نام ہے۔ ایک دفعہ ڈیٹیرنس ناکام ہو تو پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ روز مرہ کا عام ڈیٹیرنس، ایک بحرانی صورتحال کے ڈیٹیرنس سے مختلف ہوگا۔ اسی طرح کسی کے ایٹمی حملہ کرنے کے بعد وہ ڈیٹیرنس جسے آپ قائم کرنا چاہتےہیں، مختلف ہوگا۔ ایک دفعہ ایٹمی جنگ شروع ہو جائے تو ڈی ایسکی لیشن یعنی صورتحال کے تناؤ میں کمی جیسا کوئی اختیار باقی ہی نہیں رہتا کہ چلو استعمال کر لیں۔ ایٹمی جنگ میں کوئی قوم فتحیاب ہوگی، اس کا ہلکا سا بھی امکان نہیں !
بحر و بر میں فساد
دنیا مین این پی ٹی نامی ایک میکانزم موجود ہے جس کا مقصد جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی روک تھام اور پرامن مقاصد کی خاطر جوہری توانائی کیلئے باہمی تعاون کا فروغ ہے۔ انٹر نیشنل اٹامک انرجی ایجنسی اس انتظام کو سنبھالتی ہے۔ اس کے ذریعے بڑی طاقتوں نے ایٹمی ہتھیاروں میں کمی کی اور دیگر کو روکا لیکن دیکھئے کہ اس معاہدہ پر دستخط اور اس کی شرائط پر عمل کرنے کے باوجود گزشتہ دنوں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امریکہ نے ایرانی نیوکلیئر پلانٹ پرحملہ کردیا۔ اب اس معاہدے اور اس اتھاریٹی کی کیا وقعت باقی رہی؟
اس کتاب کیلئے مصنفہ نے درجنوں ماہرینِ جنگ، سابق فوجی عہدیداروں اور سول حکام سے انٹرویوز کرکے گہری اندرونی معلومات و اطلاعات حاصل کیں۔ نیوکلیئر وار ہر اس شخص کیلئے ایک بہترین کتاب ہے جو یہ سمجھنا چاہتا ہو کہ جوہری تنازع کتنی جلدی شروع ہو سکتا ہے اور کتنی بُری طرح ختم ہو سکتا ہے۔ اینی جیکب سن، ٹیکنالوجی کی خامیاں اورسسٹم کی کمزوریاں بے نقاب کرتی ہیں۔ انسان کی اپنی فطری کوتاہیاں بھی آشکار کرتی ہیں۔ خشکی اور تری میں جو فساد پھیل گیا ہے وہ ہمارے ہی کرتوتوں کا پھل ہے۔ جو اصحابِ اقتدار ہیں وہ تو براہ راست ذمہ دار ہیں۔ ہم جیسے عوام بھی، جُرمِ غفلت کو صبح شام انجام دیتے ہیں۔ ہم نے پڑھا ہے کہ روزِ تخلیق یہ بات آئی تھی کہ تیرا یہ خلیفہ زمین پر خونریزی کرے گا۔ اب اس قیامت خیز خونریزی کے متعلق سوچ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ خدا سب کو عقل سلیم عطا کرے۔