Inquilab Logo Happiest Places to Work

اس ہفتے کرنل صوفیہ اور وِنگ کمانڈر ویومیکا سنگھ کا انتخاب بھی سرخیوں میں رہا

Updated: May 11, 2025, 3:41 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

پہلگام حملے کا دندان شکن جواب دیتے ہوئے ہندوستانی افواج نے پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں پر حملے کرکے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نیست نابود کردیا۔

Students and citizens of the country immersed in celebration, portraying the role of Colonel Sophia and Wing Commander Vyomika Singh. Photo: INN.
کرنل صوفیہ اور وِنگ کمانڈر ویومیکا سنگھ کی تمثیل پیش کرتی ہوئی طالبات اور جشن میں ڈوبے ملک کے شہری۔ تصویر: آئی این این۔

پہلگام حملے کا دندان شکن جواب دیتے ہوئے ہندوستانی افواج نے پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں پر حملے کرکے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نیست نابود کردیا۔ فوج کے اس دلیرانہ اقدام کی ستائش پوری ہندوستانی قوم بیک زبان کررہی ہے۔ ہندوستان نے اس سے قبل دو بار پاکستان پر سر جیکل اسٹرائیک کیا ہے، اس کے باوجود دہشت گرد اپنی ناپاک حرکتوں سے باز نہیں آئے اور بے قصوروں کی جانیں لی۔ اگرچہ جنگ مسئلے کا حل نہیں ہے، لیکن اگر کوئی مسلسل امن و سکون کو غارت کرے تو اس کا جواب دینا بھی ضروری ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں دہشت گردوں کی سازش کو ناکام بنانے کیلئے کئے گئے’آپریشن سیندور‘ پر غیر اردو اخبارات نے کیا کچھ لکھا ہے؟
آپریشن سیندور‘ سے دشمن ملک کو سخت پیغام دیا گیا
مراٹھی اخبار ’پربھات‘ نے ۸؍مئی کے اداریے میں لکھا ہے کہ’’ ۲۲؍ اپریل کو کشمیر کے پہلگام میں ہوئے دہشت گردانہ حملے کے ۱۵؍ دن بعد ہندوستان نے `آپریشن سیندور ` کے ذریعے بھر پور جواب دیا ہے۔ ۱۹۷۲ء کے بعد پہلی بار ہندوستانی دفاعی افواج کی تینوں شاخوں نے پاکستان کے مقبوضہ کشمیر اور پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملہ کرنے اور انہیں تباہ کرنے کیلئے مشترکہ آپریشن کیا ہے۔ پہلگام میں حملے کے بعد ملک بھر میں شدید غصے کی لہر دوڑ گئی تھی۔ وزیر اعظم مودی نے اعلان کیا تھا کہ دہشت گردی کو دفن کرنے کیلئے جلد ہی کارروائی کی جائے گی۔ اب `’آپریشن سیندور‘ کے ذریعے پاکستان کے اندر گھس کر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نیست نابود کردیا گیا ہے۔ ملک کے شہری ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے ممالک کی توجہ اس جانب تھی کہ ہندوستان کیسی کارروائی کرتا ہے۔ اس کارروائی کو انجام دیتے وقت اس بات کا خیال رکھا گیا کہ پاکستانی فوجی اڈوں یا عام شہریوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ دہشت گردوں کے اڈوں پر حملہ کرکے دہشت گردوں کو کرارا جواب دیا گیا ہے۔ پہلگام حملے کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک قرارداد منظور کی تھی کہ اس حملے کے ذمہ داروں کو سزا دی جانی چاہئے۔ اس قرارداد کی بنیاد پر ہندوستان نےاس حملے کے ذمہ داروں کو’آپریشن سیندور‘کے ذریعے سزا دینے کا کام کیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپریشن کے بعد ہندوستانی دفاعی فورسیز کی دو خاتون اہلکاروں نے اس آپریشن کی معلومات دے کر دشمن ملک کو سخت پیغام دیا ہے۔‘‘
پاکستان کو کئی مواقع دیئے گئے لیکن وہ باز نہیں آیا
ہندی اخبار ’نوبھارت ٹائمز‘ اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ’’ہندوستانی فوج نے پاکستان اور پی او کے میں ۹؍ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ ان مقامات کا استعمال لشکر طیبہ اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں کررہی تھیں۔ یہیں پر ان دہشت گردوں کو ٹریننگ دی گئی جنہوں نے ہندوستان میں بزدلانہ حملے کئے۔ پاکستان کو ان کے بارے میں بار بار آگاہ کیا گیا لیکن وہ کوئی کارروائی کرنے کے بجائے ان کی موجودگی ہی سے انکار کرتا رہا۔ اس نے عالمی برادری کی اپیلوں پر بھی کوئی توجہ نہیں دی۔ ۲۰۱۶ء اور ۲۰۱۹ء میں بھی ہندوستانی فوج نے دہشت گردانہ حملوں کے جواب میں بالترتیب سرجیکل اسٹرائیک اور دہشت گردی کے لانچ پیڈ کو نشانہ بنایا تھا۔ آپریشن سیندور اس سے بھی بڑا حملہ ہے۔ اس میں بڑے علاقے میں پھیلے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو نشانہ بنایا گیا ہے، جو بین الاقوامی سرحد سے تقریباً ۱۰۰ کلومیٹر اندر تھے۔ پہلگام میں ہوئے دہشت گردانہ حملے سے پورے ملک میں غم و غصہ کا ماحول تھا۔ ان کا مقصد ہندوستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنا تھا۔ اس حوالے سے کشمیر سے لے کر ملک بھر میں غصہ تھا اور ہندوستان کی جانب سے جواب بھی لازمی تھا۔ پاکستان کو اپنی غلطی درست کرنے اور اپنی سرزمین پر پروان چڑھنے والے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا پورا موقع دیا گیا لیکن اس نے کسی طرح کے ٹھوس قدم نہیں اٹھائے۔ ‘‘
دہشت گردوں کو ان کی سوچ سے بھی سخت سزادی گئی
مراٹھی اخبار’سنچار‘ اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ’’ پاکستان کے حمایت یافتہ دہشت گردوں نے پہلگام میں مذہب کی بنیاد پر ۲۶؍ سیاحوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ ہندوستان نے’آپریشن سیندور‘ کے ذریعہ مناسب انتقام لیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر اور دیگر جگہوں پر قائم دہشت گردوں کے ۹؍ ٹھکانوں کو جدید ترین ہتھیاروں ، میزائلوں اور بموں کی بارش کرکے تباہ کردیا گیا ہے۔ ہندوستان کو ٹیڑھی نظر سے دیکھنے والے پاکستان کو یہ سخت جواب ہمیشہ یاد رہے گا۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے جموں کشمیر دہشت گردانہ کارروائیوں سے متاثر تھا۔ اب جبکہ وہاں ترقی کے مواقع پیدا ہورہے ہیں توپاکستان سے دیکھا نہیں گیا۔ جموں کشمیر سے آرٹیکل ۳۷۰؍ ہٹائے جانے کے بعد مرکزی حکومت نے وہاں کئی ترقیاتی کاموں کی شروعات کی ہے۔ بے روزگار لوگوں کو روزگار کے مواقع ہاتھ آئے ہیں۔ پچھلے دو سال میں کروڑوں سیاحوں نے جنت نشاں کشمیر کی سیر کی۔ دھیرے دھیرے کشمیر کے لوگ ترقی کے دھارے میں آرہے تھے، لیکن پاکستان جنت ارضی کہے جانے والے کشمیر میں خوں ریزی کرنا چاہتا تھا اسلئے تربیت یافتہ دہشت گردوں کو پہلگام بھیجا گیا۔ ان دہشت گردوں نے بے گناہ سیاحوں کو نشانہ بنایا۔ اس حملے کے خلاف ملک بھر میں غصے کا ماحول تھا۔ شہریوں کے جذبات کو ذہن میں رکھتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے یقین دلایا تھا کہ دہشت گردوں کو ان کی سوچ سے بھی زیادہ سخت سزا دی جائے گی۔ ‘‘
ملک کی ذمہ داری اپنوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے
انگریزی اخبار ’دی فری پریس جنرل‘ نے اداریہ لکھا ہے کہ ’’ ہندوستانی فوج نے پاکستان اور مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردوں کے۹؍ کیمپوں کو تباہ کر کے دہشت گردانہ کارروائیوں کو انجام دینے والوں کو اچھا سبق سکھایا ہے۔ ہندوستانی کارروائی ۲۲؍ اپریل کو پہلگام میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے رد عمل میں ہوئی ہےجس میں ۲۶؍ سیاحوں کو پاکستان میں مقیم لشکر طیبہ کے دہشت گردوں نے بے دردی سے ہلاک کردیا تھا۔ ایک شادی شدہ ہندو عورت کے مقدس سیندور کو علامت بنا کر’آپریشن سیندور‘ کے تحت فوجی کارروائی کرکے دشمن ملک کو سخت پیغام دیا۔ مسلح افواج نے پاکستان میں دہشت گردوں کے کیمپوں کو تباہ کرنے کیلئے ۲۴؍ میزائل داغے۔ اس حملے میں مبینہ طور پر۷۰؍ دہشت گرد مارے گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر لشکر طیبہ اور جیش کے دہشت گرد شامل تھے۔ جو گزشتہ کئی سال سے ہندوستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دے رہے ہیں۔ عالمی لیڈروں کی جانب سے تحمل سے کام لینے کے مشورے کے باوجود ہندوستان نے اپنے مقصد کو آگے بڑھانے کا فیصلہ جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عالمی رائے کے احترام کے باوجود اس کی بنیادی ذمہ داری اپنے لوگوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK