Inquilab Logo

اے عمرو،تمہاری مدد کی جائیگی، بادل کا یہ ٹکڑا بھی بنی کعب کی نصرت کا طلبگار ہے

Updated: May 26, 2023, 10:46 AM IST | Maulana Nadeem Al-Wajdi | Mumbai

سیرتِ نبی ٔ کریم ؐ کی اس خصوصی سیریز میں اس ہفتے سے فتح مکہ کا تذکرہ شروع ہورہا ہے۔ آج فتح مکہ کے پس منظر کی تفصیل پڑھئے کہ کس طرح صلح حدیبیہ کے معاہدے کو قریش اور اس کے حلیفوں نے خود ہی توڑا تھا

At the time when the people of Banu Khuza`ah came to the service of the Holy Prophet with their cries, the Holy Prophet was present in the same mosque, i.e. the Prophet`s Mosque.
جس وقت بنوخزاعہ کے لوگ آپؐ کی خدمت میں اپنی فریاد لے کر حاضر ہوئے ، آپؐ اسی مسجد یعنی مسجد نبویؐ میں تشریف فرما تھے

فتح مکہ کا پس منظر
حدیبیہ کے واقعات تفصیل کے ساتھ  پیش کئے جاچکے ہیں۔ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور قریش کے درمیان جو صلح نامہ لکھا گیا تھا اس کی ایک اہم شق یہ تھی کہ دس سال تک ان دونوں کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوگی، دس سال کے بعد اس پر غور کیا جائے گا کہ معاہدۂ صلح باقی رکھا جائے یا ختم کردیا جائے۔ اس معاہدے میں تمام قبائل عرب کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے جس فریق کے ساتھ چاہیں رہیں، اگر کوئی قبیلہ کسی ایک فریق کا حلیف بن کر رہنا چاہتا ہے تو دوسرے قبیلے کو اس پر اعتراض کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ چنانچہ قبیلۂ بنی خزاعہ نے مسلمانوں کا ساتھ اختیار کیا، اور قبیلۂ بنی بکر نے قریش کا دامن پکڑ ا۔ اس معاہدے کے بعد دونوں طرف کے لوگ سترہ مہینوں تک پُر امن ماحول میں اپن ے شب و روز گزارتے رہے۔
بنی بکر اور بنی خزاعہ کی آبادیاں مکہ مکرمہ کے قریب تھیں۔ قدیم زمانے سے ان دونوں کے درمیان رنجش چلی آرہی تھی اور وقتاً فوقتاً اس کا اظہار بھی ہوتا رہتا تھا۔ ظہور اسلام سے پہلے بنی خزاعہ کے لوگوں نے بنی بکر کے حلیف سردار اَسود بن رَزن کو قتل کردیا تھا۔ وہ مال تجارت کے ساتھ بنی خزاعہ کے قریب سے گزر رہا تھا، بنی بکر نے اپنے حلیف کی حمایت میں بنی خزاعہ کے ایک شخص کو قتل کردیا، اس واقعے سے مشتعل ہوکر بنی خزاعہ کے لوگوں نے اسود بن رزن کے دو بیٹوں سلمی کلثوم اور ذؤئب کو قتل کردیا، ان کا تعلق بنی کنانہ سے تھا  اور یہ اپنے علاقے میں انتہائی معزز سمجھے جاتے تھے۔ ان کے دبدبے کا یہ حال تھا کہ عام طور پر ایک قتل کی دیت سو اونٹ تھی لیکن بنی کنانہ کے ان معزز سرداروں کے قتل کی دیت دو سو اونٹ مقرر کی گئی تھی۔
یہ حالات تھے جب اسلام کا ظہور ہوا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی دعوت وتبلیغ میں ہمہ تن مصروف ہوئے۔ بنو بکر کے لوگ خزاعہ سے انتقام لینا چاہتے تھے مگر کچھ عرصے تک ان کو اس کا موقع نہ مل سکا۔ انتقام کی آگ ان کے دلوں میں بھڑک رہی تھی کہ صلح حدیبیہ کا غیر معمولی واقعہ پیش آگیا، سترہ مہینے خاموشی کے ساتھ گزر گئے، اسود بن رزن اور اس کے بیٹوں کا قتل کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ ایک دن موقع پاکر بنو بکر کی شاخ بنو الدیل کے سردار نوفَل بن معاویہ نے اپنے قبیلے کے جوانوں کے ساتھ مل کر بنی خزاعہ پر حملہ کردیا، اور ان کے ایک شخص کو قتل کردیا جو الوتیر نامی چشمۂ آب پر موجود تھا۔ بنی خزاعہ کے کچھ لوگ مقتول کے دفاع میں آئے تو ان پر بھی حملہ کیا گیا، بعض ان میں سے قتل بھی ہوئے، کچھ لوگ بھاگ کر مکہ مکرمہ چلے گئے اور حرم میں داخل ہوگئے۔ انہوں نے آواز لگائی، اے نوفل! رُک جاؤ، ہم حرم میں داخل ہوچکے ہیں، اس کے تقدس کا تقاضا یہ ہے کہ یہاں خون نہ بہایا جائے، اور جو اس میں داخل ہوجائے اس کو قتل نہ کیا جائے، مگر نوفل پر انتقام کا بھوت سوار تھا، اس نے ایک نہ سنی اور حرم میں داخل ہوکر خزاعہ کے لوگوں کو قتل کر دیا، کچھ لوگ جان بچا کر بُدیل بن ورقاء کے گھر میں داخل ہوگئے اور اس سے بنوبکر کے مظالم کی شکایت کی، کیونکہ قاتلین قریش مکہ کے حلیف تھے اس لئے وہ اس جھگڑے کے دوران ہتھیار وغیرہ سے ان لوگوں کی مدد کرتے رہے۔ اس طرح عملاً قریش نے رسولؐ اکرم کے ساتھ کئے ہوئے معاہدہ کو توڑ دیا۔ (المغازی للواقدی: ۲/۷۸۱، اصح السیر: ۲۴۴)
خزاعہ کا وفد دربار رسالتؐ میں
اِدھر بنی بکر کے لوگ خزاعہ کے لوگوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے تھے، اُدھر عمرو بن سالم خزاعی چالیس سواروں کے ساتھ مدینے روانہ ہورہا تھا۔ اس کا مقصد آپؐ کو واقعات کی اطلاع دینا تھا اور آپؐ سے ان کے خلاف مدد کی درخواست کرنا تھا۔ جس وقت یہ لوگ مدینہ پہنچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے۔ عمرو بن سالم نے دور ہی سے اپنے اشعار کے ذریعہ  بنی بکر کے مظالم کی داستان بیان کرنی شروع کردی، اس نے یہ بھی عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہم مسلمان ہیں اور ہمیں ظلماً قتل کیا گیا ہے، ہماری مدد فرمائیں۔ آپؐ نے یہ اشعار سنے اور وہیں سے فرمایا: اے عمرو تمہاری مدد کی جائے گی، اگر میں بنی کعب کی مدد نہ کروں تو اللہ میری مدد نہ فرمائے۔ اس وقت آسمان کی فضائے بسیط میں ابر کا ایک ٹکڑا محو خرام تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’بادل کا یہ ٹکڑا بھی بنی کعب کی مدد اور نصرت کا طلبگار ہے۔‘‘ اس کے بعد دریافت فرمایا کہ کیا پورا قبیلۂ بنی بکر اس حرکت میں ملوث ہے؟ آنے والوں نے عرض کیا: نہیں، بنوبکر کے بنونفاثہ نے اپنے سردار نوفل کی سرکردگی میں ان مظالم کا ارتکاب کیا ہے۔ آپؐ نے ابوعمرو اور ان کے ساتھیوں کو تسلی دی اور امداد و اعانت کا وعدہ کرکے انہیں رخصت کیا۔ (سیرت ابن ہشام: ۴/۴۴، البدایہ والنہایہ: ۴/۲۷۸)
بُدَیْل بن وَرْقاء کی آمد
ابوعمرو کی واپسی کے بعد بدیل بن ورقاء بھی مدینے پہنچے، ان کے ساتھ خزاعہ کے چند لوگ بھی تھے۔خود بدیل بھی خزاعی تھے اور مکہ مکرمہ میں سکونت پذیر تھے، جس وقت بنو بکر کے لوگ حرم کی حدود میں خزاعیوں کو نشانہ بنارہے تھے ان میں سے بعض لوگ بدیل بن ورقاء کے گھر میں داخل ہوگئے اور انہیں تمام حالات بتلا کر ان سے مدد چاہی۔ ابوعمرو کی واپسی کے بعد کچھ لوگوں کو لے کر بدیل بن ورقاء بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوئے، انہوں نے بھی بنو بکر کے ظلم وستم کے واقعات بیان کئے۔ بدیل بن ورقاء کی واپسی کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرامؓ سے فرمایا کہ اب ابو سفیان بھی آنے والا ہے، اس کے بعد آپؐ نے قریش کو یہ پیغام بھجوایا کہ حدیبیہ میں جو معاہدہ ہمارے اور آپ کے درمیان ہواتھا وہ عملاً ختم ہوچکا ہے، اور اس کو ختم کرنے والے آپ لوگ ہیں، اب آپ کو ان تین میں سے ایک راستہ اختیار کرنا ہے، چوتھے کی کوئی گنجائش نہیں ہے:
 (۱)بنو نفاثہ کے ساتھ اپنا تعلق ختم کریں، اور اس کا اعلان کریں۔ (۲) بنو خزاعہ کے مقتولین کی دیت ادا کریں، اور (۳) اگر ایسا نہیں کیا تو جنگ کے لئے تیار ہوجائیں۔
اس کے جوا ب میں قریش نے کہلوایا کہ ہمیں آپؐ کی یہ تینوں باتیں منظور نہیں ہیں، بنوبکر کی دوستی سے ہم کسی قیمت پر دست بردار نہیں ہوسکتے، ایک قبیلہ یہی تو ہے جو آج تک ہمارے دین پر قائم ہے اور ہماری دوستی کا حق نباہ رہا ہے۔ ہم دیت بھی ادا نہیں کرینگے، البتہ اگر آپ جنگ کرنا چاہتے ہیں تو ہم بھی پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ رسولؐ اللہ  نے اچانک ہی قریش پر حملہ نہیں کیا بلکہ پہلے انہیں سمجھانے کی کوشش کی گئی، جب قریش نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا تب آپؐ نے یہ طے فرمایا کہ مکہ مکرمہ کی طرف کوچ کیا جائے اور قریش کو سبق سکھلایا جائے۔ (المطالب العالیہ: ۴/۲۴۳، رقم الحدیث: ۴۳۶۱، التاریخ الاسلامی: ۷/۱۶۴)
ابوسفیان مدینے میں
بدیل بن ورقاء مدینے سے رخصت ہوکر چلے، راستے میں ان کی ملاقات ابوسفیان سے ہوگئی۔ بدیل کو دیکھ کر ابوسفیان کا ماتھا ٹھنکا، اسے یقین تھا کہ بدیل محمد ؐسے مل کر آرہا ہے، اس نے یقیناً موجودہ حالات کے حوالے سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کان بھرے ہوں گے، پھر بھی اپنی تسلی کے لئے اس نے پوچھ ہی لیا کہ کہاںسے آرہے ہو؟ کیا تم محمد ؐکے پاس گئے تھے؟  بدیل نے کہا: نہیں، میں قریب کی ایک وادی میں کسی کام سے گیا تھا۔ یہ کہہ کر بدیل تو مکہ کی طرف چلے گئے، ابو سفیان نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس کی اونٹنی کی مینگنیاں توڑ کر دیکھو، اگر وہ مدینے سے آیا ہے تو یقیناً ان میں کھجور کی گٹھلیاں ہوں گی۔ مینگنیاں توڑی گئیں، ان میں کھجور کی گٹھلیاں موجود تھیں، ابوسفیان کو یقین ہوگیا کہ بدیل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے خلاف بھڑکانے گیا تھا۔
مدینہ پہنچ کر سب سے پہلے وہ اپنی بیٹی ام المؤمنین حضرت ام حبیبہؓ کے گھر گیا۔ ان کے کمرے میں بستر بچھا ہوا تھا، ابوسفیان نے اس پر بیٹھنے کا ارادہ کیا، حضرت ام حبیبہؓ نے جلدی سے وہ بستر طے کرکے ایک کونے میں رکھ دیا، ابوسفیان نے کہا: بیٹی! کیا ہم اس بستر پر بیٹھنے کے اہل نہیں ہیں یا یہ بستر ہمارے شایانِ شان نہیں ہے، حضرت ام حبیبہؓ نے جواب دیا: یہ بستر رسولؐ اللہ  کا ہے، اور آپ مشرک اور ناپاک انسان ہیں، ہم نہیں چاہتے کہ آپ جیسے لوگ اس بستر پر بیٹھیں۔ ابوسفیان نے ناراض ہوکر کہا کہ تم ہمارے پاس سے آنے کے بعد شر میں مبتلا ہوگئی ہو۔ (البدایہ والنہایہ: ۴/۲۷۹، تاریخ الطبری: ۲/۱۵۴)
حضرت ام حبیبہؓ کے گھر سے نکل کر ابوسفیان نے مسجد نبویؐ کا رخ کیا۔ حضورؐ نے اسے آتے ہوئے دیکھا، مگر اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کی، اس نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا۔ آپؐ نے اعراض فرمایا، کوئی جواب نہیں دیا۔ مایوس ہوکر وہ پہلے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس گیا اور انہیں بتلایا کہ میں معاہدے کی تجدید کے لئے یہاں آیا ہوں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے کہا تھا کہ قریش معاہدے کی تجدید چاہتے ہیں مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا، آپ میری سفارش کردیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا: میں اس سلسلے میں کچھ نہیں کرسکتا۔ وہاں سے نکل کر وہ حضرت عمر بن الخطابؓ کے پاس گیا اور ان سے بھی وہی کہا جو حضرت ابوبکرؓ سے کہا تھا۔ حضرت عمر بن الخطابؓ نے فرمایا: کیا میں تمہاری سفارش کروں؟ میرا حال تو یہ ہے کہ اگر تم سے لڑنے کے لئے میرے پاس کچھ نہ ہو، تب بھی میں تم سے لڑوں۔پھر وہ حضرت علیؓ کے پاس آیا، وہاں حضرت فاطمہؓ بھی موجود تھیں، حضرت حسنؓ بھی قریب میں کھیل رہے تھے، ابوسفیان نے حضرت فاطمہؓ سے کہا کہ اگر آپ اس بچے کی زبان سے یہ کہلوادیں کہ میں نے قریش کو پناہ دی تو سارا عرب اس بچے کو اپنا سردار سمجھے گا۔ حضرت فاطمہؓ نے کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ابھی میرا بیٹا بہت چھوٹا ہے، اسے کیا پتہ کہ پناہ کیا ہوتی ہے اور قریش کون ہیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے بغیر پناہ لینے دینے والے ہم کون ہیں۔ 
ابوسفیان نے حضرت علیؓ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ ہی ہمارے لیے کچھ کریں، آپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی بھی ہیں اور ان کے داماد بھی، وہ آپ کی بات نہیں ٹالیں گے۔ انہوں نے کہا: اے ابوسفیان! جب رسول اللہ ﷺکسی معاملے میں کوئی موقف اختیار کرلیتے ہیں یا کوئی فیصلہ فرمالیتے ہیں تو ہم میں سے کسی شخص کو یہ ہمت نہیں ہوتی کہ وہ اس معاملے میں لب کشائی کرسکے۔ ابوسفیان نے کہا: اچھا آپ کوئی مناسب مشورہ دیں، یا کوئی تدبیر ایسی بتا دیں کہ میرا مقصد پورا ہوجائے، حضرت علیؓ نے فرمایا: ایک تجویز میرے ذہن میں آتی ہے، اگرچہ اس پر عمل کرنے سے تمہارا مقصد پورا ہونے والا نہیں ہے، مگر اس کے علاوہ کچھ ہو بھی نہیں سکتا۔ 
حضرت علیؓ کی تجویز یہ تھی کہ آپ رسول اللہ ﷺ کے پاس جائیں اور بآواز بلند یہ اعلان کردیں کہ میں یہاں قریش کی طرف سے آیا ہوں اور میرا مقصد یہ ہے کہ جو معاہدہ ہمارے اور آپؐ کے درمیان طے پایا تھا اس کی تجدید کریں اور اس کی مدت بڑھا دیں۔
 ابوسفیان نے ایسا ہی کیا۔ جب وہ واپس مکہ مکرمہ پہنچا تو لوگوں نے پوچھا کہ ابوسفیان! تم مدینے محمد ؐ کے پاس گئے تھے، کیا رہا، کیا کرکے آئے ہو؟ ابوسفیان نے تمام واقعات بلا کم و کاست بیان کردیئے اور یہ بھی بتلا دیا کہ میں تو ان کی مسجد میں یہ اعلان کرکے آگیا ہوں۔ لوگوں نے کہا یہ کیا بات ہوئی، کیا اس سے معاہدہ کی تجدید ہوگئی؟ کیا محمد نے تمہاری بات مان لی؟  انہوں نے تو نہ نفی میں جواب دیا نہ اثبات میں، ابوسفیان نے جھلّا کر کہا کہ میں کیا کرتا، میرے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ تھا ہی نہیں۔ (سیرت ابن ہشام: ۴/۳۰۶)(جاری)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK